جیسا کہ اسرائیل کے حماس کے خلاف آپریشن ختم ہو گئے ہیں : اس مہینے کی لمبی کشمکش میں یہاں سات نقاط قابل غور ہیں۔ میزائل حفاظت، آئرن ڈوم کی بہترین کارکردگی، حفاظتی نظام ہر چلایا جانے والا راکٹ جو کہ زندگی اور جائیداد کے لیے خطرہ ہے، اسرائیل اور ساری دنیا کے لیے اہم فوجی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی کامیابی ایک اشارہ ہے کہ " سیاروں کی جنگیں "( جیسا کہ حاسدانہ طور پر 1983 ء کے تعارف کے بارئے میں کہا) تھوڑئے فاصلے والے راکٹ سے حفاظت مہیا کر سکتا ہے اور شائد دور فاصلے والے راکٹوں اور میزائلوں سے بھی۔ خاص طور پر جنگ کا نقشہ ہی بدل دئے گا۔
آئرن ڈوم اسرائیلیوں کی حفاظت کرتے ہوئے۔ |
خندقیں : دشمن کی فوج کی کئی قطاروں کے پیچھے خندقیں کھودنا ایک نیا طریقہ ہے۔ تاریخی طور پر یہ کامیاب تھا جیسا کہ 1917 ء کی میزنی جنگ میں جب برطانوی مائنز دس ہزار سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جب 8 جولائی کو دشمنیوں کا آغاز ہوا تو اسرائیلی دفاعی فوجیں (آئی- ڈی- ایف) حماس کی خندقیں جانتیں تھیں، لیکن ان کی تعداد ، لمبائی اور معیار تعمیر اور برقی نزاکت کا پتہ کرنے میں ناکام رہے۔ یروشلم نے جلد ہی جان لیا جیسا کہ اسرائیل کے ٹائمز نے لکھا کہ " اسرائیل " کی فضاء ، سمندر اور سر زمین کا اندازہ زیر زمین نہیں لگایا جا سکتا آئی- ڈی- ایف کو اضافی زیر زمین غلبہ حاصل کرنے کے لیےوقت کی ضرورت تھی۔
اسرائیلی رضامندی، حماس کی بے دریغ جارحیت کا استعمال یہودی اسرائیلیوں میں فتح کی امنگ جگانے کی وجہ بنا۔ اس اتحاد نے حکومت کے ہاتھ بیرونی طاقتوں سے معاہدہ کرنے کے لیے اور مضبوط کر دئیے ( وزیراعظم ہننونی نے امریکی حکومت سے کہہ دیا کہ دوبارہ کبھی آپ اسرائیل کے متعلق اندازہ نہ لگائیں) اور اسرائیلی اندورنی سیاست کو فیصلہ کن انداز میں قومیت پرست گروپ کی طرف موڑ دیا۔
مشرق وسطی ردعمل: حماس کی ریاست کے ردعمل کے علاوہ ( ترکی، قطر، ایران )اسلامی دہشت گردوں کو علاقے میں بالکل بھی حکومتی تعاون نہیں مل سکا۔ ایک حیران کن مثال میں، سعودی بادشاہ عبداللہ نے حماس کے غزہ کو قتل کرنے پر کہا " یہ قابل شرم اور نا قابل عزت بات ہےاور یہ علاقے( معصوم انسانوں کا قتل کر رہے ہیں اور پھر اس کی عوامی سطح پر تشہیر بھی کرتے ہیں۔ )مذہب کے نام پر وہ اپنے جانی دشمن کو کتنا بہتر جانتا ہے۔
بڑھتی ہوئی یہودیوں سے نفرت : خاص طور پر یورپ میں لیکن کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی یہودیوں سے بڑھتی ہوئی نفرت سامنے آ گئی۔ خاص طور پر فلسطینیوں اور اسلامسٹوں کی طرف سے جیسا کہ ان کے دور چھوڑئے ہوئے اتحادیوں کی طرف سے اس ردعمل کا قوی امکان ہے کہ یہ یہودی زندگی کے آرام کی جگہ تک اسرائیل اور امریکہ تک ہجرت میں اضافہ کرئے گا۔ اس کے مخالف مشرق وسطی کے مسلمان خاموش رہے ترکی اور ان عربوں کے علاوہ جو اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔
امیر طبقہ بامقابلہ مشہور ردعمل: ایسا ہر دن نہیں ہوتا کہ سکریٹری جنرل اقوام متحدہ اور تمام 28 وزرائے خارجہ یورپی یونین کی طرف سے عرب مخالفت میں اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ لیکن امریکی کانگرس میں ایسا ہی ہوا، امریکی سینٹ نے متحدہ طور پر فیصلہ کیا اور ایوان نے ایک اضافی امداد کے لیے 8-395 ووٹ دئیے اور 225 ملین ڈالر آئرن ڈوم کے پروگرام کے لیے۔ اس کے برخلاف زیادہ تر عوام پرو- اسرائیل جذبہ ہر جگہ تنزلی کا شکار ہو گیا۔ ( مگر امریکہ میں نہیں ) کس طرح اس بغاوت کو بیان کیا جائے؟ لیڈرز یہ سوچ رہے ہیں کہ انھیں اگر دشمن کا سامنا کرنا پڑا تو وہ دشمنوں کے راکٹوں اور خندقوں کہ مقابلہ کیسے کریں گئے۔ جب کہ عوام کا فوکس مردوں کی تصویریں تھیں۔
مردہ اجسام: تمام لڑائی کا عجیب پہلو یہ ہی ہے جو ہمیں پچیدہ اور لڑائی کا فیصلہ کرنے تک لے کر آیا۔ آئی- ڈی- ایف کو حماس پر خطرناک برتری حاصل تھی ان کا جھگڑا پولیس آپریشن سے مشابہت رکھتا ہے نہ کہ ایک جنگ سے۔ اس طرح سے اسرائیلیوں کو ان کے لیڈر کے بیان کی وضاحت میں تولا گیا، طاقت کا استعمال۔ اسی طرح میڈیا ان سوالوں میں دلچسپی رکھتا تھا، فوجی منظر کی بجائے دونوں فوجوں کا تناسب ،اخلاقیات اور سیاست۔ حماس کا سب سے بڑا اسٹرٹیجک ہتھیار یہ تھا کہ اسرائیل کو بد نام کیا جائےاور مقابلے کے لیے حماس کے پاس نہ تو راکٹس تھے اور نہ ہی خندقیں بلکہ دل دہلانے والی مردوں کی تصویریں تھیں جنھیں آئی- ڈی- ایف بے دردی سے قتل کر رہا تھا۔
اس کی وجہ سے یہ عجیب صورت حال مزید خراب ہوئی جس میں حماس نے فلسطینی جائیدادوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی ، شہریوں کو مجبور کیا کہ وہ اموات اور زخمیوں کو روک کر رکھیں، اموات کی شرح تعداد میں اضافہ کریں اور جان بوجھ کر اپنے ہی علاقے پر حملہ کریں۔ جب کہ اسرائیل کو اہم موقع ملے گا فلسطینیوں کو نقصان پہنچانے کا۔ اسرائیلی حکومت نے طبی امداد اور خوراک مہیا کر کے اس سے بھی کچھ زیادہ کیا۔ اور ماہر فنیات کو نقصان زدہ علاقے میں بھیجا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ غزہ کے رہنے والے آزادانہ بجلی کا استعمال کریں۔
ٹرک خوراک، دوائی اور دوسری ضروریات کے ساتھ غزہ سے اسرائیل جا رہا ہے کیرم شالوم دشمنوں کے درمیان سے گزر رہا ہے۔ |
یہ ایک متجسس جنگ ہے جس میں حماس نے فلسطینی تکلیف کی خوشی منائی اور اسرائیل نے اپنے دشمن کی زندگی کو بحال رکھنے کے لیے بہترین کوشش کی ۔ بلا شک و شبہ یہ عجیب بات ہے لیکن جدید جنگ کی یہ ہی فطرت ہے۔ جہاں اوپیڈس کی تعداد کو گولیوں کی تعداد سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ کلیزوویٹزن کی اصطلاح میں جنگ کا مرکزی نقط میدان جنگ سے عوامی تعلقات میں بدل گیا۔
اس سب سے اسرائیل فوج اپنا چہرہ چھپانے اور تہذیب یافتہ بن کر سامنے آنے میں کامیاب رہی۔ لیکن یہ زیادہ عرصے کے لیے جنگ کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ پھر ایک اور حملہ ہو گا۔
مسٹر ڈئنیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔