وہ مطالبہ کرتا ہےکہ فلسطین اسرایئل کو یہودیوں کی ریاست تسلیم کر لے۔ : ایسا حماس کا لیڈر صلاح باردوال کہتا ہے۔ امریکہ کے صدر کا فلسطین کے متنازعہ کے حوالے سے ایک بہت سخت بیان
·
در جوڈنسٹیٹ ( یہودی ریاست ) 1896 تھیوڈر ہزل کی کتاب کا عنوان۔ |
پہلے کچھ پس منظر : اسرایئل کے بنیادی مسوادات اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ ملک کو ایک یہودی ریاست بنایا جائے۔ جدید زیونیزم نے 1896 میں تھیوڈر ہزل کی کتاب در جوڈنسٹیٹ کی اشاعت ایک بہت پر موثر انداز میں شروع کی ( یہودی ریاست )۔ 1917 میں بال فورڈ کا بیان اس بات کی حمایت کرتا ہے کہ " یہودی قوم کے لیے ایک قومی گھر" 1947 کی یو۔ این جنرل اسمبلی کی قرارداد 181 میں اس اصطلاح کا بیان 30 دفعہ موجود ہے کہ "فلسطین کودو حصّوں میں تقسیم کیا جائے" 1948 کے بیان میں اسرایئل کا یہودی ریاست کے طور پر قیام کا اعلان پانچ دفعہ موجود ہے۔ اب جیسے کہ اس طریقے سے ہم ایرٹز اسرایئل میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کریں جو کہ اسرائیلی ریاست کے طور پر جانی جائے گی۔ کیونکہ اب اس مضبوط تعلق کی وجہ سے 1970 ء کی دہائی میں جب عرب اسرائیل پالیسی کی کوشیشں جاری تھیں تو بڑی حد تک یہودی ریاست کا قیام منظر سے اوجھل ہو گیا۔ عام طور پر ہر کوئی یہ ہی سمجھتا ہے کہ اسرائیل کی پالیسی کے اقرار نامے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسے یہودی ریاست تسلیم کر لیا جائے۔ صرف حالیہ چند سالوں میں اسرائیل نے اس بات کا احساس کیا۔ جب کہ دوسری طرف اسرائیلی عرب، اسرائیل کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کی یہودی خاصیت کو مسترد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2006ء میں ہائیفہ کے موسوی مرکز کی ایک بہت اہم طباعت "اسرائیل میں فلسطین کے عرب کے مستقبل کا منظر"۔ اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ ملک مذہبی طور پر ایک غیر جانبدار ریاست اور مشترکہ وطن بن جائے۔ تفصیلی لحاظ سے اسرائیلی عرب، اسرائیل کو فلسطین کے لیے اختلافی لحاظ سے دیکھ رہے ہیں۔ جیسے کہ زبان کی تبدیلی اس خدشے کا اظہار کرتی ہے کہ اگر عرب پر اسرائیل منظوری کے لیے فتح پا لی جائے، تو بھی اسے لمبے عرصے تک قبول نہیں کیا جائے گا۔ اسرائیلی اور انکے دوستوں کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ اسرایئل کو یہودی ریاست کی منظوری کے لیے عرب پر پرزور اصرار کرنا ہو گا۔ 2007 ء میں اسرائیلی صدر احد اولمرٹ نے پر زور طریقے سے اس بات کی تایئد کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ فلسطین چاہے جو بھی کہے پالیسی کا منصوبہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا۔ " میں یہودی ریاست کے متنازعے پر کبھی بھی مفاہمت کرنے کو تیار نہیں" فلسطین کے حکام کو فوری اور متفقہ طور پر اس مطالبے کو مسترد کر دینا چاہیے۔ اس کے ہیڈ محمود عباس نے اس بات کا جواب دیا کہ " اسرائیل میں یہودیوں کی طرح اور بھی لوگ رہتے ہیں، ہم خوشی سے اس بات کی قدر کرتے ہیں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
نیتن یاہو اور اولمرٹ اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسرایئل کو یہودی ریاست تسلیم کرئے |
جب بنیامین نیتن یاہو 2009 میں اولمرٹ کو وزیراعظم بنانے میں کامیاب ہو گیا تو وہ سابقہ حالات کو مد نظر رکھے ایک سنجیدہ معاہدئے کے بعد اپنے اس مطالبے سے دستبردار ہو گیا۔ " اسرائیل، فلسطین سے اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ دو قوموں کے لیے دو الگ ریاستوں کا مطالبہ کرنے سے پہلے وہ اسرایئل کو یہودی ریاست تسلیم کرلیں " فلسطین نے نہ صرف اپنی بات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا، بلکہ ان کے اس خیال کی ہنسی اڑائی۔ عباس : دوبارہ کہتا ہے، " یہودی ریاست کیا ہے؟ ہم اسے اسرایئل کی ریاست کہیں گے ! تم خود کو کچھ بھی کہہ سکتے ہو جو تمھارا دل کرئے، لیکن میں اس کو تسلیم نہیں کرؤ گا۔۔۔۔ یہ میرا کام نہیں ہے ۔۔۔۔۔ کہ کسی ریاست کے بارئے یہ واضح کرؤں کہ یہ کن قوموں پر مشتمل ہے۔ تم خود کو زیونیسٹ، عبرانی، ملی، معاشی طور پر جمہوری سلطنت کہہ سکتے ہو، جو بھی تم پسند کرؤ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔
صرف چھ ہفتے قبل عباس نے دوبارہ یہودی ریاست کے نظریے کی دھجیاں اڑا دیں۔ فلسطین کا یہودی ریاست کو مسترد کرنا بہت پرزور نہیں ہو سکتا۔ ( ان کے دعوئے کی تکمیل کے لیے " اسرایئل کو یہودی ریاست تسلیم کرنا پڑئے گا)۔
اس کا بیان ڈئنیل پائپس آرگنائزیشن پر دیکھیں ۔
امریکی سیاست دان جن میں دونوں جارج ڈبلیو بش اور اوبامہ شامل ہیں۔ انھوں نے اتفاقا 2008 ء سے قبل اسرایئل کا یہودی ریاست کے طور پر حوالہ دیا۔ حتی کہ جب وہ اس کام میں سر گرم تھے کہ فلسطین خود سے اس مطالبے کا اقرار کرئے۔
یروشلم میں منعقد ہوئے اجلاس میں براک اوبامہ نے امریکی پالیسی تبدیل کی۔ |
تب پچھلے ہفتے یروشلم میں کی جانے والی تقریر میں براک اوبامہ نے اچانک اور غیر متوقع طور پر اسرایئل کے مطالبے کو مکمل خوشی سے قبول کیا کہ : فلسطینیوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ اسرایئل کو یہودی ریاست تسلیم کرئے گا۔ یہ جملہ بہت اہم نئی بنیاد کو توڑ دیتا ہے۔ اور وہ تیزی سے مکمل نہیں ہو سکتا۔ ایسا ایک بہترین پالیسی بنانے کے لیے کیا گیا۔ کیونکہ ایسی پہچان کے بغیر فلسطین کا اسرایئل کو تسلیم کرنا بے بنیاد ہو گا۔ یہ خوشی سے اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ مستقبل کی ریاست میں وہ " فلسطین " کی بجائے " اسرایئل " کو حکومت دیں گے۔
اوبامہ کے دورئے کے دوران صرف یہ ہی تبدیلی نہیں کی گئی ( ایک اور بیان فلسطینیوں کو بتا رہا ہے کہ گفت و شنید کے لیے سابقہ حالات تیار نہ کریں ) یہ ایک فلسطین کی موافقت سے سراسر مخالفت دور سے بہت بڑی دیکھائی دیتی ہے۔ باوردوال مبالغہ آرائی اختیار کرتے ہوئے یہ بات دعوی سے کہتا ہے کہ " ایسا دیکھائی دیتا ہے کہ اوبامہ نے تمام عرب سے منہ موڑ لیا ہے"۔ لیکن درحقیقت وہ دس الفاظ تیزی سے اس مرکزی اختلافی متنازعہ کے ساتھ ایک معاہدہ قائم کرتے ہیں۔ غالبا یہ اس کا عرب اسرائیل کی مفاہمت میں نہایت اہم، نہایت دائمی اور نہایت تعمیری حصہ ہو گا۔
مسٹر ڈئنیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔