این۔ بی واشنگٹن ٹائمز کے عنوان کے مطابق : " پسں پشت قیادت،ایک اچھی امید کی کرن"
فرانسیکو ہالینڈ کی سوشلسٹ فرانسیسی حکومت نے تہران کے ساتھ ایک غلط معاہدئے کو روک دیا،جس کی وجہ سے وہ جنیوا مذاکرات میں ایک ہیرو بن کر ابھرا، ایک گروپ اس پر بہت زیادہ تعجب کر رہا تھا۔ لیکن اوبامہ کی انتظامیہ کے خاموش رہنے کی وجہ سے بھی ایک منطقی ردعمل ہو سکتا ہے۔
فرانسیسی صدرفرانسیکو ہالینڈ ایک ذمہ داری کے نئے احساس کے ساتھ۔ |
ایک بے کار،بدحواس وائٹ ہاؤس کے ساتھ امریکہ کی خارجہ پالیسی بے مثال طور پر لازوال ہے جو بامشکل باہر کی دنیا پر توجہ دئے پا رہی ہے،اور جب یہ ایسا کرتا ہے،تب وہ ایک ناموافق کمزور اور عجیب وغریب انداز میں یہ کام کرتا ہے۔ اگر کوئی کسی اور چیز سے اتنا ہی تعلق رکھتا تھا جتنا کہ عظیم الالشان اوبامہ کا اصول ہے،تو اسے ایسے پڑھا جائےگا: دوستوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے،دشمنوں کی نازبرداری کی جا رہی ہے اور اس بات پر عمل کرنے کے لیے اتفاق رائے حاصل کی جاتی ہے اور غیر متوقع طور پر کام کیے جاتے ہیں جو امریکہ کے مفادات کی قدرو قیمت کو کم کر رہے ہیں۔
باقی بہت سے ناقدین کے ساتھ ساتھ، میں بھی اس ریاست کے امورکی وجہ سے غم زدہ ہوں۔ لیکن فرانس کے ردعمل نے اس بات کا عملی مظاہرہ پیش کیا کہ یہ ان کے لیے امید کی کرن ہے۔
جنگ عظیم دوئم سے لے کر جب تک اوبامہ اس والٹذ میں داخل نہیں ہوا، امریکی حکومت نے بین الاقوامی معاملات میں
برتری لے جانے کا ایک نمونہ قائم کیا اور اس کے بعد ایسا کرنے پر تنقید حاصل کرئے گا۔ اس کے بارئے میں تین مثالیں ہیں : ویت نام میں امریکیوں کو شمالی ویت نام اور ویٹاکونگ کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے اپنے جنوبی ویت نام اتحادیوں کو قائل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ شدید سرد جنگ کے دوران، انھوں نے شمالی ایٹلینٹک معاہدئے کی آرگنائزیشن کے اتحادیوں پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ وہ سویت یونین کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کریں۔ 1990 ء کے دوران، انھوں نے مشرق وسطی کی ریاستوں پرمشتمل ہونےاور صدام حسین کو سزا دینے کے لیے زور دیا۔
ہر معاملے میں امریکی خود سے آگے بڑھے، تب ایک مشترکہ دشمن کے خلاف مل کر کاروائی کرنے کے لیے اتحادیوں کی منت سماجت کی، جو مکمل طور پر ایک غیر منطقی طریقہ کار ہے۔ ارد گرد کے اور قریبی کمزور ویت نام، یورپین اور عربوں کو ایک بہت دور اور مضبوط امریکیوں کی نسبت ہینوئی، ماسکو اور بغداد سے بہت زیادہ خدشات ہونے چاہیے۔ مقامی لوگوں کو اپنی حفاظت کے لیے ینکین کی منت سماجت کرنی چاہیے تھی۔ کیوں ایسے معاملات مستقل طور پر نہیں تھے۔۔
کیونکہ امریکی حکومت نے، ایک ہی غلطی کو دہراتے ہوئے اپنی اعلی نقطہ نظر اور وسیع تر اخلاقیات پر یقین دلایا: کہ اتحادیوں کو ایک بھرپور شراکت دار کے طور پر دیکھنے کی بجائے انھیں ایک سست رفتاری سے کام کرنے والے اور الجھن زدہ رکاوٹیں پیدا کرنے والوں کے طور پر لیا،ان کے ساتھ تعلق کو ایک طرف کر دیا اور اہم ذمہ داریوں کے لیے انھیں غیر اہم سمجھا گیا۔ بہت کم توقعات کے ساتھ ( کسی حد تک کم اسرائیل اور فرانس )، امریکی بالغ نوجوان اپنے چھوٹے اتحادیوں کو لاپرواہ بچوں جیسا سمجھتے ہیں۔
یہ اپنے اتحادیوں کو اس بات کی اگاہی کے ساتھ ترک کرنے کے لیے ان کی اپنی عدم مطابقت کی وجہ سے یہ انہونے نتائج پیدا ہوئے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے معاملات شازونادر ہی اہمیت رکھتے ہیں، وہ سیاسی نادانی کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ اپنی قسمت کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں، وہ امریکہ مخالف جذبات اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر فعال طرز ، عمل، جیسے کہ ویت نام میں کرپشن، نیٹو میں کاہلی، اور مشرق وسطی میں لالچ جیسے کاموں میں سرگرم رہنے میں آزادی محسوس کرتے ہیں۔ موگینس گلسٹرپ ، ایک ڈینش سیاست دان، نے اس مسئلے کو چھپا کر رکھا، 1972 ء میں اس نے یہ تجاویز پیش کیں کہ ڈنمارک کے لوگ اپنے فوجیوں کو منتشر کر کے ٹیکس اور لوگوں کی زندگی دونوں کو بچاتے ہیں اور وزارت دفاع میں اس کی جگہ ایک جواب دینے والی مشین کو رکھتے ہیں جو روسی زبان میں ایک ہی پیغام کو چلاتی ہے کہ : " ہم نے گھٹنے ٹیک دئیے !"
موگینس گلسٹرپ ، تمام سیاست دانوں میں سے سب سے زیادہ غیر سنجیدہ یورپی سیاست دان۔ |
براک اوبامہ کے طریقہ کاروں نے امریکہ کو اس کے روایتی میچور کردار سے پیچھے ہٹا دیا ہے اور اس کو نادانوں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیا۔ ایک کیس کی طرف سے – کیس کی بنیاد پر بحرانوں کو جواب دیتے ہیں اور دیگر حکومتوں کے ساتھ مشاورت کر کے کام کرنے کو زیادہ پسند کرتے ہیں، وہ چھپ کر قیادت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور پورئے پیک میں سے صرف ایک کو، اگرچہ کہ وہ امریکہ کے صدر کی بجائے بیلجئیم کے وزیر اعظم کے طور پر تھے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ، تصویر کے دوسرئے رخ کے مطابق یہ کمزور اتحادیوں کی بہت زیادہ بے عزتی کرنے کے پرامن اثرات مرتب کرتی ہے اور انھیں اس حقیقت سے آشنا کرتی ہے کہ ایک طویل عرصے تک واشنگٹن اپنے اتحادیوں کی نازبرداریاں اٹھتا رہا ہے۔ متعصب اتحادی جیسے کہ کینیڈا، سعودی عربیہ، اور جاپان کو اس حقیقت سے آشنا کررہے ہیں کہ وہ انکل سام پر پوٹ – شوٹ نہیں کر سکتے، اپنے ممکنہ علم کے مطابق یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ خود کو ان سے محفوظ کر لیں گئے۔ ایک ہوش مند نئے تجربے کے تحت، اب وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کی کاروائیوں کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر ترکی کے رہنماء انتظامیہ کے تحت آگ جلا کر شام کی خانہ جنگی میں مداخلت حاصل کرنے کی کوشش کر رہیں ہیں۔
جان کیری، امریکی ریاست کا بد ترین سیکرٹری اس جیسا کوئی نہیں تھا؟ |
پس کیا اوبامہ کی نامناسبت اتنی صیلاحیت رکھتی ہے کہ وہ، خود پسند شراکت داروں کو بہت زیادہ مصروف، میچور اداکاروں میں تبدیل کرنے سے گریزاں ہیں۔ اسی لمحے، اس کے کھوکھلے وعدوں نے امریکی ساکھ کو ایک مغرور نینی سے بہت زیادہ قابل تعریف قسم کے ساتھی میں بدل دیا اس کے ساتھ ساتھ غصے کو بھی کم کر دیا جس کا نشانہ امریکی تھے ۔
ظاہر ہے کہ، ایک کمزور خارجہ پالیسی ایک تباہ کن خطرئے کی پیس کش کرتی ہے( جیسے کہ ایرانی جوہری پروگرام کی ایجاد کو آسانی فراہم کرنا یا چائنہ کی جارحانہ کاروائی کے خلاف مزاحمت نہ کرنا، جو کہ جنگ کی طرف لے کر جاتا ہے)، تو پس ایک امید کی کرن صرف یہ ہی ہے کہ، ایک بہت بڑئے سرمئی بادل کے لیے ایک حقیر سا معاوضہ ۔ یہ ایسا کچھ نہیں ہے جس کو فوقیت دی جائے۔ پھر بھی، دو شرائط کو پورا کیا جانا جاہیے۔ اوبامہ کی نگرانی میں کسی قسم کی آفت نہیں ائے گی اور باحثیت جانشین وہ امریکی طاقت اور خودمختاری کو دوبارہ ایک مقام دئے گا۔ یہ صرف ان امریکیوں اور اتحادیوں کے لیے ہو سکتا ہے جو کہ پیچھے مڑ کر اس دورانیے کو ایک ضروری مثبت میراث کے ساتھ دیکھیں۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔