غیر ملکی علاقائی تعلیم کے لیے ٹیکس اداء کرنے والے فنڈز حاصل کرنے کے بدلے میں ، یونیورسٹیوں کو، ہائر ایجوکیشن ایکٹ ( ایچ- ائے- ای ) کے زمرئے نمبر پانچ کے مطابق متفق ہونا ضروری ہے، کہ وہ کے- 12 کے اساتذہ اور عام عوام کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے " عوامی رسائی " کے پروگراموں کو منظم کریں۔
کیمپس واچ اور دوسروں کی طرف سے کی گئی تحقیق میں یہ مسئلہ دکھایا گیا ہے کہ مڈل ایسٹ کی تعلیم امریکہ اور اس کے اتحادیوں، خصوصی طور پر اسرائیل کے خلاف اپنے پروگراموں میں ان سے دشمنی کے طور پر ایک مسلسل تعصب رکھتے ہیں، جب کہ بنیاد پرست اسلام کو خود سر جہالت کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس کے بارئے میں تین مثالیں درج ذیل ہیں۔
- یونیورسٹی آف لندن کے گیلبرٹ ایچکر نے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے میں، اکتوبر 2011 ء میں اپنے لیکچر کا آغاز اس بات کے اعلان سے کیا کہ " اسرائیل کی حمایت کے نقطہ نظر کے لیے مجھ سے قطع امید مت رکھو میں ایک عربی ہوں ایچکر اس بات کا اعلان کرتا چلا گیا کہ " یہودیت کی شوح [ ہولو کاسٹ ] کا 1945 ء میں خاتمہ ہو چکاتھا، لیکن فلسطین کے مصائب کبھی ختم نہ ہوئے"۔
- ۔ برطانیہ میں ایکزیٹر میں یونیورسٹی کے ایلن پاپی نے فروری 2012 ء میں یو- سی- ایل- ائے پر بات کی اور اسرائیل پر یہ الزام عائد کیا کہ یہ ایک " آبادکار نو آبادیاتی ریاست ہے" جو اپنے وجود کی بقاء کے لیے " جرائم " میں مصروف ہے۔ انھوں نے فلسطینی دہشت گردی کے لیے بھی معذرت پیش کی : " نو آبادیاتی، دخلی اور نسلی پاکیزگی کی صورت حال میں جبر کا خاتمہ کرنے کے لیے امن واحد ذریعہ نہیں ہے"۔
- ۔ جنوبی کیلی فورنیا کے شرمن جیکسن نے نومبر 2013 ء میں ہاورڈ میں کہا کہ امریکی آئین کو " چیلنج کیا جا سکتا ہے، اس پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے اور حتی کہ اس کو اسلامک قانون یا شریعت کے مطابق بنانے کے لیے ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔
شرمن جیکسن۔ |
تعصب کے اس سیلاب کا تدارک کرنے کے لیے ناقدین کو امریکہ کی کانگرس کو 2008 ء میں ہونے والی اصلاحات کو منظور کرنے کے لیے قائل کرنا چاہیے۔ جیسے کہ اس صورت حال کے تحت سرکاری گرانٹ کرنی چاہیے کہ بہبودی پروگرام " متنوع نقطہ نظر اور خیالات کے وسیع دائرہ کار کی عکاسی کرتی ہے اور دنیا میں علاقائی اور بین الاقومی امور پر بحث پیدا کرتی ہے۔" دوسرئے الفاظ میں یہ صرف عمومی مخالف زیر بندی کی ہی پیش کش نہیں کرتی بلکہ کچھ مرکزی دھارئے کی بھی۔
تاہم 2008 ء کی قانون سازی یونیورسٹیوں کے احتساب کو نافذ کرنے کا طریقہ کار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، اور اسی طرح ، آخر میں یہ بے کار ثابت ہوا۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ، دس تنظیموں کے ایک گروپ نے 17 ستمبر کو ایک کوشش کی کہ امریکی یونیورسٹیوں میں ، متعصب ،امریکہ مخالف اور اسرائیل مخالف، مشرق وسطی تعلیم کے پروگراموں میں ٹیکس اداء کرنے والوں کے لیے اپنی حمایت ختم کرنے کی کوشش کا اعلان کیا۔
وہ دس تنظیمیں درج ذیل ہیں : مڈل ایسٹ فورم، ایکورسی اکیڈمیا، ایمچا انیشیٹو، یہودی وکلاء اور قانون دانوں کی امریکن ایسوسی ایشن، مشرق وسطی کی سچائی کے لیے اینڈوومنٹ ، انسانی حقوق کے تحت قانون کے لیے لوئس ڈی براندلیس سنٹر، مڈل ایسٹ میں امن کے لیے سکلرز، سائمن ویزدل سنٹر، یہودی اجتماعات کی یونین، امریکہ صیہونی تنظیم۔
ان اقدام کی وجہ سے کانگرس سے جب ایچ- ای-ائے ریتھورایزینگ ( جو کہ ابھی بھی جاری ہے)، نے تعصب کے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے دو چھوٹےاقدامات کیے:
سب سے پہلے جیسا کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیس پروگراموں میں یونیورسٹیوں کی شکایاتی طریقے ہائے کار کو قائم کرنے کے لیے عنوان نمبر 6 کے مطابق فنڈز کی فراہمی کی ضرورت ہے۔ یہ " متنوع نقطہ نظر اور خیالات کے وسیع دائرہ کار کی عکاسی کرتی ہے۔"
دوسرا یہ کہ امریکی محکمہ تعلیم کو ایک باقاعدہ شکایاتی قراردادی عمل کو قائم کرنے کی ہدایت دینا، جیسے کہ 1964 ء کے سول رائٹس کے ایکٹ کے تحت ساتواں عنوان جو کہ نافذ ہونے کے لیے پہلے سے ہی استعمال ہو چکا ہے۔
ان دونوں اقدامات کی مدد کرنی چاہیے ۔ لیکن اگر وہ مسئلے کو حل نہیں کریں گئے، کانگرس کو مڈل ایسٹ سٹڈیز مراکز کے زمرئے نمبر 6 کو کسی حال میں بھی اس کا تحفظ کرنا پڑئے گا جو کہ قانون کی خلاف ورزی،عوامی گمراہی اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچائے گی۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔