واشنگٹن ٹا ئمز کا عنوان ، "اسرائیل ميں خوشی کی وجؤھات" امريکہ کے سيکرٹری آف سٹیٹ جان ایف کیری نےایک حالیہ مخصوص ڈ رامائی بیان میں شکایت کی ہے کہ اسرائیلی اتنے مطمئن ہیں کہ وہ فلسطین کے ساتھ جنگ بندی چاہتے ہیں۔" اسرائیل کے لوگ ہر وقت چست نہیں ہیں اور حیران ہیں کے اگر کل یہاں امن، حفاظت کا احساس، تکمیل اور خوشحالی کا احساس ہو گا۔
لیکن مسٹرکیری نے اسرائیلی (فلسطینی انکار، خوشحالی کی نہیں بلکہ ڈپلومیسی کی وجہ بنا )کیری درست کہتا ہے کہ اسرائیلی تحفظ کا احساس رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ خوشحالی کا---"،انکے پاس ایک بڑی مقدار میں خوشحالی ہے ـ ایک حالیہ سروئے کے مطابق 93 فیصد اسرائیلی اپنے اسرائیلی ہونے پر خوش ہیں۔ ہاں ایرانی نیوکلیر پاور خطرہ ہے اور ماسکو کے ساتھ جنگ کا بھی امکان ہے ـ لیکن چیزیں ہمیشہ اتنی اچھی نہیں رہتیں۔ بار- یونیورسٹی کے ایفریم ابنارکے شکریہ اداء کرتے ہیں جس نے مندرجہ ذیل کچھ معلومات مہیا کیں۔ آئیے ہم طریقے دیکھتے ہیں۔
اسرائیل پرکیسٹا کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے زیادہ بچے رکھتا ہے۔ |
کسی بھی ملک کی آبادی کو متوازن رکھنے کے لیے عورتوں کو دو اعشاریہ ایک فی صد بچوں کو پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسرائیل میں شرح پیدائش 2.65 ہے۔ جو اسے ایسا ملک بنا رہی ہے جو ہر متبادل سے آگے بڑھ گیا ہے۔ ( دوسرئے نمبر پر زیادہ شرح پیدائش فرانس میں 2.08 ہے اور کم ترین سینگا پور میں 0.79 ہے۔ جب کہ میریدلس اور عرب اس شرح کے اضافے کے لیے جوابدہ ہیں۔ لیکن سکیولر یہودی اس اضافے کی اصل وجہ ہیں۔ 2008ء سے لے کر 2012 ء کے عرصے میں اسرائیل 14.5 فیصد شرح گھریلو پیداوار تک پہنچ گیا۔ جس نے اسے بلند ترین معاشی ترقی تک پہنچا دیا۔ او- ای- سی-ڈی سے تعلق رکھنے والے ممالک کی فہرست میں سے۔ ( اس کے متضاد ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی شرح فیصد 2.3 رہی، اقوام متحدہ 2.9 فیصد اور یوروں زون منفی 0.4 فیصد رہا) اسرائیل جی- ڈی - پی کا4.5 حصّہ تحقیق اور ترقی میں خرچ کرتا ہے اور یہ کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔
والٹر فیڈرسل کا مشاہدہ ہے کہ گیس اور تیل کے اہم فنڈز کے ساتھ "عہد شارہ سر حسین کا ایک ایک انچ قابل قدر اور انرجی کے نقطہ نظر سے زرخیز ہے، دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ" یہ ذرائع اسرائیل کی دنیا میں ایک مقام کی اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
اب کسٹمر کے لیے اسرائیل میں تیمر کے میدان سے قدرتی گیس یہ ملا دیا گیا ہے۔ |
مصر اور شام کی طرف سے اسرائیل کے وجود کو جو خطرہ تھا وہ اب تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ اور مشرک طریقوں کی وجہ سے دہشت گردوں کے حملے بھی ختم ہو چکے ہیں۔
آئی-ڈی-ایف کے پاس اعلی ترین انسانی ذرائع ہیں اور فوجی ٹیکنلوجیز اور اسرائیلی معاشرئے نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک ہتھیار سے لیس جنگ کے لیے تیار ہیں۔ مسٹر غیر ایک سٹریجسٹ نے کہا کہ پاور کا فرق صرف اسرائیل اور اس کےعرب ہمسیاؤں کے درمیان دن بدن بڑھ رہا ہے۔
1967ء سے فلسطینی ڈپلومیسٹک فوکس جس کا ملکی سیاست پر عشروں سے غلبہ تھا بدل گیا ہے، صرف 10 فیصد یہودی کمیونٹی کے لوگ گفتگو کو پہلی اہمیت سمجھتے ہیں۔ مسٹر کیری اس ایشو پر مغلوب ہو سکتے ہیں۔ ایک یوٹیکیو کے سخت الفاظ میں " امن پر گفتگو بہت سے اسرائیلیوں کے لیے شرٹ کے رنگ پر گفتگو کرنے کے مترادف ہے جو آپ مریخ پر اترتے ہوئے پہنیں گے۔
حتی کہ ایران کا نیوکلر انرجی کا ایشو بھی اتنا سنجیدہ نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے۔ اسرائیل کے ڈیفینس میزائیل کے درمیان اور وسیع پیمانے پر اسرائیل کی نیوکلئیر تباہ کنی طاقت ، ملٹری تجزیہ نگار راہتھولی کا کہنا ہے کہ نیوکلئیر ہتھیاروں کا تبادلہ اسرائیل کو نقصان پہنچائے گا اور ایرانی تہذیب کو تباہ کر دئے گا۔ " عام اصطلاح میں ایران کا پھر سے ابھرنا ناممکن ہو گا " (" جتنی ذلت میں ایرانی لیڈر شپ نے کیا وہ سب کچھ خطرئے میں ڈالے گی"۔)
بائیکاٹ اور پابندیوں کی تحریک کامیابیاں معمولی ہیں۔ اسرائیل کے 193 میں سے 156 اقوام متحدہ کے ممالک کے ساتھ ڈپلومیٹک تعلقات ہیں۔ مسٹر غیر کا کہنا ہے کہ گلوبی اسرائیل کے تعلقات زیادہ مضبوط ہیں"۔
اقوام متحدہ کی عوامی رائے کے سروئے کے مطابق دنیا کا سب سے اہم حریف اسرائیل مستقل فلسطین کو 4.1 کے تناسب سے مات دئے رہا ہے اور یونیورسٹیاں بلا شبہ مخالف ہیں۔ میں نے مزدوروں سے یہ سوال کیا کہ " کہاں اپ زیادہ محفوظ ہوں گے امریکہ کی کانگرس میں یا یونیورسٹی کے کمپس میں؟ اس سوال کا جواب یہ تھا کہ اشکیزمی ، سیاروی اختلافات آپس میں شادیوں اور ثقافتی تبادلے کی وجہ سے تقریبا ختم ہو چکے ہیں۔ تو مراوی کی شمولیت نہ ہونے کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
اسرائیلیوں نے متاثر کن ثقافتی اضافے کیے ہیں۔ خاص طور پر کلاسیکل موسیقی ، ایک تنقید نگار ڈیوڈ گولڈ مین کا کہنا ہے کہ، اسرائیل " آرٹس میں بھی سپر پاور ہے"۔
1936ء میں قائم اسرائیل فلہارمونک آرکسٹرا، ایک معروف ثقافتی ادارہ ۔ |
سنو فلسطینیوں اور اسلافیوں دائیں اور بائیں بازو والوں تم ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہو ۔ یہودی ریاست چھا رہی ہے۔ مسٹر عنبر کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ وقت اسرائیل کا ساتھ دئے رہا ہے۔ جنگ چھوڑ دو اور فساد کے لیے کوئی دوسرا ملک ڈھونڈو۔
مسٹر ڈئنیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔