جیسے کہ امریکہ کی ساکھ اور عزت و احترام عالمی امور میں سے ختم ہوتا جا رہا ہے، امریکی صدر اور اس کی ریاست کے سیکرٹریز اور دفاع فصیح طریقے سے اس کی تردید میں مصروف ہیں۔ بد قسمتی سے ان کے لیے، حقائق ٹرمپ الفاظ بھی کسی کو قائل کرنے والے ہیں۔
ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم پر، "جہاں واٹر – کولر گفتگو مشرق وسطی میں امریکہ کے زوال پذیر اثرورسوخ کے بارئے میں تھی،" جان کیری نے خود بھی یہ دعوی کیا کہ وہ ان دعوؤں کی وجہ سے پریشان ہیں ۔۔۔۔۔۔ جو کسی نہ کسی طرح امریکہ کو دنیا سے کاٹ رہے ہیں۔" انھوں نے زور دئے کر کہا، کہ کچھ بھی حقیقت سے زیادہ نہیں ہو سکتا:"ہم ایک سفارتی رابطوں کے دورمیں داخل ہو رہیں ہیں جو کہ ہماری تاریخ کے کسی بھی لمحے اتنے وسیع اور اتنے شدید نہیں " اس طرح سیکرٹری دفاع چیک ہیگل نے " اپنے اتحادیوں اور دوستوں کے ساتھ ایک نئے اور بہتر دور کا آغاز کرنے کے لیے ان سے ایک سے زیادہ وعدئے کیے۔"
ایک جنوبی آمر کو روکنے کے لیے جنوبی کوریا امریکی "ٹرپ وائر" پر انحصار کرتا ہے جو کہ ایک توپ خانے کی باڑ کو پہلے چند گھنٹوں کے اندر اندر سیول کو ہموار کر سکتا ہے، اوبامہ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ "ریاست ہائے متحدہ کا جمہوری کوریا کے ساتھ اتحاد کبھی بھی کمزور نہیں پڑئے گا۔"
امریکہ اور جنوبی کوریا کے فوجی اکھٹے مشقیں کر رہیں ہیں۔ |
سیناکو جزائر پر چائنا کے جارحانہ طور پر بڑھتے ہوئے تجاوزات کو روکنے کے لیے جاپان امریکہ کے ساتویں بحری بیڑئے پر انحصار کرتا ہے۔ اس نے اس بات کی بھی توثیق کی کہ " امریکہ ہمیشہ جاپان کے دفاعی اتحاد کے لیے ثابت قدم رہے گا،" جس کے لیے محکمہ خارجہ نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ سیناکو جزائر بھی اس میں شامل ہے۔
تائیوان کے لیے ،جو جمہوریہ کی سلامتی کے خلاف امریکہ کی پابندیوں پر انحصار کرتے ہیں،وہ، اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ ہم تائیوان تعلقات کے ایکٹ کے تحت آپس میں منسلک ہیں،"جنھیں کسی بھی قسم کے حربوں کے خلاف مزاحمت پر مجبور کرنے کے لیے یا تشدد کی دیگر اقسام کے خلاف مزاحمت کرنے کی صیلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ تائیوان کی سلامتی کو خطرئے میں ڈال سکتا ہے ۔"
جیسے کہ چائنا کی طرف سے دعوی کیا گیا ہے کہ،فلپائن اپنے جنوبی چائنا کے سمندر کے ساتھ موجود علاقوں کے بارئے میں پریشان ہے،خاص طور پر سپائٹلی جزائر اور سکاربراؤٹ ریف کے لیے وہ 1951 ء میں باہمی دفاعی معاہدئے کے منسلک ہونے کی وجہ سےجو کہ ایک ، مسلح حملے کی صورت فراہم کرتا ہے، کہ امریکہ عام خطرات سے نمٹنے کے لیے کام کرئے گا۔"
بہت سے سپارٹلی جزائر مییں سے ایک ۔ |
جوائن لان آف ایکشن میں ایران کی اوبامہ کی تسکین کے لیے سعودی عربیہ کو اس کے ذریعے خبردار کیا گیا، انھوں نے " خلیج میں اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کے مضبوط عزائم "کی توثیق کی۔
اور اسرائیل کے لیے، جو کہ دشمنوں کے سمندر میں اکیلا کھڑا ہے، اوبامہ نے اعلان کر دیا کہ " اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ کے عزائم اٹوٹ ہیں،" اسرائیل کے لیے مدد کرنا " ہماری بنیادی قومی سلامتی کے مفاد میں سے ہے۔"
سب سے پہلے پریشانی کی بات یہ ہے کہ ، امریکی ان اچھے اور ثابت قدم الفاظ کو شک سے دیکھتے ہیں:
1 ۔ پیور ریسرچ سنٹر کے مطابق ، امریکیوں کی ریکارڈ تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ امریکہ کی عالمی طاقت اور عزت و احترام کم ہوتا جا رہا ہے۔ 1970 ء کے بعد سے کئے گئے سروئے میں پہلی دفعہ " ایک اکثریت (53 ٪) کہتی ہے کہ امریکہ ایک عالمی رہنماء کے طور پر پچھلی دہائیوں کی نسبت ایک کم اہم اور کم طاقتور کردار اداء کر رہا ہے ،" جب کہ 17٪ یہ سوچتے ہیں کہ امریکہ کی طاقت مزید بڑھ گئی ہے۔ جتنی کہ ایک بہت بڑی اکثریت ٪70 یہ کہتی ہے کہ ماضی کی نسبت امریکہ کے رتبے میں کمی آئی ہے۔" اور ٪51 کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملات میں اوبامہ " کافی حد تک سخت نہیں ہیں۔"
دو تہائی سے زیادہ لوگ اوبامہ کی ایران کے معاملے پر طریقہ کارکے لحاظ سے منفی تاثر رکھتے ہیں، میلین گروپ نے یہ پتہ لگایا؛ کہ ایک اکثریت (37 – 57 ٪ ) اس بات کی تائید کرتی ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی اجازت دینے کی بجائے اس کے مقابلے میں ایران کی جوہری تنصیات کو فوجی حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا جائے۔
مئیک لافلینگ نے یہ رپورٹ دی کہ جواب دینے والوں میں سے 49 ٪ یہ سوچتے ہیں کہ اوبامہ کے آفس میں پانچ سال گزارنے کے دوران امریکہ کی ساکھ کم ہو گئی ؛ 40 ٪یہ سوچتے ہیں کہ اب امریکہ کے دشمن اوبامہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
جرمنی کے ہفتہ وار " ڈائٹ زیٹ " کے ایڈیٹر– جوزف جوفی۔ |
دوسرا یہ کہ پیو ریسرچ یہ رپورٹ دیتی ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی نصف عوام، اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور روس کی ایک تہائی عوام آخرکار چائنہ کو امریکہ کی جگہ دنیا کی صف اول کی سپرپاور کے طور پر دیکھ رہیں ہیں۔ دوتہائی اسرائیلی یہ سوچتے ہیں کہ اوبامہ ایرانیوں کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے نہیں روکے گا۔
تیسرا یہ کہ دنیا کے رہنماء ممالک مختلف ہیں جیسے کہ جاپان، پولینڈ، اور اسرائیل اوبامہ کے وعدؤں کے بارئے میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہت سے باتوں کے بارئے میں بات کرتے ہوئے ، جرمنی کے ہفتہ وار کے جوفیجوزف " ڈائٹ زیٹ " نے یہ رپورٹ دی کہ " اوبامہ کی کوششوں کی ثابت قدمی اور یک جہتی نے اس کی دنیا کے مصائب سے توجہ ہٹا دی ، امریکہ کو اس غلط راستے کی طرف جانے سے بچانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بارئے میں سخت ہونا چاہیے، وہ امریکہ کو ایک بڑی درمیانی پاور میں بدلنا چاہتا ہے۔
کامیاب " سفارتی رابطوں " کو ( جیسے کہ کیری ان کے بارئے میں کہتا ہے ) کہ انھیں اچھے الفاظ ،کھوکھلے وعدوں اور ناپسند سوچ کی طرف سے نہیں بلکہ ثابت قدمی ،اقتدار، اور ارادئے کی طرف سے مکمل حمایت ہونی چاہیے۔ کیا اوبامہ کی انتظامیہ کو ایک بہت بڑا مستقل نقصان کرنے سے پہلے اس کا احساس ہو گا؟ ممکنہ تبدیلیوں کے لیے یا اس کے برعکس ایرانی جوہری معاہدہ دیکھیے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔