اس سال کے شروع میں، مصّر کے بیشتر تجزیہ نگاروں نے فیلڈ مارشل حسین طنطاوی ، کواس ملک کی سیاست کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کے طور پر منتخب کیا اور صدر محمد مورسی کو سطحی طور پر لیا گیا، پھر اس بات پر بہت حیرت کا اظہار کیا گیا جب مورسی نے 12 اگست ،2012 ء کو طنطاوی کو برطرف کردیا۔
یہ واقعہ اس لیے ہوا کیونکہ طنطاوی نے ملک کو اسلام پسندوں کی پہنچ سے دور رکھا ہوا تھا جبکہ مورسی تیزی سے ملک کو اسلامی قانون نافذ کرنے کی سمت میں لے جا رہا تھا۔ اگرمورسی اس میں کامیاب رہتا ہے، تو اس کے نتیجے میں اس خطے میں امریکہ کی پوزیشن پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
عبد الفتاح الاسس، مصر کے نئے فوجی باس۔ |
طنطاوی ،جو کہ مصّر کا ایک مؤثر ترین حکمران تھا ، جس نے خاص مقاصد ذہن میں رکھتے ہوئے مورسی کے صدر بننے کا انتخاب کیا، اسے ایک بے ضرر آپشن کے طور پر دیکھا گیا، کوئی ایک ایسا جس کو استعمال کیا جا سکتا تھا یا ( اگر ضروری ہو ) تو اسے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس غرض سے طنطاوی نے سپریم آئینی عدالت ( ایس- سی- سی ) کو ہدایات دیں کہ مورسی کو ایک امیدوار کے طور پر منظوری دئے دی جائے، اس بات سے قطع نظر کہ اسے " غداری اور جاسوسی"، کے باعث 27 جنوری ،2011 ء کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس نے جیل میں قید کاٹی، اور باوجود اس کے ایس- سی- سی نے دیگر اخوان المسلمون کے امیدواروں کو ان کی جیل میں قید کی بنیاد پر مسترد کردیا تھا، خاص طور پر امیر ، کرشمائی اور صاحب بصیرت خیرات اللہ الشاطر۔ طنطاوی کو صدارت کے انتخاب کے لیے گمنام، نااہل اور مرگی والے مورسی کی ضرورت تھی کیونکہ الشاطر بہت زیادہ خطرناک تھا اور دیگر اخوان المسلمون امیدوار عبدالمونم ابوالفتح ، بھی بہت مشہور تھا۔
30 جون کو مورسی کے صدر بننے کے کچھ عرصے بعد، طنطاوی نے سرعام اپنے اس ارادئے کا اظہار کیا کہ 24 اگست کو ایک بہت بڑئے پیمانے پر مظاہرہ ہو گا جس کے ذریعے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔ اس کے ترجمان توفیق اوکاشا نے پہلے ہی کام دیکھا دیا اور 12 اگست کو کئی اہم اقدامات کیے : اس نے آئینی اعلان کی طاقت کو محدود کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دئے دیا، طنطاوی کو برطرف کردیا اور اس کی جگہ عبد الفتاح الاسس کو ملٹری اینٹلی جینس کے سربراہ کے طور پر مقرر کر دیا۔ مختصر یہ کہ،مورسی نے اپنے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کے آنے سے پہلے اپنا بچاؤ کر لیا طارق الزمور ایک معروف جہادی اور مورسی ، کا حمایتی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ " طنطاوی کی جگہ سس کا انتخاب کرنا ایک بغاوت کو روکنے کے لیے تھا،" عوامی سطح پر 24 اگست سے ایک بغاوت کو روکنے کے لیے تھا،" عوامی سطح پر 24 اگست سے پہلے کاروائی کرنے کو مورسی کی فوری ضرورت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔حامدی کیندیل مصّر کے سب سے اہم صحافیوں میں سے ایک ،نے بجاطور پر مورسی کے اقدام کو مخصوص لحاظ سے لیا کہ " ایک سویلین کی فوج بغاوت۔"
طارق الزمور ، ایک پر تشدد مورسی حمایتی ،عوامی سطح پر ان باتوں کا بیان دئے رہے ہیں جس کے بارئے میں دیگر افراد سرگوشیاں کرتے ہیں ۔ |
مورسی نے کس طرح سے اس کو راستے سے ہٹایا؟ کس طرح ایک بکری کے بچے نے قصاب کو ذبح کیا؟کیوں بہت سے تجزیہ نگاروں کو اس کے بارئے پتہ نہ چل سکا؟۔
انھوں نے اب ایک چھپے ہوئے منفرد عنصر کو چھوڑ دیا : جتنا کہ پہلے کی نسبت احساس کیاجاتا تھا وہ کہیں زیادہ بے شمار ور طاقت ور اخوان المسلمون پر مبنی ملٹری افسران میں تبدیل ہو گئے وہ دونوں پہلے سے ہی 24 اگست کے بنائے گئے پلان کے بارئے میں معلومات رکھتے تھے اور انھوں نے اسے شکست دینے میں مورسی کی مدد کی۔ اگر یہ بہت طویل عرصے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ کچھ افسران اخوان المسلمون سے ایک آؤٹ لک ہمدردی رکھتے ہیں، تو ان کے نیٹ ورک کا دائرہ کار بغاوت کے صرف 3 ماہ بعد کھل کے سامنے آگیا۔
مثال کے طور پر اب ہم میجر عباس مکہمر کے بارئے میں جانتے ہیں کہ وہ افسران کی المسلمون یا دیگر اسلامی تنظیموں سے وابستگی سے تعلق ختم کرنے کی نگرانی پر مامور ہے، جب کہ بذات خود وہ المسلمون کے ساتھ منسلک ہیں یا شائد اس کے ایک رکن ہیں۔ جب کہ سس جس کے بارئے میں المسلمون اس کی براہ راست رکنیت سے انکار کرتا ہے اس کا ایک رہنماء کہتا ہے کہ وہ اس کے غیر رسمی "خاندان" سے تعلق رکھتا ہے – جس کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اعلی سطحی قومی شخصیات اس صورت میں اپنے ایجنڈئے کو بہترین طریقے سے آگے بڑھا سکتے ہیں جب کہ وہ رسمی اراکین نہ ہو۔ ملٹری اینٹیلی جینس کے سربراہ کے طور پر اسے طنطاوی کی طرف سے 24 اگست کو ہونے والی بغاوت کے بارئے میں معلومات تک رسائی حاصل ہوئی اور مورخ علی الاشماوی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سس نے طنطاوی کے وفادار فوجی حکام کا سراغ لگایا اور انھیں وہاں سے ڈسچارج کر دیا ۔
عباس مکہیمر کو اخوان المسلمون کو مصّر کی فوج سے دور رکھنے کا کام سونپا گیا جو کہ خود اخوان اخوان المسلمون سے منسلک ہے۔ |
ماضی میں یہ نیٹ ورک بہت زیادہ حیران کن نہیں تھا، اس کے لیے یہ مثال پیش کی جاتی ہے کہ : 1940 ء میں اخوان المسلمون نے فوجی دراندازی کی ، جو کہ " مفت افسران " کی تحریک کے پیچھے کھڑئے تھے جنھوں نے 1952 ء میں بادشاہ فاروق کا تخت پلٹ دیا ۔1954 ء سے 1974 ء کی مدت کے بعد سے انھیں باہر نکال دیا گیا ، اخوان المسلمون نے پھر سے اپنے افسران کا نیٹ ورک ایک پوشیدہ طریقے اور باہر کے مبصرین سے چھپ کر تعمیر کیا جس میں ہم خود بھی، شامل ہیں۔ ایک اعلی درجے کی اخوان المسلمون شخصیت دروت ال- خراوی اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ تنظیموں کے اراکین " فوج میں اعلی درجے کے لیڈر بن چکے ہیں۔"
ان معاملات کو کہاں تک چھوڑا جائے گا؟ طنطاوی اور اس کی کمپنی کی پینشن کو محفوظ طریقے سے بند کر دیا گیا، اور ( حسنی مبارک کے برعکس) جیل نہیں بھیجا گیا سس کی فوج کے ساتھ تقریبا بالکل ویسے ہی معاملات کیے گئے جیسے کہ طنطاوی کی فوج نے فروری 2011ء میں مبارک کا تختہ الٹنے سے پہلے کیے تھے، جس کے بارئے میں یہ کہا جاتا کہ وہ صدر کے ساتھ اتحاد کریں گے اور اس کی قیادت پر مکمل طور پر ماتحت ہوئے بغیر عمل پیرا ہوں گے۔ یہ اس کے اپنے بجٹ ، اس کی ترقیوں اور برطرفیوں اور اس کی اقتصادی سلطنت پر کنٹرول کو برقرار رکھتی ہے۔ لیکن فوجی قیادت نے براہ راست اپنی سیاسی طاقت کو گنوا دیا جس کا اس نے ڈیرھ سال 12- 2011 ء تک فائدہ اٹھایا۔
مورسی کا مستقبل ایک کامل اعتماد سے بہت دور ہے ۔ نہ صرف انھوں نے اسلام پسندوں کی ملکی تفریق کا سامنا کر کے مقابلہ کیا بلکہ مصر نے ایک خوفناک اقتصادی بحران کا بھی سامنا کیا۔ مورسی کی طاقت اج بلاشبہ اپنے اور اخوان المسلمون کے لیے اہم مختصر مدت پر مشتمل فوائد لے کر آئی ہے ، لیکن طویل مدت تک یہ امکان ہیں کہ یہ اخوان المسلمون کی حکمرانی کو بدنام کرئے گی۔
مختصر یہ کہ ، حسنی مبارک کے تحت جمود کے 30 سال کے بعد، مصّر کا سیاسی ڈرامہ ابھی شروع ہوا ہے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔