عرب کی بہت پہلے ناکام ہوئی تہذیب ، جو کبھی بہت پختہ اور مثالی تھی، جس کو آج کے بدلتے ہوئے زمانے کی ہوا نے بہت پرزور طریقے سے تبدیل کر دیا اور اپنے ساتھ بہہ لے گی۔ ایک طاقت ور قسم کی بد انتظامی نے زندگی کے مقرر کردہ قدیم نمونے کو بدل دیا۔ وہ معقول ہم عصر الفاظ 1962 ء میں ، 160 صفحات پر مشتمل کتاب جس کا عنوان عرب دنیا ہے، کے ایک چمکیلے کاغذ پر ایک بڑی تصویر کی شکل میں شائع کیے گئے تھے۔
لائف اخبار کا مدیر " عرب دنیا " کو ظاہر کر رہا ہے۔ |
یہ کتاب تین قسم کے وصف پر فخر کرتی ہے ۔ جو اس گوشوارئے کو نصف صدی کے بعد تک جائزہ کے لیے قابل قدر بنا دیتی ہے۔ سب سے پہلے لائف میگزین کا مدیر ، ہفتہ وار زبردست امریکی جنھوں نے اسے ایک نئی شکل دی، وہ مخصوص ثقافتی دلیل پیش کرتے ہیں۔ دوسرئے نمبر پر جارج ڈبلیو ایلن جو کہ ملکی سرکاری شعبے کا سابق سنیر ہے، کتاب کے مستند ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اس کا تعارف لکھتے ہیں۔ تیسرئے نمبر پر ڈسمنڈ سٹیورٹ نے اس کا مضمون لکھا (1924- 1981 ) جو ایک باحوصلہ برطانوی صحافی، تاریخ دان اور ناول نگار ہیں۔
عرب دنیا پرزور طریقے سے ایک نئے زمانے کی فنکاری کی نمائندگی کرتا ہے، جب کہ اس کے مضمون کا مواد مکمل طور پر مٹھاس سے بھرا ہوانہیں ہے۔ سٹیوریٹ ایک دھندلی، سازگار مشاہبت کی حوصلہ افزئی کرتا ہے جوآجکل کے اہم سخت الفاظ لکھنے والے مصنفوں کے منہ کو بند کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ دلیل دیتا ہے کہ مغربی سیاح عربی بولنے والے ملکوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ " جیسے کہ آلہ دین اور علی بابا کی بادشاہت "۔ لوگ اسے بائبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یاد دہانی کرواتے ہیں۔ "جیسے کہ القاعدہ کے زمانے میں ایک چھوٹی سی اتفاقی ملاقات"۔
سب سے زیادہ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب کتنی آسانی سے اس بات کا عملی مظاہرہ کرتی ہے کہ ایک ممتاز تجزیہ نگار اس بڑی تصویر کی غلط جانچ کر سکتا ہے۔
جیسے کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا ایک موضوع مارکو سے لے کر عراق تک کے عرب لوگوں کے لیے ایک قوم کے وجود سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک قوم روایتی طور پر اس قدر مضبوطی سے جکڑی ہوئی ہے کہ سٹیورٹ اسے جانوروں کی یکسانیت کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ : " عرب ایک نمایاں ثقافت رکھتے ہیں جس کو وہ ایسے ہی ختم نہیں کر سکتے جیسے کہ ایک بھنبھنانے والا پرندہ عادتا نیا گھونسلہ بنانے کے لیے گھاس پھونس پھینکتا ہے"۔ اگر عرب کے اس ریکارڈ کو نظر انداز کر دیا جائے کہ وہ اپنے عرب ممالک کو متحد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سٹیورٹ اس بات کی پیشن گوئی کرتا ہے کہ " جو کوئی بھی مسئلہ ہو ، ( عرب ) کو متحد رکھنے والی قوتیں ہمیشہ رہیں گی " بڑی مشکل سے : ابھی اتنا عرصہ نہیں ہوا ، 1962 ء کے بعد سے وہ مجبورا مرنے کا تقاضا کرتے ہیں، اور لمبے عرصے تک خفیہ رہتے ہیں، جیسے کہ اس کا سطحی دیباچہ قطع نظر اس سے کہ جغرافیہ اور تاریخ کیا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ عربی زبان صرف ایک قوم کو بیان کرتی ہے۔
اس کے دوسرئے موضوع کا تعلق اسلام سے ہے۔ سٹیورٹ لکھتا ہے کہ یہ " سادہ " عقیدہ انسانیت کو ایک نئے بلند مقام تک لے جاتا ہے، اور یہ کہ یہ پر امن نہیں ہے ، لیکن اس کا بنیادی لفظ " امن " یا " اسلام " تھا۔
وہ اسلام کو ایک " متحمل " عقیدہ کہتے ہیں اور تاریخی طور پر عربوں کو ایک "متحمل فاتح " اور "متحمل سرداروں کا سردار " کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں سے ایک "متحمل" انداز میں مباحثہ کرتے ہیں۔ بلکہ اس کی بجائے عربوں کی بردباری ان کی ثقافت پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ ساری بردباری سٹیورٹ کی خوشی میں اضافہ کرتی ہے ، لیکن غیر عقل مندانہ طور پر اسلام کے ظہور کو مسترد کرتا ہے، جس کے بارئے میں وہ کہتے ہیں کہ" یہ ان کے لیے دقیانوسی طریقہ ہے جو نوجوانوں کے لیے بہت کم دلکشی رکھتا ہے"۔ مختصر یہ کہ اسلام کی ابتداء سے لے کر جدید زمانے تک سٹیورٹ اسلام کی عظمت سے بے خبر ہے۔
کتاب کا عنوان: ایک لیونیٹیان طرز کی پارٹی ، جو کہ ایک لکھ پتی تاجر نے دی ، ایک لبنانی رقصہ جس کا نام ورکب تھا۔ اس نے روایتی بیلی ڈانس پیش کیا، جیسے ورکب ڈانس کر رہی تھی، مہمان بھی اس کے ساتھ ڈانس کر رہے تھے اور گانا گا رہے تھے۔ |
ایک تیسرا موضوع عربوں کا جدید زمانے کے مطابق ڈھلنے کے ارادئے کو بیان کرتا ہے : 20" صدی کی حیران کن بات یہ ہے کہ عرب کے مسلمان کس طرز سے جدید دنیا کی تبدیلی کو قبول کرتے ہیں"۔ یہ طرز ہر جگہ موجود ہے ماسوائے سعودی عربیہ اور یمن کے " عرب کی یہ جدیدیت نمایاں، محسوس کی جانے والی، سنائی دینے والی قوت ہے"۔ ( پس جیسے کہ میں نے اپنے پہلے جملے میں کہا کہ "تقویت دینے والی ہوائی تبدیلی")۔ اس کی یہ قریب النظری عورتوں کو ترقی نہ کرنے سے روکنے سے متعلق ہے۔" 20 صدی نے زنان خانے اور اس کے ستونوں کو برئے طریقے سے ہلا دیا ہے"۔ معشیت کے اہم معاملات میں ----- عورتیں آدمیوں کے برابر ہیں۔ "حقائق کے قطع نظروہ دیکھتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں"۔
کتاب کا عنوان: مسلم شیعہ فرقے کے دوستانہ مفکر،عراق،نجف میں اپنی خانقاہ میں چہل قدمی کرتے ہیں، جب کہ دوسرئے باقی نماز پڑھتے ہیں، مراکبہ کرتے ہیں یا حتی کہ سوتے ہیں۔ |
جنگلی آنکھوں کے اس موضوع کو جاری رکھتے سٹیورٹ کا خیال ہے کہ عربی بولنے والے ارادتا آزاد قدیم ڈھانچے کو توڑ رہے ہیں " قدیم دقیانوسی تصورات کو تباہ کر رہے ہیں "۔وہ ساتویں صدی کے بارئے میں لکھتا ہے،جیسے کہ آج کوئی بھی ویسا کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا،خاص طور پر جارج ڈبلیوبش کے عراقی مقاصد میں ناکامی اور براک اوبامہ کی لبنان میں فساد کے بعد تو بالکل بھی نہیں۔ پہلے چار خلیفہ تو جمہوریت پسند تھے، جیسے کہ برطانوی ولیم گلید سٹون، اور اگر نہیں تھا تو امریکن تھومس انڈریو جنیفر"۔ حتی کہ سٹیورٹ اس بات کا بھی دعوی کرتا ہے کہ "عرب کی تہذیب مشرقی ثقافت کی نہیں بلکہ مغربی ثقافت کا حصہ ہے"۔ اس کا کچھ بھی مطلب ہو سکتا ہے۔
کتاب کا عنوان: جب سعودی عربیہ کے بادشاہ سعود پراسرار طریقے سے کڈلیک کے شاہی محل کے تخت پر پہنچے ، تب ایک خوش آمدیدی قالین کی جگہ ایک بیش قیمت ایرانی قالین بچھایا گیا۔ |
ایک طرف پچاس سال پہلے اسلام پراسرار تھا۔ لائف میگزین کے دو درجن اعلی تنخواہ دار ملازمین ،کتاب کے ادارتی عملے کے طور پر درج ہیں، انھوں نے ایک تصویر کا عنوان ایک غلط خبر کے ساتھ لکھا کہ "اسلامی حج ہر سال موسم بہار میں اداء کیا جاتا ہے،(جب کہ حج پورئے کلینڈر کے گرد گھومتا ہے اور نیا سال شروع ہونے کے دس یا گیارہ دن پہلے اداء کیا جاتا ہے) ایک مورث کی یہ غلطی عاجزانہ اثر رکھتی ہے۔ میری طرح کا ایک تحزیہ نگار اس بے تکی کی امید نہیں کر سکتا، جیسے کہ ڈیسمینڈ سٹیورٹ اور لائف، اور نہ ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اتنے برئے طریقے سے دیکھایا جائے۔ بے شک میں ایک وسیع نقطہ نظر حاصل کرنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں، اور اس لیے موجودہ مفروضے کی طرف سے محدود نہیں کیا جا رہا۔ 2062 ء میں مجھے بتاؤ کہ میں کس طرح کر رہا ہوں؟۔
مسٹر ڈئنیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔