ہم میں سے جو بھی امریکہ میں اسلام کی ترقی کے لیے پیش پیش ہیں وہ سالوں سے پیسے کی غیر صحت مندانہ اثرورسوخ اور امریکی مسلمانوں کے خیالات کی وجہ سے فکر مند ہیں۔
ہم بہت بہترین طریقے سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ سعودی حکومت اس بات کا دعوی کرتی ہے کہ وہ تحقیق سنٹر اور مساجد کے لیے فنڈز کی فراہمی کر رہی ہے ؛ اس نے اسلامی پسند تنظیموں جیسے کہ کونسل آن امریکی– اسلامک ریلیشنز کے لیے اپنی امداد کا اعلان کیا ہے؛جیسے اس نے آئمہ کی تربیت کی جو کہ امریکی جیلوں میں بنیاد پرست پادری بن گئے، اور جیسے کہ اس نے یونیورسٹی کے کیمپس میں مسلم سٹوڈینٹ ایسوسی ایشن کے ذریعے وہابیت متعارف کروائی۔
لیکن بہت سالوں سے، ہمارئے پاس سعودی مواد کے مضمون کے بارئے میں معلومات کی کمی ہے۔ کیا وہ اثرات کو کم کر رہے ہیں یا دوسری صورت میں اس ناتمام، اشتعال انگیز پیغام کو تبدیل کر رہے ہیں جس نے سعودی عربیہ کی مذہبی اور سیاسی زندگی پر قبضہ کر رکھا ہے؟ یا وہ پرانی امید کو ہی دہرا رہے ہیں۔
فریڈم ہاؤس کی طرف سے کی جانے والی بہترین تحقیق کے شکرگزار ہیں( یہ نیویارک کے ہیڈکواٹر کی ایک تنظیم ہے جو کہ 1941 ء میں قائم کی گئی جو خود کو " دنیا بھر میں جمہوریت اور آزادی کے لیے ایک واضح آواز" کہتی ہے، آخرکار ہم سعودی منصوبے کی ہی تصریح کرتے ہیں جو کہ یہ ہے " امریکی مساجد نفرت پر مبنی مطبوعات سے بھری پڑیں ہیں" جو ایک شائع مطالعہ ہے ۔ یہ ہمیں مضمون کے لحاظ سے ایک کثیر معلومات فراہم کرتا ہے۔
یونیورسٹی کی بنیاد پر محققین کی طرف سے نہیں بلکہ ایک تھینک ٹینک کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔ ایک دفعہ پھر ایک آف – کیمپس تنظیم نے سب سے زیادہ تخلیقی اور بروقت کام کیا، اور مشرق وسطی کے ماہرین خود وہاں سے پیچھے ہٹ گئے۔)
امریکہ میں سعودی سرگرمیوں کی تصویر کچھ خاص دلکش نہیں ہے۔
فریڈم ہاؤس کے رضاکار مسلمان نیویارک سے لے کر سان ڈیاگو تک کی سب سے اہم مساجد میں گئے اور وہاں سے 200 سے زائد کتابیں اور دیگر مطبوعات اکھٹیں کیں جن کو سعودی عربیہ ( کچھ 90٪ عربی میں تھیں ) کی طرف سے مسجد کی لائبریوں، اشاعت ریک اور کتابوں والی دکانوں میں فروغ دیا جا رہا تھا۔
جو کچھ بھی انھیں وہاں سے پتہ چلا اس کو بھیانک طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ ان تحریروں میں سے ۔۔۔۔ ایک اور ہر ایک کو کنگڈم کی طرف سے سپائنسر کیا گیا، جو کہ ایک عیسائی مخالف، یہود مخالف، زن بیزار، جہادی اور برتری کے قانون کے آوٹ لک کی حمایت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ :
- قطعی عقیدئے کے طور پر عیسائیت مسترد : کوئی بھی مسلمان جو اس بات پر یقین رکھتا ہے " کہ گرجا گھر خدا کا مسکن ہے، اور وہاں خدا کی عبادت کی جارہی ہے وہ کافر ہے۔"
- اسلامی قانون لاگو کرنے پر اصرار: عورتوں کی طرف سے متعد مسائل ( یہ ضروری ہے کہ انھیں پردئے میں رکھا جائے)، جو اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے (" اس کو قتل کر دینا چاہیے")، سعودی مطبوعات امریکہ میں اسلام کی شریعت کا مکمل نفاذ چاہتیں ہيں۔
- وہ غیر مسلمانوں کو ایک دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں: " وہ کافروں سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں، ان کے مذہب کی وجہ سے ان سے نفرت کرتے ہیں، انھیں چھوڑ دیتے ہیں، اور اپنی مدد کے لیے ان پر کبھی بھی انحصار نہیں کرتے، ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ہیں اور ہر طریقے سے اسلامی قانون کے مطابق ان کی مخالفت کرتے ہیں۔"
- امریکہ کے خلاف جنگ کے لیے تیار کرتے ہیں: " ایک سچا مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے، کہ ہم ہر لمحہ تیار رہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے تیار رہیں۔ یہ حکومت اور شہریوں کی ذمہ داری ہے۔"
- اس رپورٹ کے مصنفین بالکل ٹھیک ٹھیک یہ بتاتے ہیں کہ ان مطبوعات پر ابھی نظرثانی کی جا رہی ہے۔غیرمسلمانوں کے ساتھ ساتھ خود مسلمان کمیونٹی کو بھی ان سے ایک سنگین خطرہ لاحق ہے۔" یہ مواد مذہبی مخالف نفرت کا نظریہ رکھتے ہیں جو کہ آہستہ آہستہ امریکی ثقافت میں سرائیت کر گیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے دشمن افواج میں ایک نئی قوت کو پیدا کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔
مؤخرالذکر کے بارئے میں ایک مثال پیش کرتے ہیں: یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایڈم یہایی گیڈہن ہی وہ نقاب پوش شخص ہے جس نے 2004 ء کی ویڈیو ٹیپ میں یہ دھمکی دی کہ امریکہ کی گلیوں میں " خون بہے گا " وہ اورنج کاؤنٹی کی اسلامک سوسائٹی ، جو کہ سعودی پیسے سے چلنے والا ایک ادارہ ہے، وہاں اپنا وقت گزارنے کے دوران جہادی بن گیا۔
فریڈم ہاؤس اس بات پر زور دیتا ہے کہ امریکی حکومت کو سعودی حکومت کے خلاف امریکہ کی سب سے اہم مساجد کی شیلفوں کے خانوں میں موجود زہرآلودہ مطبوعات کے متعلق اعلی سطح کا احتجاج کرنے میں " تاخیر نہیں " کرنی چاہیے۔ یہ ناقابل اعتراض بات ہے ، لیکن یہ سعودی- امریکی تعلقات کو نامناسب حالات کے طور پر دیکھنے والے پر اپنا اثر ڈالتا ہے۔
اس کی بجائے امریکہ پر سعودی عیارنہ حملے دہشت گردی کے خلاف ( جس کا کوئی نام نہیں ہے) جنگ کی ایک مرکزی وجہ بنتے ہیں۔ بش انتظامیہ کو اپنے ملک کے اندر دھمکیوں سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں کہ وہابی بادشاہت کو امریکہ کے لیے متعارف کروایا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سعودی دوستی کے خیال کو کسی کباڑ خانے میں ڈال دینا چاہیے اور چین جیسے ملک کو ایک مضبوط حریف کے طور پر دیکھنا چاہیے، جن کے عزائم دنیا کو ایک مختلف نظام سے چلانے کے ہیں، ان کو وہاں سے ہٹا کر اس میں لازمی طور پر شامل ہونا چاہیے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔