آج ایک ریسیپ طیب ایرڈوگان ترکی کے صدرکی مسند پر تشریف فرما ہوئے تھے اور ان کا پیش رو،اہیمٹ ڈیوٹوگلو نے ساتھ ہی ان کے چھوڑئے ہوئے وزیراعظم کے عہدئے کی نشست سنبھال لی۔ یہ تبدیلیاں ترکی اور اس کی خارجہ پالیسی کے بارئے میں کیا بتاتی ہیں ۔ دو الفاظ میں کچھ بھی اچھا نہیں۔
ریسیپ طیب ، بائیں طرف اور دائیں طرف اہیمٹ کے ساتھ۔ |
جون 2005 ء میں ڈیوٹوگلو بطور چیف فارن کے ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ میں نے انقرہ میں ایک گھنٹے تک ان سے بات کی۔ اس ملاقات کے بعد دو باتیں سامنے آئیں۔
اس نے مجھ سے اقوم متحدہ میں نیو – کنزرویٹیو تحریک کے بارئے میں پوچھا پھر اس کی مذہبی بلندی اور شہرت کے بارئے میں۔ میں نے شک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا کہ میں بھی اس امیرو کبیر گروہ کا رکن تھا۔ اس سے ڈیوٹوگلو نے لیا اور نوٹ کر لیا کہ بش کی حکومت میں (صدر، نائب صدر، ریاستی اور دفاعی سیکرٹری حضرات اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر) نیو – کنزرویٹیو تھے کوئی بھی ایک فیصلے کی قوت نہیں رکھتا تھا ، ایک حقیقت سے مجھے اس کی طاقت کے خطرئے کے خوف نے پاگل کر دیا۔ ڈیوٹوگلو نے یہود دشمنی کے انداز میں ردعمل کا اظہار کیا اس پر اصرار کرتے ہوئے کہ نیو – کنزرویٹیو اس سے بھی کہیں زیادہ طاقتور ہیں جتنا کہ میں سمجھتا تھا۔ کیونکہ وہ اکھٹے رازدانہ انداز میں کام کرتے ہیں اور مذہبی بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ (بڑئے خوب صورت انداز میں وہ یہ بتانے سے گریز کر گیا کہ یہ کون سا مذہب ہے۔)
اس کے جواب میں ، میں نے اسے مشرق وسطی میں ترکی کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے سوالات کیے۔ جسٹیس اور ڈویلپ پارٹی کے دور میں جو 2002 ء میں شروع ہوا۔ القرہ کے کوئی نئے عزائم نہیں تھے اس علاقے میں جس سے یہ بہت نفرت کرتا تھا۔ اس نے اس تبدیلی کو جاری رکھا۔
پھر اس نے مجھے افغانستان سے مراکش تک کی افقی سیر کرائی۔ کسی بھی ملک کے ساتھ ترکی کے قریبی تعلقات نہیں تھے۔ اس میں ترکی سپیکر کی عراق میں موجودگی بھی شامل تھی۔ امانوی حکومت کی وراثت ( لبنان ) معاشی فائدئے مند تعلق (شام ) اسلامی تعلقات (سعودی عرب ) اور ڈپلومیٹک سوچ بچار (ایران )۔
جس بات نے مجھے حیران کیا وہ شیخی خوری پر امیدی اور ڈیوٹوگلو کا خود پر مکمل یقین تھا۔ بین الاقومی تعلقات کا سابق پروفیسر اور ایک اسلامی آئیڈیلیٹ۔ اس نے نہ صرف یہ بتایا کہ ترکی کافی دیر سے بے حس و حرکت اس کے شاندار وزن کا انتظار کر رہا تھا اور ۔ لیکن اس نے اس خوشی کا بھی اظہار کیا جو اسے خود کو اس مقام پر دیکھ کرہو رہی تھی کہ وہ اپنی تعلیمی نظریات بین الاقومی سیاست کے بڑئے کینوس پر تجربہ کر سکتا ہے۔ ( یہ مقام بہت کم لوگوں کو ملتا ہے ) مختصر یہ کہ اس گفتگو نے نہ تو میرئے اعتماد کو اور نہ ہی تعریف کو متاثر کیا۔
ان مداخلت کے سالوں کے دوران ڈیوٹوگلو نے اپنے لیےبہت مقام بنا لیا اس نے اپنے واحد سرپرست ایرڈوگان کے لیے خصوصی طور پر کیا۔ اس کا ریکارڈ یہ تھا کہ اس کی پالیسیاں غیر مستقل تھیں جو اس کی مستقل ناکامی کا سبب تھیں ایک ناکامی اس قدر فضول تھی جو ایک خیال سے زیادہ نہ تھی۔ ڈیوٹوگلو کی سٹیورڈشپ میں انقرہ تعلقات ساری دنیا میں مغربی ممالک کے ساتھ خراب ہو گئے جب کہ عراق، ایران، شام، اسرائیل ،مصر اور لبیا اور دوسری مشرق وسطی کی ریاستوں کے ساتھ تعلقات بحال ہو گئے۔ مختصر یہ کہ ترکی حکومت اپنے ہی علاقے میں خطرئے سے دوچار ہو گئی۔
علامتی طور پر ترکی نیٹو کے جمہوریتوں کے اتحاد سے دور جا رہا تھا اور شنگھائی کوپریشن آرگنائزیشن کا حصّہ بننے جا رہا تھا۔ کیمل لیڈر آف اپوزیشن دکھی ہو کر کہتا ہے "ترکی دنیا میں اکیلا ہو گیا ہے "
بطور وزیر خارجہ ناکامی کے بعد ڈیوٹوگلو اب دلبرپ میں ایک ماتحت کے طور پر حکومت کے طور پر حکومت اور ائے- کے- پی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اسے "اہم چیلنجیز در پیش ہیں "۔
بطور ائے- کے- پی لیڈر اس کے سامنے جون 2015 ء میں پارلیمینٹری انتخابات میں ایک بہترین فتح دلانا ہے تا کہ آئین میں تبدیلی کر کے صدر کے واجبی مقام کو منتخب سلطنت میں بدلا جا سکے۔ جس کی چاہت ایرڈوگان کو تھی۔ کیا ڈیوٹوگلوووٹ ڈیلیور کر سکتا ہے۔ مجھے تو ایسا نہیں لگتا مجھے توقع ہے کہ ایرڈوگان ایک دن کو تباہ کر دئے گا جب وہ اپنے وزیراعظم کو صدر بننے کا مشورہ رئے گا کیونکہ وہ رینگتے ہوئے صدارتی کیمپس میں" رہتے ہوئے خود کو برا اور نظر انداز محسوس کر رہا تھا ۔
ترکی کے چھبیسویں وزیراعظم کو ایک غبارئے کی طرح پھولی ہوئی معیشت کا سامنا کرنا پڑاجو کہ خطرناک حد تک تباہی کے قریب تھی۔ نظم و ضبط کا فقدان ، ایک ملک جو کہ ایرڈوگان کے تقسیم کرنے والےقانون میں چل رہا تھا۔ ایک دشمنی پر مبنی گلن تحریک اور تقسیم شدہ ائے- کے- پی سب ایک مسلمان ملک ہیں۔ (غیر تہذیب میں تبدیل ہو رہے ہیں ) مزید یہ کہ خارجہ پالیسی سے متعلقہ مسائل جو کہ ڈیوٹوگلو نے خود پیدا کیے تھےابھی بھی جاری ہیں۔ خاص طور پر آئی ایس آئی ایس دشمن ایمرجینسی موصل میں۔
بد قسمت ڈیوٹوگلو اپنے دین میں ایک کلین اپ گروپ لے کر آیا جب وہ 4 بجے پارٹی میں ایا۔ اور اسے ایک بدنظمی کا سامنا کرنا پڑا جسے جا ننے والے مخالفوں نے پیدا کیا تھا ۔ خوشی سے جھگڑالو آمر ایرڈوگان مزید ترکی حکومت نہیں سنبھال سکتا لیکن مک کو کسی وفادار ، تجربہ کار ہاتھوں میں دینے کے متعلق بھی ترکی پریشان تھے، ان کے ہمسائےاور وہ سب جو کہ ترکی کے لیے نیک خواہشات رکھتے تھے۔
مسٹر ڈئنیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔