اوبامہ کی انتظامیہ لیبیا کے دہشت گرد ملزم جس کا نام احمد ابو خٹالا ہے کو دہشت گردی کے مقدمے کی سماعت کے لیے واشنگٹن لے کر آئے۔ اس کی کہانی یہ انکشاف کرتی ہے کہ حکومت اسلامی خطرئے کو کیسے سمجھتی ہے، اور اس کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔ خوش قسمتی سے ایک بہتر متبادل موجود ہے۔
احمد ابو خٹالا۔ |
ابو خٹالا ستمبر 2012 ء میں بن غازی میں ایک سفیر اور دیگر تین امریکیوں کے قتل میں حصّہ لینے پر فرد جرم کے الزام میں وہاں وموجود ہے۔ ایک تکلیف دہ ،سست تحقیقات کے بعد، جس دوران متشبہ شخص نے ایک کھلے اور باغیانہ انداز میں میڈیا کو انٹرویو دیا،15 جون کو امریکی فوج نے اسے گرفتار کر لیا۔ سمندری راستے اور پھر ہوائی راستے کے ذریعے اسے واشنگٹن ڈی- سی منتقل کر دیا گیا،ابو خٹالا پر فرد جرم عائد کر کے جیل بھیج دیا گیا، اس سلسلے میں ،مائیکل پیٹرسن ، ایک دفاعی وکیل کے طور پر پیش کیا گیا، اور پھر مقدمے کا عربی ترجمہ سننے کے بعد ، سازش کا ایک الزام لگنے سے یہ مجرم نہیں ہو جاتا اس کی التجا کی گئی اور حلال غذا کا انتظام کرنے کی درخواست کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر زندگی میں جیل کا سامنا کیا۔
ایک اڑٹسٹ ابو خٹالا کو بیان کرتا ہے کہ 28 جون، 2014 ء میں واشنگٹن ڈی- سی میں وفاقی امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں جج جان فیسی اولا کی طرف سے حلف برداری کی سماعت میں اپنے وفاعی وکیل کے سامنے ہیڈ فون پہنے ہوئے ہے۔ |
یہ منطر نامہ دو قسم کے مسائل پیش کرتا ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ ابو خٹالا کو امریکی قانونی نظام کی طرف سے حفاظت کا مکمل سازوسامان مہیا کیا گیا تھا ( در حقیقت وہ اپنا مرانڈا حقوق پڑھ رہا تھا، جے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خاموش رہے اور اپنے وکیل کے ساتھ مشورہ کرئے)،جس نے اس کی سزا یابی کو غیریقینی بنا دیا۔ جیسے نیویارک ٹائمز وضاحت کرتا ہے کہ اس کے خلاف الزمات ثابت کرنا "خاصا مشکل ہو جائے گا" حملوں کے حالات کی وجہ سے ، جو کہ خانہ جنگی کے درمیان اور ایسے ملک میں روپذیر ہوئے جو کہ ریاست ہائے متحدہ کی دشمنی سے بھرا پڑا ہے،جہاں سیکیورٹی کے متعلق خدشات کا مطلب یہ ہے کہ امریکی قانون تفشیش کاروں کو جرم کی جگہ جا کر ثبوت اکھٹے کرنے میں ہفتوں کا وقت درکار ہو گا، اور استغاثہ کو ریاست ہائے متحدہ میں لیبیا سے لائے گئے شاہدین کی گواہی پر ہی انحصار کرنا ہو گا جو کہ سوالات پوچھنے کے دوران ہکلا بھی سکتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ ، ایک سزا کیا بہتری لائے گی؟ اگر سب بہتر ہو جاتا ہے، تو نظریاتی ذرائع، فنڈینگ اپریٹس، کمانڈ اور کنٹرول ڈھانچہ، اور دہشت گرد نیٹ ورک کو چھوڑتے ہوئے کمیشن کا ایک چھوٹا سا کارگر حصّہ لیا جائے گا۔ ایک سال تک کی جانے والی خشک،پچیدہ اور مہنگی کوشش اس ایک نقطے کو ثابت کرئے گی، کہ دشمن کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اگر ابو خٹالا کو سزا مل جاتی ہے ، تو انتظامی حکام اس پر خوشی سے نعرئے لگا سکتے ہیں لیکن امریکی پھر بھی صرف معمولی حد تک ہی محفوظ ہوں گے۔
یہ بیکار سا واقعہ 1990 ء کی یاددہانی کرواتا ہے جب دہشت گردی کے حملوں کے واقعات کو فوجی طاقت کی مدد سے حل کرنے کی نسبت معمول کے مجرمانہ واقعات کی طرح سلوک کیا جاتا تھا اور ان کا انتظام قانون کی عدالتوں میں کیا جاتا تھا۔ اس کے جواب میں، میں نے 1998 ء میں یہ شکایت کی کہ امریکہ کی حکومت نے دہشت گردانہ تشدد دیکھا " وہ ایک نظریاتی جنگ کے طور پر نہیں تھا ، بلکہ یہ ایک مجرمانہ واقعات کا ایک تسلسل تھا"، ایک غلط نقطہ نظر نے "امریکہ کی فوج کو ایک عالمی قسم کی پولیس میں بدل دیا، جس کو کہیں بھی ایکشن لینے سے پہلے ایک غیر حقیقی قسم کی اعلی سطح کی یقین دہانی چاہیے "، اور اسے کے لیے شواہد جمع کرنے کی ضرورت ہے جس کو امریکہ کی انصاف کی عدالت میں استعمال کر سکیں۔
جب 11\9 کی شام جارج ڈبلیو بش نے ڈرامائی طور پر یہ اعلان کیا کہ " دہشت گردی کے خلاف جنگ" تب انھوں نے مجرمانہ تمثیل کو رد کر دیا۔ جب کہ یہ ایک بے کار سا جملہ ہے کہ ( کوئی بھی حکمت عملی پر جنگ لاگو کر سکتا ہے؟) اب جو کچھ بھی یہ بن گیا اسے بش کا اصول کہا گیا جس کو جنگ کا اعلان کرنے سے بہت فائدہ حاصل ہوا تھا – جیسے کہ امریکیوں پر حملہ کرنے والوں – کے خلاف جنگی کاروائی کی گئی۔ لیکن اب 13، سال بعد اور اس کے کچھ حصے کی وجہ سے اسے جنگ میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اوبامہ کی انتظامیہ نے 11\9 سے پہلے گرفتار مجرموں کے بارئے میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کر لیا ۔
11\9 کو جارج ڈبلیو بش عوام سے خطاب کر رہے ہیں اور " دہشت گردی کے خلاف جنگ" کا اعلان کر رہے ہیں۔ |
اس کی بجائے ، امریکی شہریوں پر دہشت گرد حملے کے ضمن میں امریکہ کا ردعمل فوری اور مہلک ہونا چاہیے۔ جیسے کہ میں نے 16 سال پہلے لکھا تھا ، کہ " کوئی بھی جو امریکیوں کو نقصان پہنچائے گا اسے یہ بات اچھے طریقے سے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا یقینی اور بہت برا انتقام لیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بہت سے معقول شواہد اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ مشرق وسطی کے دہشت گردوں نے امریکیوں کو نقصان پہنچایا ہے، تب امریکی فوجی طاقت کو تعنیات کیا جانا چاہیے۔ اگر مجرموں کے بارئے میں واضح طور پر معلوم نہیں ہے، تو ان لوگوں کو سزا دینی چاہیے جو ان دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔ صرف ایک فرد کے پیچھے نہیں بلکہ ان حکومتوں اور تنظیموں کے پیچھے جائیں جو دہشت گردی کو سپورٹ کرتے ہیں"۔
بہت باریک بینی سے کیے گئے تحزیے کو چھوڑ دیں کہ حملہ کس نے کیا۔ سیکیورٹی صرف عدالت کے پیچیدہ طریقہ کار پر ہی نہیں بلکہ امریکی ڈیٹرینس کے ریکارڈ پر بھی انحصار کرتی ہے " اس خوفناک عذاب سال کا سامنا کرنے کے بعد ان لوگوں کے خلاف قائم کی گئی بے شک وہ کوئی بھی ہو کہ جو کسی امریکی شہری کو ذرا سا بھی نقصان پہنچائیں گے" تو دشمنوں کو امریکہ کی مکمل قہر کی توقع کرنی چاہیے جب وہ اس کے شہریوں کو نقصان پہنچائیں، اس طرح مستقبل میں اس طرح کے حملوں کے ارتکاب کو روکا جا سکتا ہے۔ امریکی ٹیکس دہندگان ایک سال میں 3 ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ ٹیکس وفاقی حکومت کو دیتے ہیں اور اس کے بدلے میں ان سے بیرونی خطرات سے حفاظت کی توقع کرتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے دوگنی حفاظت کی توقع کرتا ہے جو اتفاقی طور اپنے ملک کی جانب سے بیرون ملک جاتے ہیں، جیسے کہ بن غازی میں سفارت خانے کے 4 اہلکار ہلاک ہوئے۔
جرائم کو ثبوت ، مرانڈا حقوق، وکلاء، ججوں اور جیوری کے قوانین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لڑائی کو امریکی فوج کی طرف سے پوری طاقت سے کی جانے والی جوابی کاروائی کی ضرورت ہے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔