نیشنل پوسٹ شہہ سرخی : " مورسی کے جانے سے خطرہ کی وراثت چھوڑ دی"
مصر میں مورسی کا تختہ الٹنا مجھے خوشی بھی دیتا ہے اور پریشان بھی کرتا ہے۔
خوشی کو بیان کرنا آسان ہے جو سب سے بڑا تاریخی سیاسی وجود تھا مصر کے غصیلے اسلامسٹ نے اکھاڑ دی۔ جنھوں نے حکومت صرف خود کو مضبوط کرنے کے لیے کی اور باقی ہر چیز کو نظرانداز کر دیا۔ اسلام ازم، وسطی اسلامی قانون کے نفاذ کی ایک تحریک اور واحد کٹرنظریاتی تحریک ہے ساری دنیا جس نے ساری دنیا میں بے مثال شہرت حاصل کی۔ مصریوں نے متاثرکن رویہ کا اظہار کیا۔
عبدل فتح مورسی کے آفس کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے۔ |
اگر 2011 ء میں حسنی مبارک کا تختہ الٹنے میں 18 دن لگے صرف 4 دن کی ضرورت تھی مورسی کا تختہ الٹنے کے لیے پچھلے گزرئے ہوئے ہفتے میں اموات کی تعداد حیران کن حد تک 850 سے 40 رہ گئی۔ مغربی حکومتیں ( مدد کر کے جہاں انھوں خود کو انتہائی شرمندہ پایا۔
میری پریشانی کافی پیچیدہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کٹر نظریات کا چرچا اس وقت تک برداشت ہوتا ہے جب تباہی آ جاتی ہے۔ بطاہر کمیونزم اور فاشزم پر اکثر سنائی دیتے ہیں۔ اسلام ازم کے معاملے میں اس طرح کا سلسلہ بہت پہلے شروع ہو چکا ہے۔ بے شک تحریک بہت کم تباہی کے ساتھ شروع ہوئی پہلے دو کیسز کے مقابلے میں ( اسلام ازم نے ابھی تک دس ملین قتل نہیں کیے ہیں) اور زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ( سالوں میں نہیں عشروں میں) ایک ہی قطار میں اسلامسٹ حکومت نے تین ناکامیاں دیکھیں ہیں۔ غازی پارک سے متاثر تحریک نے ترکی کے ساتھ ، ایک کٹر اسلامسٹ کی جون 2014 ء میں ایران کے انتخابات میں ٹھوس فتح اور اب دریائے نیل کے ساتھ غیر معمولی وسیع پیمانے پرمسلم بھائی چارئے کا مختلف چوکوں پر انکار۔
اس ہفتے مصر میں لوگوں کے گروہوں کی تعداد حد درجہ بڑھ گئی۔ |
لیکن مجھے خدشہ ہے کہ فوری فوجی اسلامی بھائی چارئے کا خاتمہ مسلمانوں کے غصے میں اضافہ کر دئے گا۔
مصر ایک گند ہے ۔ حامی اور مخالف بھائی چارئے کے تعلقات پر۔ مسلم بھائی چارئے کے عناصر پہلے ہی خراب ہو چکے ہیں اور ختم ہونے کو ہیں۔ مصری باشندئے اور شیعہ صرف اپنی شناختوں کی وجہ سے قتل ہو رہے ہیں۔ جزیرہ نماء سینا بھی فساد سے بھرپور ہے۔ غیر ماہرانہ اور فوجی لیڈر شپ جس نے بہت برئے طریقے سے 1952 ء سے 2012 ء تک مصر پر حکومت کی واپس آ گئی ہے۔
لیکن سب سے بد ترین مسائل معاشی ہیں۔ بیرونی ممالک میں کام کرنے والوں کی ترسیلات زر کی آمد تنزلی کا شکار ہو گئی ہے۔ جب سے ہمسایہ ملک لیبیا میں تباہی آئی ہے۔ تہران اور اسرائیل کی قدرتی گیس کی پائپ لائن بھیجنے کے منصوبے کی تباہی نے آمدن کے ذرائع کو ختم کردیا ہے۔ سیاحت بھی تقریبا ختم ہو چکی ہے۔ ناکامیوں کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہائیڈروکاربن پیدا کرنے والا ملک ایندھن کی کمی کا شکار ہے۔ ٹریکٹر چلانے کے لیے پوری قوت کے ساتھ سوشلسٹ دور کی فیکٹریاں بڑی کام کرنے کی حالت میں تھیں۔
مصر اپنی خوراک کا 70٪ برآمد کرتا ہے گندم اور کھانے کے تیل اور دوسری ضروریات کی قیمت اداء کرنے کے لیے۔ بھوک منڈلا رہی ہے جب تک دس بلین ڈالر بیرونی سالانہ امداد کی سبسیڈی مصر حاصل کر رہا ہے۔ اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ دس میں سے سات غریب خاندان اپنی خوراک کے حصول سے محروم ہیں۔
عدایل منصور سربراہ حکومت کا عبوری سربراہ۔ |
ان تمام خطرات کی موجودگی میں، یونانی حکومت نے مصر کی خامیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ، دریائے نیل پر ایک ڈیم کی تعمیر شروع کر کے جس کی وحہ سے دریا پر مصر کو ہونے والی پانی کی 5.5 بلین کیوبک میٹر سے 40 بلین فراہمی میں کمی آ جائےگئی۔ یا ایک ایسا عمل ہے جس کے منفی اثرات اس ملک کی کی زندگی کے لیے نقصان دہ ہو گا جسے دریائے نیل کے" تحفے" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جیسا کہ ان تمام معاشی تباہیوں نے اسلامسٹ حکومت کی سال بھر لمبی مداخلت جو مورسی اور اس کے ساتھیوں نے کی ، کو متاثر کیاان مسائل میں اضافے کے باعث۔ یہ بھولا جا سکتا ہے اور جو کوئی ان کے بعد اختیار سنبھالے گا الزام اسی پر ہی آنا ہے۔ دوسرئے الفاظ میں مصریوں کو تکلیف ہے اور یہ جاری رہے گی اس شرارت کی بناء پر ۔ کون جانتا ہے کہ مستقبل کی پیشن گوئی سے بچنے کے لیے مصر دوبارہ سے اسلامسٹ حکومت کی گود میں جا گرئے۔ اسی طرح سے اسلامی بھائی چارئے کی راحت کا مختصر ترین دور کا مطلب ہے دوسرئے مسلمان اسے حاصل نہیں کریں گئے، جوکچھ انھوں نے مصر کے سخت ترین تجربے سے سیکھا ہے۔
ایک اور موضوع پر ایڈسن انسیٹیوٹ کے لی-سمیتھ نے اظہار کیا کہ مصر کے نئے حکمران کو " ملک کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے بین الاقوامی کمیونٹی جو کہ امن کی سودئے بازی کے لیے بے چین ہے" اور مصر کے لیے اسرائیل کے ساتھ مختصر جنگ کا سامنا ہو گا۔ اور اس کے ساتھ مصر اپنی پہلی حثیت پر واپس چلا جائے۔ " مشرق وسطی میں اس طرح جنگ ان مقاصد میں میں سے کوئی ایک بھی حاصل نہیں کر سکے گی۔ ملک کو غریب ترین اور کمزور ترین چھوڑ کر مصری فوجیں خود کو اسلحے سے لیس کر رہی تھیں۔ لیکن کوئی بھی اس امکان کو نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ اسرئیل کے خلاف مصر کے فوجی حکمرانوں نے بہت سی بےوقوفیاں کی ہیں۔ مختصر یہ کہ مورسی کے جانے پر میری خوشی میرئے ایسے متعلق ہونے سے کہیں زیادہ کہ ان کی غلط حکمرانی کے اسباق سیکھے نہیں جائیں گئے۔
مسٹر ڈئنیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔