پچھلے مہینے ہونے والے طویل بم دھماکوں اور ریلوئے پر ہونے والے جو کہ پانچ ائے کینیڈا ٹرین ہے ؟ انتہائی شدید اور حفاظتی اداروں نے مختلف اور تھکی ہویئں غیر متعلقہ باتیں کیں ہیں۔ جیسا کہ " شدت پسندی " غصہ امریکی سامراجیت کے خلاف جو کہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان پر سنجیدہ گفتگو کی جائے۔ دوسری طرف قدامت پرست آپس میں سنجیدہ اور طویل بحث کر رہے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ اسلام بطور مذہب محرک مہیا کرتا ہے۔ کچھ دوسروں کاخیال ہے کہ یہ ایک مختلف جدید شدت پسند مذہب ہے جو کہ تشدد پسند اسلام یا اسلام ازم ہے۔
اس بحث کا ایک حصّہ ہونے کے ناطے جو بعد میں ہوئی۔ میری دلیل کا مرکز یہاں اسلام ہے۔
قائرہ کی الاظہر مسجد جو کہ 972 ء میں مکمل ہوئی۔ اسلامی ّثقافت کی بلندی کا نمونہ ہے۔ |
وہ جو اسلام کو بذات خود ایک مئسلہ کہہ کر نشانہ بناتے ہیں ( ایکس مسلم : وفا سلطان،اور آیان حضری علی ) وہ موجودہ صورت حال کے لیے حضرت محمد کی زندگی سے احادیث اور قرآن پاک کے اقتباسات سے دلیل دیتے ہیں ۔
گریٹ ولڈڑ سے اتفاق کرتے ہوئے انھوں نے فلم فتنہ کے ذریعے متحرک تسلسل کی طرف اشارہ کیا ہے جو کہ قرآن پاک کی آیات میں جہاد کے عمل کے حوالے سے ملتی ہیں ۔ وہ اسلام کی تعلیمات کو کوٹ کر کے کہتے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات سے مسلمانوں کی مرکزیت، جہاد اور عورت سے نا پسندیدگی اس بات کو ثابت کرتی ہے۔ وہ ترکی کے وزیراعظم ریسپ طیب ایردوگان کی طرف مضحکہ انداز میں اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ کہ اسلام کا میانہ رو کا نظریہ ناممکن ہے۔
ان کا کلر :سوال کرتا ہے کہ محمد ایک مسلم تھے یا اسلامیسٹ؟ وہ مطمئین ہیں کہ وہ بزدلی اور درستگی کی بنا پر اسلام ازم کوموردالزام ٹھراتے ہبں
کس کے لیے ہم نے جواب دیا: ہاں کچھ تسلسل ضرور وجود رکھتے ہیں، اور اسلام پسند یقینا حدیث اور قرآن کی حقیقتا پیروی کرتے ہیں۔ اور درمیانی راستہ اختیار کرنے والے مسلمان موجود ہیں۔
ایرڈوگان کا میانہ رو اسلام سے انکار اس نقطہ نظرکی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسلام اور اینٹی اسلام اختلافات آپس میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ محمد ایک مسلمان تھے نہ کہ ایک اسلامیسٹ یہ تصور بہت بعد میں 1920 ء میں شروع ہوا ہر گز نہیں ہم بد دل نہیں ہیں بلکہ اپنا صحیح تصور پیش کرتے ہیں۔
اسلام چودہ سو صدی پہلے کا ہے۔ جس کے ایک ارب سے زیادہ پیروکاو تھے۔ جس میں خاموش طبیعت صوفی سے لے کر شدت پسند مجاہد تک ۔1200 ء سے 1600 ء ہجری تک مسلمانوں نے شاندار فوجی، معاشی اور ثقافتی کامیابی حاصل کی۔ ایک مسلمان ہونے کا مطلب ہے کہ آپ ایک فاتح قوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ " ایک حقیقت جو کہ مسلمانوں کو کامیابی سے اپنے دین کے ساتھ تعلق کا یقین دلاتی ہے" وہ یادیں قرآن داستان کی حقیقت نہ کہ مسلمانوں کو یاد ہے بلکہ پیروکاروں کے عقیدئے کو اسلام پر مضبوط اور بطور مسلمان خود پر بھی مضبوط کرتی ہیں۔ ایک بڑی ہل چل تب شروع ہوئی جب 1800ء میں مسلمانوں نے غیر متوقع طور پر جنگ ہاری مارکیٹ اور سماجی قیادت میں مغربی یورپ سےپیچھے رہ گئے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بطور مسلمان ایک گروہ زندگی کے ہر شعبے میں نیچے کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ تبدیلی بہت زیادہ غصے اور الجھن کا باعث بنی ہے۔ کیا غلط ہو گیا، کیوں خدا نے اپنے عقیدہ پرچلنے والوں کو باظاہر اکیلے چھوڑ دیا؟ قدیم فناء اور جدید ناکامی کے درمیان ناقابل برداشت اختلاف اصل الجھن کا باعث ہیں
اس برہان کے نتیجے میں تین طرح کے مسلمان سامنے آئے۔ لادین پسند جو چاہتے ہیں کہ مسلمان شفاعت کو دفن کرکے مغرب کی پیروی کریں۔ اپلوجیسٹ بھی مغرب کی پیروی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ مغرب کی پیروی کررہے ہیں۔ اسلامک مغرب کی رورواں شفاعت کے حق میں نہیں ہیں۔ اسلام پسند مغرب کو نا پسند کرتے ہیں۔یہ بہت زیادہ عیسائیوں سے مترادف ہے " تا ریخ اور حقیقت ميں اس کا مسلمانوں پر بہت زیادہ اثرورسوخ ہے ۔ اسلام ایک تحریک کو ابھارتا ہے کہ مغرب کو رد کر دیا جائے شکست دئے دی جائے اور سر نگوں کر دیا جائے۔ اس خواہش کے باوجود " اسلام پسندمغرب کے اثر اور یہاں تک کہ ان کے نظریات کے اثر کو بھی قبول کرتے ہیں
ان کی خواہش کے باوجود اسلام پسندوں کے نظریے کے تصور سمیت، مغربی نظریے قبول کرتے ہیں بے شک اسلام ایک سیاسی نظریے میں اسلامی عقیدئے کی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔
اسلام مکمل طور پر ایک ایسے اسلامی رویے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو مکمل طور پر خیالی ہے۔" جو کہ ایک ازم ہے دوسرئے ازم کی طرح جس کا فسطائیت اور کمیونزم سے کوئی مقابلہ نہیں۔ اگر ان دونوں تحریکوں کو تیار کر لیا جائے، مثال کے طور پر اسلام پسند،ریاست میں اپنے عزائم کو اور سفاکانہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے اور دنیا کی تشریح کے لیے سازشی نظریات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
دس سے پندرہ ٪ مسلمان اس کے حق میں ہیں کہ اسلام پرعزم اور ماہر عمل کارکن چاہتا ہے جو کہ اپنی تعداد کے بر عکس بہت زیادہ اثر چھوڑیں۔ اور یہ ایران اور مصر کی مہذب زندگی اور نہ صرف بوستان کی گلیوں کے لیے مغربی سکولوں، پارلیمانوں اورعدالتوں کے لیے بھی کے لیے ایک خطرہ ہے۔
ہمارا قائل یہ ہی سوال کرتا ہے " آپ کس طرح اسلام کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہو۔ وہ جو سارئے اسلام کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔ جو نہ صرف ایک سادہ اور ضروری وہم کا شکار ہیں ۔ لیکن ان کے پاس کوئی بھی ایسا نظام نہیں کہ وہ اسلام کو شکست دئے سکیں۔ ہم جو کہ اسلام پسندوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ میں تیسری مطلق العنیات کو شکست دیتے ہوئے، ماڈل کے طور پر دیکھیں ۔ بنیاد پرست اسلام ایک مئسلہ ہے اور اعتدال پسند اسلام اس کا حل ہے۔ ہم ایک عام نفرت کو ختم کرنے کے لیے مخالف اسلامی مسلمانوں کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔ ہم بربریت کے ایک نئے اور مختلف فن پر فتح پا گئے تا کہ اسلام کی ایک جدید شکل ابھر کے سامنے آسکے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔