گذشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس دو خفیہ شدا بازی کی واردتوں میں ملوث پایا گیا جس نے بہت بھونڈئے طریقے سے اوبامہ کی غیرپیشہ وارانہ انتظامیہ اور مشرق وسطی کی دھوکے پر مبنی پالیسیوں کو بے نقاب کر دیا۔
پہلا کیس امریکی قانون میں یروشلم کی قانونی حثیت کے دشوار مسئلے سے متعلق تھا۔ 1947 ء میں اقوام متحدہ نے بنایا جائے گا( یہ لاطینی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب ہے corpus separatum فیصلہ سنایا کہ مقدس شہر کو
الگ حصّہ ہے)اور یہ کسی بھی ریاست کا حصّہ نہیں ہے۔ ان تمام سالوں کے بعد اور بہت سی تبدیلیوں کے باوجود امریکی پالیسی یہ سوچتی ہے کہ یروشلم کی اپنی ایک حثیت ہے جس کو وہ خود ہی رد کرتا ہے۔ اگر اس بات کو نظرانداز کر دیا جائے کہ 1949 ء میں اسرائیل کی حکومت نے مغربی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنایا اور 1980 ء میں یہ اعلان کر دیا کہ پورئے کا پورا یروشلم اس کا دارلحکومت ہوگا۔ حتی کہ 1995 ء سے ایگزیکٹیو برانچ بھی امریکی قانون کو نظر انداز کر رہی ہے۔ ( یہ مطالبہ کرنا کہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا جائے) اور 2002 ء میں( یہ مطالبہ کرنا کہ امریکی مسودات اس بات کو تسلیم کرئے کہ جو امریکی یروشلم میں پیدا ہوئے ہیں ان کو ایسے ہی سمجھیں جیسے کہ وہ اسرائیل میں پیدا ہوئے ہیں)۔ حتی کہ انھوں نے اس بات پربھی اصرار کیا کہ شہرکی ترتیب کا فیصلہ بھی سفارت کاری کے ذریعے کیا جائے گا۔
کے والدین نے اس کی طرف Menachem Zivotofskyاس پالیسی کا سامنا کرتے ہوئے یروشلم میں پیدا ہونے والے
یہ مطالیہ کیا کہ اس کے پیدائشی سرٹیقکیٹ یا پاسپورٹ میں یہ اندراج ہونا چاہیے کہ وہ اسرائیل میں پیدا ہوا۔ جب محکمہ خارجہ نے اس مطالبے کو رد کر دیا ، تو اس کے والدین نے مقدمہ دائر کر دیا ؛ اور اب ان کا یہ معاملہ سپریم نے اس باتRick Richmanکورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ 4 اگست سے چیزیں بہت دلچسپ ہوتی گئیں، جب نیویارک سن کے
کا نوٹس لیا کہ " وائٹ ہاؤس نے اپنی ویب سائٹ پر یہ تسلیم کیا ہے کہ یروشلم اسرائیل میں ہے۔۔۔۔۔۔ جیسے کہ محکمہ نے وائٹ Richmanخارجہ اور سی- آئی- ائے کہتے ہیں اور ان تمام باتوں نے حکومت کے کیس کو کمزور کر دیا
ہاؤس کی ویب سائٹ پر موجود تصاویر کے عنوان " یروشلم، اسرائیل" میں ان تین باتوں کی طرف اشارہ کیا ، جو کہ کی طرف سے ہونے والے سفر سے تعلق رکھتی ہیں: " نائب صدر جوبایڈن ، Joe Bidenمارچ 2010 ء میں
اسرائیلی صدر شمعون پیرس کے ساتھ یروشلم میں ہنستے ہوئے، اسرائیل"، ؛ نائب صدر جوبایڈن نے اسرائیلی وزیراعظم بیجمن نیتن یاہو کے ساتھ یروشلم، اسرائیل میں ملاقات کی " اور نائب صدر جوبایڈن نے برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلئیر کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔ یروشلم، اسرائیل میں ناشتہ کیا"۔ ریچ مین یہ سوچتا ہے کہ یہ الفاظ ممکنہ طور پر حکومتی کیس کے خلاف ایک اہم ثبوت رکھتے ہیں۔9
وائٹ ہاؤس ویب سائٹ کی تصاویر میں سے ایک " یروشلم، اسرائیل" کا ذکر کیا گیا ہے"۔ |
9 اگست کو ،3:22 پی-ایم پر ویلکی سٹینڈر کے ڈئنیل ہیلپر نے پہلی دفعہ ان تصاویر کی پوسٹنگ کے حوالے سے کے نقطہ نظر کو بار باردہرایا۔ دو گھنٹے چار منٹ بعد 5:26 پی-ایم، پر ہیلپر نے رپورٹ دی "کہ باظاہر Richman
وائٹ ہاؤس اپنی ویب سائٹ کے ذریعے چلا گیا ہے، اور ہر اس حوالے کو مٹا دیا ہے جو کہ یروشلم کا اسرائیل میں شامل ہونے کو ثابت کرئے۔ نیاء عنوان ایسے پڑھا جاتا ہے کہ ، " نائب صدر جوبایڈن ، اسرائیلی صدر شمعون پیرس کے ساتھ یروشلم میں ہنسا"۔ وائٹ ہاؤس کے کسی عملے نے تیزی سے اسے وہاں سے ختم کرنے کی کوشش کی۔ جیسے کہ جیمز ٹورنٹو نے وال سٹریٹ جورنل ، میں اس بات کا نوٹس لیا، کہ سپریم کورٹ اس طرح کے مذاق کو آسانی سے قبول نہیں کرتی۔
بارک اوبامہ نے وائٹ ہاؤس میں ایک افطار کا اہتمام کر کے جارج ڈبلیو بش کی روایت کو جاری رکھا۔ |
وائٹ ہاؤس میں دوسرا فریب 10 اگست کو افطار کے بعد (رمضان کا روزہ کھولنے کے لیے) عشائیہ کے لیے مہمانوں کی فہرست سے متعلق ہے۔ وائٹ ہاؤس نے ایک فہرست شائع کی، جس کے بارئے توقع کی جا رہی تھی کہ اس میں کانگرس کے 4 ارکان، سفارت کاروں کے 36 اور " کمیونٹی کے 11 ارکان" شرکت کریں گے۔ ایسے لوگوں کی تسلی کے لیے جو کہ اس طرح کے معاملات میں دل چسپی رکھتے ہیں، اس فہرست میں کسی بھی امریکی اسلام پسندوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔
لیکن یہ "کسی کو" کو باہر نکال دیتا ہے، جیسے کہ اس کے الفاظ نیولے کی طرح تھے۔ تحقیقاتی پروجیکٹ کی دہشت گردی پر کی جانے والی تحقیق اور دوسرئے ثبوت اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ عشائیے میں شرکت کے لیے شائع کی جانے والی فہرست میں کسی بھی امریکی اسلام پسندوں کا ذکر نہیں تھا، جس میں مسلم پبلیک افئیر کونسل کے حارث ترین،شمالی امریکہ کی اسلامک سوسائٹی کے مجید اور مسلم وکلاء کے اویس سوفی شامل ہیں۔
( اس کے علاوہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ : ایک 12 – رکنی غیر اسلامی گروپ کے ایک بھی نمائندئے کو مدعو نہیں جن کے مشن کا بیان امریکی آئین کا دفاع، مذہبی تکثریت کی بالا دستیAmerican Islamic Leadership Coalition کیا گیا
، امریکی سلامتی کا تحفظ اور اسلام کے عقیدئے پر عمل کرنے میں حقیقی تنوع پسندی کو فروغ دینے ، کے مقاصد کا اعلان ہے)۔ وائٹ ہاؤس میں مجموعی لحاط سے دو دن میں دو مکروہ عزائم براک اوبامہ کے تحت کام کرنے والے عملے کی اخلاقیات اور حتی کہ ان کی پاک بازی پر کسی کو بھی حیران کر سکتی ہے۔ کیا اس کی یہ پرزور کوشش واقعی ہی یہ سوچ سکتی ہے کہ وہ ہاتھ کی اس غیر اخلاقی چالاکی سے کسے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے عشائیہ میں ایک اسلام پسند، اویس سوفی۔ |
ایک الگ واقعے میں یہ ہر ایک دھوکے دہی کے مذمت کی یقین دہانی کرتا ہے؛ یہ دونوں اکھٹے، بدحواسی میں کی گئی ناکام انتظامیہ جس کے سروئے کی درجہ بندیاں انتہائی کم ہیں، کو ایک علامت کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔
کے سروئے کے مجموعے کے مطابق43.4 ٪ کی منظوری) جو کچھ بھی اس کی کامیابی کو بحال RealClearPolitics.com)
کرنے کے لیےضروری ہے اس کی کوشش کی جائے گی، یہاں تک کہ اس کا تمسخر اڑانے کے لیے اس کی بے ایمانی کو بھی بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔
خاص طور پر مزید یہ کہ ، یہ دونوں واقعات مشرق وسطی اور اسلامی پالیسیوں کی انتظامیہ کے دیوالیہ بننے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ 2009 ء کا فخر اپنی جگہ ، لیکن مایوسی اور ناکامی کی وجہ سے اس کی جگہ غصے نے لے لی ہے۔