کیوں براک اوبامہ اسرائیل پر اتنی توجہ مرکوز کرتا ہے اور اس کے لیے عربوں سے سرگرداں ہے؟۔
یہ صرف اس لیے نہیں کہ اس نے اس ہفتے اسرائیل میں کچھ دن گزارئے، لیکن یہ عرب اسرائیل تنازعے کو حل کرنے کے لیے چارسالہ غیر متناسب تلاش ہے۔ 2009 ء میں صدر کے طور پر پہلے دن اس کو بتایا گیا کہ جارج مچل کو مشرق وسطی کا خصوصی سفارتی نمائندہ مقرر کیا گیا ہے اور اسرائیل، مصر، اردن اور فلسطینی اتھارٹی کے رہنماؤں کو بھی فون کیا گیا۔ وائٹ ہاوس کے پریس سیکرٹری حیران ہوتے ہوئے اور پرزور تائید کرتے ہوئے اس بات کو یہ کہتے ہوئے سچ ثابت کرتا ہے کہ اوبامہ نے " اپنی مدت کے آغاز سے عرب اسرائیل امن کے حصول میں سرگرم مشغولیت، اور اپنے عزائم کے بارئے میں بات چیت کرتے ہوئے" اپنا پہلا دن گزارا۔ کچھ دنوں بعد اوبامہ نے باحثیت صدر العربیہ ٹیلی وژن کو باقاعدہ طور پر اپنا انٹرویو دیا۔
حشام ملحم ،جو کہ واشنگٹن میں العربیہ ٹیلی وژن کے بیورو چیف ہیں، نے بیٹھ کر اوبامہ کا ایک پیچ دار انٹرویو لیا۔ |
اور نہ ہی بعد ازاں اس میں کوئی کمی آئی۔ جون 2009 ء میں اوبامہ نے اعلان کیا کہ " اب وقت ہے کہ ہم کام کریں" اسرائیل اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی کو کم کریں اور اعلان کر دیا کہ " میں تحریک اور ترقی کا احساس چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس بارئے میں پریقین ہوں کہ اگر ہم اسی طرح کوشش کرتے رہیں اور جلد ہی شروع کر لیں، تو اس سال ہم کچھ حیران کن ترقی کر سکتے ہیں۔" مئی 2011 ء میں انھوں نے عرب اسرائیل سفارت کاری کے حوالے سے بڑی بے صبری سے اس بات کا اعلان کیا : " کہ ہم ایک دہائی،یا دوسری دو دہائیوں، یا کسی اور تین دہائیوں امن حاصل کرنے کے لیے مزید انتظار برداشت نہیں کر سکتے"۔ ریاست کے نئے سیکرٹری، جان کیری، نے جنوری 2013 ء میں اپنی توثیق کی سماعت میں بار بار اپنے ان جذبات کا اظہار کیا : "ہمیں آگے ایک راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے"۔
عرب اسرائیل تنازعے کو اتنا متعین کیوں کیا گیا ، کیوں کہ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اموات کے لحاظ سے 49 ویں نمبر پر ہے؟ کیونکہ خاص طور پر بائیں طرف والے ایک عجیب عقیدہ رکھتے ہیں، اور بڑئے معنی خیز انداز میں یہ بیان دیتے ہیں کہ یہ مسئلہ نہ صرف مشرق وسطی کے لیے اہمیت کا حامل ہے بلکہ دنیا کے تمام مسائل میں سب سے اہم ہے۔
اس نقط نظر کا ایک بے باک اور ایک غیر معمولی بیان، جسے ایک تعلق کا نام دیا گیا، جیمز- ایل- جان کے غیر متوقع اور عجیب وغریب تبصرئے کو تب نوٹ کیا گیا جب وہ اکتوبر 2009 ء میں اوبامہ کی قومی سلامتی کا مشیر تھا۔ جے- سٹریٹ سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ " اسرائیل اور اس کے ہمسائیہ ممالک کے درمیان امن کوشش" اور کہا:
وہ تمام مسائل جن کا انتظامیہ عالمی سطح پر سامنا کر رہی ہے، اگر یہاں صرف ایک مسئلہ تھا تب میں صدر سے اس کی سفارش کرؤں گا، کہ اگر وہ اس ایک مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں، اور اس طرح یہ ہو جائے گا ۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے،ہمیں ایسی آوازیں سنائیں دیں گئیں، اور بہت سے دوسرئے مسائل پر بھی اثرانداز ہو گئیں، جن کا ہم دنیا میں کہیں بھی سامنا کر سکتے ہیں۔ اس کو بالکل بھی بدل دینا بھی درست نہیں۔ یہ ہی مرکز ہے، اور یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں تمام تر کوشیش مرکوز کرنی چاہئیں۔ اور میں بہت خوش ہوں، کہ اس کی انتطامیہ یہ سب بہت جوش وخروش اور عزم کے ساتھ کر رہی ہے۔
جیمز ایل-جان، جے سٹریٹ سے خطاب کر رہے ہیں۔ |
تاہم یہ خطاب عرب بغاوت سے ایک سال قبل پیش کیا گیا، یہ بیان قابل تعریف ہے، کیونکہ یہ پوری دنیا میں وائٹ ہاؤس کا ایک اہم تاثر پیش کرتا ہے۔
میں کہیں بھی کر سکتے ہیں"۔ جان اس بات پر زور دیتا ہے کہ تنازعے کہ یوں جاری و ساری رہنے سے، یہ دوسرئے مسائل کو بھی بگاڑ دئے گا، ایک لحاظ سے ، اس کا یہ ایک عام نقطہ رکھتا ہے : یقینی طور پر کسی بھی تنازعے کو ختم کرنے سے مجموعی طور پر سارا ماحول بہتر ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت شک میں ڈال دیتا ہے، جب ہم اس بات کا تصورکرتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس یروشلم اور فلسطینی پناہ گزینوں کے متعلق ایسی قرارداد کا انتظار کر رہا ہے جس میں کرد بےچینی، اسلامی حملے، شام کی خانہ جنگی ، ایرانی جوہری عزائم، شام کی انتھک اقتصادی محنت، اور یمنی انتشار کو قابو کریں۔
تنازعے میں بہتری لانا نہیں ہے اس کی نسبت دوسرئے مسائل کو حل کریں گئے؟ اس خوشی سے،غیر منطقی اور بے ہوشی میں بولے جانے والے الفاظ کی حمایت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بے شک ظاہری طور پر ایرانی بم کو منحرف کرنے کی بجائے اسلام ازم کو شکست دئے کر عرب اسرائیل تنازعے کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
" یہ ہی اہم مرکز ہے " پہلے ہی 2009ء میں اچانک اسلامی اضافے سے سعودی اور ایرانی سرد جنگ کی قیادت کے اتحادون میں مشرق وسطی کٹ گئی تھی۔ تب بھی اور اب اسرائیل اور فلسطین علاقائی مرکز نہیں تھے۔ جب کہ اب ایران، ترکی یا سعودی عربیہ اب بحث کے قابل ہیں۔
یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں ہم جہاں ہمیں اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرنی چاہیے" یہاں پر ہم مرکزی نقطہ حاصل کرتے ہیں: جب جونز ایرانی نیوکلیر پروگرام او روکنے ، تیل اور گیس کی فراہمی کی یقین دہانی ، آمریت بمقابلہ اسلامی شورش پسندی کے پیٹرن کے ساتھ نمٹنے یا تیزی سے ترکی کی شر پسند حکومت کے ساتھ نمٹنے کی بجائے اپنی تمام تر توجہ یرروشلم میں مکانات اور اس کے مغربی کنارئے میں بجلی کی تاروں کا جال بچھانے میں مرکوز کرتا ہے۔
کچھ لوگ ابھی بھی یروشلم کو دنیا کے مرکز، یا مرکز کے طور پر دیکھتے ہیں۔ |
کم از کم جونز اس بات سے بے خبر نہیں ہے اور سرحد پار مخالف سامی اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ مشرق وسطی میں تمام تر مسائل کا ذمہ دار اسرائیل ہے : لیکن اس کا، اس من گھرٹ کہانی کے بارئے میں نرم و ملائم بیان کا کوئی سرپیر نہیں ہے۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ اس کا یہ تجزیہ بہت اچھے طریقے سے صہونیت مخالف ذہنیت پر پورا اترتا ہے۔ جو کہ بائیں بازو والی ڈیموکریٹک پارٹی میں تیزی سے سرائیت کر گیا ہے۔
مزید اگلے چار سال اوبامہ کے اسرائیل کی طرف کیے جانے والے دورئے کو یورپی یونین کی سفارت کاری کو سمجھنے کے لیے اس عجیب و غریب اور بگڑی ہوئی منطق کو ذہین میں رکھنا ہو گا۔