کون بدتر ہے، صدر محمد مورسی ، منتخب ہونے والے اسلام پسند جو کہ مصّر میں اسلام کے قانون کا نفاذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یا سابق مغزول آمر صدر حسنی مبارک، جو کہ ایک نئی ریاست شروع کرنے کی کوشش کر رہے تھے ؟ مزید وسیع طور پر ایک لبرل، جمہوری نظام کے امکانات زیادہ ہیں جو کہ اسلام پسند نظریہ سازوں کے تحت وجود میں آ کر پورئے بیلٹ بکس پر حاوی ہو جائے گا یا لالچی آمروں کے ساتھ جن کے پاس کوئی خاص ایجنڈا نہیں سوائے ان کی اپنی بقاء اور طاقت کے؟
مورسی کے حالیہ اقدامات ایک جواب فراہم کرتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت دئے رہے ہیں کہ تاہم اسلام پسند آمروں کی نسبت زیادہ بدتر ہیں۔
یہ مسئلہ اکتوبر کے شروع میں امریکہ سیکرڈ انٹیلی جنس کے لیے ایک دلچسپ بحث کی صورت میں منظر عام پرآیاجب جمہوریتوں کے دفاع کی فاؤنڈیشن کے ریل مارک گریک اور سنٹر فار امریکن ترقی کے برائین کٹلس آپس میں بحث کر رہے تھے کہ "منتخب اسلام پسند آمروں کی نسبت بہتر ہیں " جب کہ امریکن اسلامک جمہوریتوں کے فورم کے زاہد جیسر اور میں نے ان دلائل کو رد کرنے کے لیے دلائل دئیے۔ تاہم کوئی بھی حقیقی طور پر" کسی " کے لیے دلیل نہ دئے سکا ۔ دوسری ٹیم نے اسلام پسندوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی، ہم یقینی طور پر آمروں کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہے ، جبکہ، مسئلہ یہ ہے، کہ کس قسم کی حکمرانی میں برائیاں کم ہیں اور جمہوریت کو لاٹھی ماری جا سکتی ہے ۔
اکتوبر 2014 ء کو نیویارک شہر میں اینٹلی جنس سیکرڈ مباحثہ۔ |
کٹلس " مختلف قسم کے نظریات " کے فروغ کےلیے آمریت پر الزام لگاتا ہے جس کے نتیجے میں 11\9 ہوا۔ اور ایک وہ راستہ جس کے ذریعے تم مشرق وسطی میں " لوگوں کے عقیدئے کے ذریعے " سے ایک بہت زیادہ لبرل راستہ اختیار کر سکتے ہو۔ جو کہ اسلام پسندوں کو اقتدار میں لانے کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔ کٹلس دلیل دیتا ہے کہ اسلام پسند تبدیل ہو جاتے ہیں اور مورف ہو جاتے ہیں ، زیادہ عملی اور کم نظریاتی بن جاتے ہیں: وہ مشکل حالات میں اور سیاست کے گرنے کے جواب میں سیکیورٹی اور روزگار کے مواقع جیسی " بنیادی ضروریات " پر فوکس کرتے ہیں۔
ستمبر 2012 ء میں صدر محمد مورسی آسٹریلیا کی وزیراعظم جونی گیلارڈ کے ساتھ اجلاس میں۔ |
عراق میں گریک یہ معلوم کر کے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ " لوگوں کی ایک سمندری لہر تھی جو کبھی بہت سخت گیر اسلام پسند تھے ۔۔۔۔۔۔۔ جو اگر لبرل نہیں تو بہت خوبصورت اور شدید جمہوری بن گے۔" جہاں تک مصّر کا تعلق ہے ، انھوں نے ثبوت پیش کرتے ہوئے لیکن غلط طریقے سے یہ بات نوٹ کی ہے کہ " اخوان المسلمون شدید اندرونی مباحثوں سے دوچار ہیں کیونکہ انھیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ [ اپنی کامیابی ] کو کس طرح ہینڈل کریں۔ اس وجہ سے ہم چاہتے ہمیں انھیں اس سے باہر نکالنا چاہیے۔
جیسر اور میں نے تفصیلی فہرست کی غلطی کا جواب دیا ( فوجی حکومت کے نتیجے میں 11\9 ہوا ؟) دل پسند سوچ ( سچے مومن اپنے مقاصد پر سمجھوتا کریں گے؟ عراقی اسلام پسندوں کی ایک سمندری لہر آزاد خیال بن گی؟) پہلے بیان کی طرف آتے ہوئےنظریہ ساز " سٹیرائڈز پر آمر " ہیں جو کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اعتدال پسند نہیں بنتے بلکہ خود اس میں سمو جاتے ہیں، وہ اپنی حکومت میں ایسی بنیادیں قائم کرتے ہیں کہ وہ غیر معینہ مدت تک اقتدار میں قائم و دائم رہیں۔ دوسرا یہ کہ نظریہ ساز اس مسئلے کو نظرانداز کرتے ہیں کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کی حمایت میں ہمارئے مخالفین – سیکیورٹی اور ملازمتوں – پر زور دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ، لالچی آمر، نظریے اور تصور پر بہت کم توجہ دیتے ہیں، معاشرئے کے بارئے میں کسی قسم کا تصور نہیں رکھتے اور اس لیے اقتصادی ترقی، شخصی آزادیوں، ایک کھلے سیاسی عمل ، اور قانون کی حکمرانی ( مثال کے طور پر، جنوبی کوریا ) کی طرف توجہ دلوانے کے لیے قائل کر سکتے ہیں۔
کرؤ اور دیکھو، مورسی اور اخوان المسلمون نے بالکل ہمارئے سکرپٹ پر عمل کیا۔ اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ، مورسی (1 ) فوج سے کنارہ کش کر گیا ، تب اس نے تجارتی مراکز گاہوں پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اپنی بالادستی کو وسعت دی ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ 22 نومبر کو اس نے احکامات کے ایک سلسلے کو جاری کیا جس کی وجہ سے اس نے آمرانہ طاقت کے بے جا اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے مخالفین کے بارئے میں صیہونی سازشی نظریات پھیلائے۔ تب (2 ) 30 نومبر کو اس نے اسلامی قانون پر مبنی آئین کے ذریعےفیصلہ کیا اور 15 دسمبر کو اس پر اچانک ایک ریفرنڈم کروایا اور انھیں دو معاملات کے لیے استعمال کیا، اس نے عملی طور پر ہزارہا مسائل جن کی وجہ سے مصّر مصیبت میں ہے خاص طور پر بڑھتا ہوا اقتصادی بحران اور برآمد کروائے گے خوراک کی ادائیگی کے لیے فنڈز کی کمی کو نظر انداز کر دیا ۔
مورسی کے اقتدار میں آنے کے بعد بیوٹین گیس کی قیمت میں دوگنا اضافہ ہوا۔ |
مورسی کے اقتدار پر قبضے نے اسلام پسند مخالف مغربیوں کو " نیشنل سالویشن فرنٹ " جیسی افواج میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کی اور ان چھ دہائیوں میں گلی میں ہونے والی انتہائی تشدد والی جھڑپوں میں اسلام پسندوں کا مقابلہ کیا ، اسے نومبر 22 کے احکامات سے جزوی طور پر پیچھے ہٹ جانے کے لیے مجبور کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ، اگست میں بڑی چالاکی سے کنارہ کش ہونے کے بعد، مورسی کے تجاوز نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ اسے جرنیلوں کو حتمی اتھارٹی واپس کرنی ہو گی ، جو کہ مداخلت کر سکتے ہیں یا اس کے مخالف ہو سکتے ہیں ۔
سب سے بڑئے افسران کی اسلام پسند ہمدردیوں کا انتخاب کرتے ہوئے اور مجوزہ آئین میں فوجی مراعات کو بڑھاتے ہوئے انھوں نے ان کی حمایت کر کے ہر قسم کے امکانات کو جیت لیا ۔ ایسا ظاہر ہونے لگا کہ مارشل لاء اگلی دفعہ ہو گا۔
صرف ان تین ماہ میں، مورسی نے یہ دیکھایا کہ مبارک کی نسبت وہ زیادہ آمرانہ اختیارات کا خواہش مند تھے اور اس کی حکمرانی مبارک کی نسبت مصّر کے لیے کہیں زیادہ مصیبت کی پیشن گوئی کر رہی تھی۔ اس نے میرئے اور جیسر کے نقطہ نظر کو ثابت کر دیکھایا کہ آمر بہتر ہیں بانسبت منتخب اسلام پسندوں کے جیسے کہ میں نے مباحثے میں اس بات پر غور کیا ہے کہ مغربیوں کو نظریاتی آمروں جیسے اسلام پسندوں پر سختی سے پابندی لگا دینی چاہیےجب کہ لالچی آمروں پر زور ڈالتے ہوئے انھیں شہری معاشرئے کی اجازت دینی چاہیے جو کہ صرف ظلم کی دو اقسام سے انخلاء کی پیشکش کرتے ہیں۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔