واشنگٹن ٹائمز کے عنوان کے مطابق: مشرق وسطی کے بارئے میں سویڈن کی دل پسند سوچ: ایران اور فلسطین کے متعلق ناتجربہ کارانہ قیاس آرائیوں کی آوازیں ایک بے کار چیز کے طور پر دیکھائی دیتی ہیں۔
بحث و مباحثہ کے لحاظ سے سویڈن تمام یورپی ممالک میں سے اپنی تاریخی قومی ہم آہنگی ( "ایک بڑا خاندان")، عسکری اور سوشلسٹ میراث، آزادی اظہاررائے والی امیگریشن، بے مثال سیاسی درستگی اور اعلی حثیت والی " اخلاقی سپر پاور" جیسی خوبیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ یورپی ہے۔ ایک امریکی قدامت پسند کے لیے یہ تمام خصوصیات شائد ٱس کو تمام باقی یورپی ممالک کے لحاظ سے سب سے زیادہ اجنبی ملک بنا دیتی ہیں۔
میں سویڈیش وزارت خارجہ امور( ایم – ایف- ائے) میں بیوروکریسی کے دو سئنیر پرمنٹ ارکان کے ساتھ ہونے والے میرئے مباحثے کا خلاصہ اور بیان اس کے تناظر میں پیش کرنا چاہوں گاجو کہ میرئے سٹاک ہولم کے حالیہ دورئے کے دوران ہوا۔ ہمارا خوشگوار مباحثہ جس پر یہ تنقید کی گئی کہ اس میں صرف مشرق وسطی پر ہی توجہ مرکوزکی گئی تھی، جس پر ہم نے اتفاق کیا وہ کچھ بھی نہیں تھا؛ ہو سکتا ہے کہ میں نے شام یا سوڈان کے ایم- ایف- ائے پر زیادہ اچھے طریقے سے مباحثہ کیا ہو۔
ایک اٹھارویں صدی کا ایک شاہی محل جس پر سویڈیش وزارت خارجہ نے 1906 ء کے بعد Arvfurstens Palats سے قبضہ کر لیا تھا۔ |
باظاہر طور پر سادہ لوح حکام کے مندرجہ بالا بیانات، میرئے جوابات کی نسبت زیادہ رنگین ہیں ہم سب سے پہلے ایرانی جوہری پروگرام کے بارئے میں بات چیت کرتے ہیں۔
ایرانی معائنے کی ٹیم جو اپنا کام بہت محنت سے کرتی ہے وہ کبھی بھی کہیں بھی معائنے کے لیے جا سکتی IAEA1
ہے ؛ اس نےچوبیس گھنٹے ایرانی تنصیات کو دیکھنے کے لیے کیمرئے لگائے ہوتے ہیں، تو یقینی طور پر ہمیں یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ کیمرئے جوہری تنصیب کے ہر آخری مرحلے کو ریکارڈ MFA میرا جواب: سویڈیش
کرتے ہیں؟ درحقیقت نہ ہی سٹاک ہولم اور نہ ہی کوئی اور دارلحکومت اس بات کا اندازہ کر سکتی ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ جتنا کہ ہم جاہتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ایرانی پروگرام جدید اور اعلی درجے کا ہو سکتا ہے ؛ بلاشبہ ، یہاں تک کہ تہران شمالی کوریا یا پاکستان سے ہتھیار خرید سکتا ہے۔
2 ۔ 2003 ء میں اسلامی جہموریہ ایران نے اپنا جوہری بم بنانے والے پروگرام کو ترک کر دیا۔
میرا جواب : ایرانی حکومت ، جیسے کہ اس کے صدر ، حسن روحانی نے خود اسے لیے اس بات کی طرف اشارہ کیا ، کہ ان کا جوہری پروگرام ایک لمحے کے لیے بھی نہیں روکا جائے گا۔
3 ۔ اگر کوئی بیرونی طاقت ایرانی جوہری تنصیات پر حملہ کرئے گی تو یہ کاؤنٹرپروڈکٹیوٹیی تہران کے حقیقی شدید رد عمل کی وجہ بنے گی اور وہ اس کے جواب میں بم بنانے کا اہم فیصلہ کریں گئے۔
میرا جواب: وہ تصورات جنہوں نے تنصیات کو بہت مؤثر کر دیا ، وہ واضح طور پر ایک غیر ترقی یافتہ ایرانیوں کو ترقی کرنے پر حوصلہ افزائی کرئے گی۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عراقی اور شامی دونوں جوہری پروگرام اسرائیلی جہازوں سے کیے جانے والے حملے کے دوران ختم ہو گئے تھے۔
سرکاری خبر رساں ادارئے کی طرف سے دیکھائے گئے ایران کے سینٹری فیوجز۔ |
ہم نے سویڈیش حکومت کے بہت حالیہ فیصلے کے مطابق کہ " فلسطین " کو ایک ریاست تسلیم کر لیا جائے، کے تناظر میں عرب – اسرائیل تنازعے پر بھی تبادلہ خیال کیا ۔
1 ۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ، یہ اقدام مقاصد رکھتے ہیں ، کہ اسرائیل کو سزا نہیں دی جائے گی بلکہ ٱن فلسطینیوں کو ہمت دی جائے گی جو اس بات سے مایوس ہو چکے ہیں کہ ان دونوں ریاستوں کے مسئلے کا ممکنہ حل کیا ہو گا، جو ایک فلسطین سے آگے ایک اسرائیل پر مشتمل ہو۔ جیسے کہ یہ اسرائیل کا دشمن نہیں ہے ( جہاں دو ریاستوں کے ممکنہ حل کے لیے حکومت اور آبادی کو پیچھے ہٹایا جائے) بلکہ یہ حماس کا مخالف ہے ( جس نے ان نتائج کو مسترد کیا)۔
میرا جواب: سویڈیش فیصلے اور خواہش پر اسرائیلی حکومت اور آبادی نے شدید منفی ردعمل کا اظہار کیا ، اس میں کوئی شک نہیں، کہ وہ لوگ جو غصے میں ہیں انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سرپرستی کا یہ فیصلہ ان کی اپنی بھلائی کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس حماس نے اس اقدام کو سراہایا اور دیگر حکومتوں پر بھی زور دیا کہ وہ اسرائیل کو الگ کرنے کے لیے سٹاک ہولم کے فیصلے کو منظور کریں۔
2 ۔ مغربی کنارئے پر اسرائیلی "یہودی بستیاں" ( جن کو میں قصبے کہنا زیادہ پسند کرؤں گا) نے اس بات کا اظہار کیا کہ ان دو ریاستوں کے مسئلے کا حل ناممکن ہے، ان کو بنانے کے لیے فوری طور پر یہ انتہائی ضروری ہے کہ ان کی مزید توسیع کو روکا جائے۔
میرا جواب: میں تیزی سے آکے بڑھا تو مجھے اسرائیلی عمارتیں فلسطین پر دباؤ ڈالتی ہوئی نظر آئیں کہ وہ اس تنازعے کا سنجیدہ حل چاہتے ہیں۔ فلسطینی اگر زیادہ لمبے عرصے تک اس سے ٹال مٹول کرتے رہے تو ان کے پاس تعمیر کے لیے کم زمین رہ جائے گی۔
بہت سے بیانات اور پوسٹر بہت غیر اہم ہیں جو کہ اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ " کار جہاد" الفتح نے کیا، کیونکہ الفتح فلسطین " حکومت" کا اہلکار نہیں ہے۔ اس لیے سویڈن ایم – ایف – ائے کو خود بھی اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ اس کے قتل کے لیے کسی کو ابھارئے۔
میرا جواب: الفتح، پی- ایل- او اور فلسطینی اتھارٹی ایک ہی چیز کے تین نام ہيں۔ ان تینوں کے درمیان ایک قانونی امتیاز پیدا کرتا ہے جو کہ محمود عباس جو ان تینوں کا ہیڈ ہے کو اجازت دیتا ہے کہ وہ قتل ہونے سے بچ جائے۔
4 ۔ یہ مطالبہ کہ فلسطین اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کرئے اور یہ عباس کے لیے ایک مشکل کام ہے وہ ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ بہت سے عرب لوگ اسرائیل کے ساتھ رہتے ہیں۔
میرا جواب : اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری صیہونی انٹرپرائزر کو رد کر رہے ہیں، نہ ہی یہ مطالبہ ایک نیٹ ورک کاہے ؛ جب کہ اس کی بجائے، یہ 2006 ء میں اسرائیلی عرب کی طرف سے ہونے والی تبدیلیوں کا جواب ہے۔ کیوں کوئی اور ایہود اولمرٹ کی طرح ، پھر اسرائیل کا وزیراعظم جو اس مطالبے کا آغاز کر کے – عباس کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے سویڈیش کی طرح کے جذبے کا اظہار کر رہے ہیں؟
اقصی کی طرح کی کار اور یہ الفاظ کہ " یروشلم میں ہونے والی کارؤائیوں کے دوران چلاتے ہوئے اسرائیلیوں کی ہلاکت کی" الفتح نے فلسطینی کار جہاد کو ایک کارٹون کی شکل میں دیکھاتے ہوئے اس کی توثیق کی۔ |
ملکوں اور حکومتوں کے درمیان ایک جیسی اقدار کے لیے ایک بہت بڑی اور ہمیشہ سے بڑھتی ہوئی خلیج موجود ہے جو کہ ان حقائق،تشریجات اور پیشن گوئی کے پوائنٹس پر مکمل طور سے عدم اتفاق کا اطہار کرتی ہیں۔ٱس وقت جب دشمنوں کی صفوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو ٱن لوگوں میں وہمی غصّے کی بجائے حقیقت پسند اور دوستانہ ہونے کو ترجیح دینی چاہیے، جو کہ مجھے یورپ کے مستقبل کے بارئے میں حوصلہ شکن ہونے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ اپنے قابل عزت خارجہ پالیسی کے کارکنوں کے ساتھ کام شروع کرنے کے لیے – کون سی آفت آئے گی جو سوڈان کے لوگوں کو خواب غفلت سے جگائے گا۔