سیاست دان جنگ اس لیے شروع کرتے ہیں کیونکہ اس طرح انھیں اپنے مقاصد حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے۔ جنگ کی وجہ ۔ جعفریبیسنے نے اپنی بہترین کتاب میں لکھا نہیں تو وہ جنگ سے گریز کریں گے پھر کیوں حماس نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا؟ 11 جون سے جنگ کا آغاز راکٹوں کی لائنچنگ سے ہوا۔ نومبر 2012 ء سے ایک جگہ پر سکون تھی جس کا سکون تباہ کر دیا گیا۔ اس دھماکے کے راز نے ٹائمز آف اسرائیل ایڈیٹر کے تجسس کو ابھارا، یہ دریافت کر کے کہ موجودہ لڑائی " کوئی قابل اعتبار وجہ " نہیں رکھتی۔ حتی کہ یہ جنگ شروع ہونے کو تھی اور کیوں اسرائیلی لیڈر شپ نے بہت کم ردعمل کا اظہار کیا، اور لڑنے سے گریز کی کوشش کی ؟یہ دونوں فریق ہی جانتے ہیں کہ اسرائیل کا حماس کی فوجوں کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ذہانت، کمانڈر اور کنٹرول ٹیکنالوجی، فائر پاور اور فضائی علاقے پر غلبے تک۔
اسرائیلی فضائی فوج فضائی علاقے پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے۔ |
یہ ردعمل کس بات کا اظہار کرتا ہے؟ کیا اسلامسٹ اس قدر پاگل ہیں کہ وہ باہر کا برا نہیں مناتے؟ یا یہودی زندگیوں کے نقصانات پر بہت پریشان ہیں کہ وہ لڑنا ہی نہیں چاہتے؟۔
دراصل حماس لیڈر کافی عقلمند ہیں۔ دورانیہ کے حساب سے ( 2006، 08، 12 ) انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اسرائیل سے فوجی میدان جنگ میں تو بہر صورت نہیں جیت سکتے لیکن وہ سیاسی پس منظر میں جیت کے لیے پر امید ہیں، اس کے متضاد اسرائیلی لیڈر فوجی جنگ جیتنے کے بارئے میں پر امید ہیں مگر انھیں یہ خطرہ ہے کہ وہ سیاسی شکست سے دوچار ہونگے۔ اخبارات میں بری شہرت، اقوام متحدہ کی قراردادیں اور اسی طرح کا اور بہت کچھ۔
سیاست پر فوکس ایک تاریخی تبدیلی سے اگاہ کرتا ہے۔ پہلے 25 سال اسرائیل کے سخت چلینجز سے نبرآزما رہے اسرائیل کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے۔ ( خاص طور پر 1948-1949 ، پھر 1967- 1973 )اور کوئی نہیں جانتا کہ ان جنگوں کا نتیجہ کیا نکلے گا مجھے 1967 ء کی جنگ کا پہلا دن یاد ہےجب مصر نے شاندار فتح کا اعلان کیا کہ اور تمام اسرائیلی پریس اس تجویز کردہ تباہی پر خاموش تھی، یہ ایک شاک تھا کہ اسرائیل نے جنگی علاقوں میں فتح حاصل کرہی ہے۔ نقط یہ ہے کہ نتائج میدان جنگ میں غیر متوقع طور پر سامنے آئے تھے۔
بیرونی دنیا اسرائیلی فوجوں سے بے خبر تھی جس نے 1967 ء میں مصر کی فضائی فوج کو تباہ کر دیا تھا۔ |
جنگی میدان کے نتائج پچھلے چالیس سالوں میں عرب اسرائیل جنگوں کے قابل پیشن گوئی تھی۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اسرائیلی فوجیں چھا جائیں گی۔ یہ جنگ سے زیادہ کوپس اینڈ روبر تھی۔ حیرت انگیزطور پر اس نے جنگ کے جیتنے اور ہارنے سے زیادہ توجہ اخلاقیات اور سیاست کی طرف کروا دی۔ اسرائیل کے دشمنوں نے شہریوں کو مارنا شروع کر دیا جن کی اموات ان کے لیے بہت سارئے فائدئے لائیں گی۔
2006 ء سے ہونے والے 6 جھگڑوں میں حماس کی خراب شہرت کو" بچاؤ " کے لیے "بچایا" اور اپنے علاقے میں یک جہتی کا ثبوت دیا۔ اسرائیلی اور عربوں دونوں کے درمیان دوستی کروائی فلسطینیوں اور دوسرئے مسلمانوں کو خود کش حملہ آور بننے پر مجبور کر دیا۔ غیر اسلامی عرب لیڈروں کی تذلیل کی۔ اسرائیل سے متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کی۔ یورپیوں کو اسرائیل پر سخت پابندیاں لگانے پر آمادہ کیا جس نے اسرائیل کے خلاف بائیں بازو والوں نےکیس کے سپیگوٹ کھول دئیے اور اسلامی جمہوریہ ایران سے اضافی امداد حاصل کر لی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سب سے زیادہ خوشی اسرائیل کو ذلیل کرنے میں محسوس کرتی ہے۔ |
مقدس گریل سیاسی جنگ کی جس میں ایک پر دلیل جذباتی بیان بھی شامل تھا جس کا مقصد بائیں بازو والے علاقوں میں خود کو مظلوم ثابت کر کے ہمدردی حاصل کرنا تھا۔ ( ایک تاریخی نقطہ نظر کے حوالے سے یہ اشارہ کرنا ہے، یہ بہت عجیب ہے! روایتی طور پر حرکت دشمن کو خوف ذدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں خود کو ڈرانے والا اور نہ رکنے والا ثابت کر کے۔
اس نئی جنگی حربے میں ایک پر دلیل جذباتی بیان کا پیش کرنا بھی شامل ہے۔ جو کہ مشہور شخصیتوں کی شمولیت کی تلاش میں تھا جو کہ ضمیر کو جھنجھوڑتے تھے اور سادہ مگر پر کشش سیاسی کارٹونوں کا بنانا (اسرائیلی اس میں سب کو مات دینا چاہتے ہیں ماضی میں بھی اور حال میں بھی) فلسطینی تو اسرائیلیوں سے بھی زیادہ تخلیقی ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے دوہری فرڈیولنٹ ٹیکنیکس متعارف کروائیں ہیں سٹل تصویروں کے لیے "فکسیٹو گرافی "کی اور "بیلی وڈ "ویڈیوز کے لیے۔ اسرائیل کی ضرورت کے متعلق مطمئین کرنے کے لیے یا پیغام کو باہر بھیجنے کے لیے ہیسبرہ استعمال کرتے ہیں، لیکن موجودہ سالوں میں انھیں اس پر زیادہ مرکوز پایا گیا ہے۔
شامی اور عراقی سول جنگوں میں پہاڑوں کی چوٹیاں اور شہر اور سٹریٹجیک طریقے ،لیکن اخلاقیات تناسب اور انصاف کا غلبہ ہے عرب اسرائیل جنگوں میں ۔ جیسے کہ میں نے 2006 ء کے اسرائیل اور حماس کے جھگڑئے کے متعلق لکھا،یک جہتی ،مورال، وفاداری اور سمجھ بوجھ نئے سٹیل، ربر اور تیل کے ہتھیار ہیں " یا 2012 ء میں " ان ہتھیاروں کی جگہ گولیوں نے لے لی۔ سماجی میڈیا کی جگہ ٹینک آ گئے۔ زیادہ وسیع طور پر یہ جدید جنگی معاملات میں ٹھوس اور بنیادی تبدیلی ہے، جب مغربی اور غیر مغربی فوجیں لڑتیں ہیں جیسا کہ امریکی رہنمائی میں عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگیں کلازوٹزن اصطلاح میں عوامی رائے میں مرکزی نقطہ ہے۔
یہ جو سب کیا گیا اس کا حماس کو کیا فائدہ ہے؟ کچھ خاص نہیں 8 جولائی سے جنگی میدان میں حماس ہار رہا ہے۔ اسرائیل کی تذلیل دنیا بھر کے فورم سے بھی زیادہ ہو رہی ہے۔ حتی کہ عربی میڈیا خاموش ہے۔ اگر یہ ہی کچھ ہوا تو حماس کو پتہ چل جائے گا کہ اسرائیلیوں کے گھروں پر راکٹ پھینکنے کا خیال کچھ اچھا نہیں تھا ۔ بے شک اگلے چند سالوں میں حماس کو اس طرح کی جنگ سے روکنے کا مطلب سیاسی اور فوجی دونوں جنگوں کا ہارنا ہو گا اور حماس بہت برئے طریقے سے ہارئے گا۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔