اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ( اینراء ) کے ناقدین کا کہنا ہے کہ، تنظیم کو فلسطینی پناہ گزنیوں کی نگرانی کا کام سونپا گیا ہے، جس کی توجہ ان کی برائیوں پر مرکوز ہے، ان کے کیمپس دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہیں ہیں ۔ اس کی بیوروکریسی جد سے زیادہ تجاوز کر گئی اور اس کے پے رول میں انتہائی شدت موجود ہے۔ اس کے اسکول اشتعال انگیزی کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اس کی رجسٹریشن فراڈ کی بدبودار فہرستوں سے بھری پڑی ہے ۔ اس کی پالیسی مظلومانہ دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔
کھانے کی تقسیم اب اینراء کے اخرجات کے ایک چھوٹے حصّے پر مشتمل ہیں؛ اس کا زیادہ تر تعلق تعلیم اور صحت سے ہے۔ |
لیکن اینراء کا سب سے زیادہ نتیجہ خیز مسئلہ اس کا مشن ہے۔ 63 سالوں کے دوران، یہ ایک ایسی ایجنسی بن گئی جو ان کے مسائل کے حل کے لئے کردار اداء کرنے کی بجائے پناہ گزینوں کے مسائل کو برقرار رکھتی ہے۔ اینراء پناہ گزینوں کی آباد کاری کے لئے کام نہیں کرتا؛ اس کی بجائے ، ہر دن زیادہ سے زیادہ پوتوں اور پڑپوتوں کی رجسٹریشن کرتا ہے جنکو کبھی بھی اپنے گھروں یاملازمتوں سے نہیں نکالاجاتا، مصنوعی طریقے سے ان کو " پناہ گزینوں " کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے، یہ اسرائیل کے خلاف متاثرہ پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ کر دیتی ہے۔ اب تک، ان کی اولادیں اینراء کے مہاجرین کی 90 ٪ سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں۔ مزید یہ کہ ، اینراء نے اس بات پر اصرار کرتے ہوئے ریفیوجی کنونشن کی خلاف ورزی کی کہ تقریبا دو ملین لوگوں کو اردن، شام، اور لبنان میں شہریت دی گی ( اور جنھوں نے اینراء کے فائدہ اٹھانے والوں کا 40 ٪ حصّہ تشکیل دیا) ؛ وہ ابھی تک پناہ گزین ہیں۔
اس طرح کے طریقوں کے نتیجے میں ، بجائے اس کے کہ دوبارہ آبادکاری اور قدرتی فرسودگی کے ذریعے ان کی تعداد کم ہو جائے، 1949 ء کے بعد سے اینراء کے پناہ گزینوں کی تعداد میں، 750،000 سے لے کر تقریبا پانچ ملین تک ، مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ اس شرح کے لحاظ سے اینراء پناہ گزینوں کی تعداد 2030 ء تک 8 ملین اور2060 ء تک 20 ملین سے بھی تجاوز کر جائے گی، اس کے کیمپس اور سکول مسلسل ایک لاحاصل خواب کو فروغ دئے رہے ہیں کہ یہ لاکھوں کی تعداد پر مشتمل اولاد ایک نہ ایک دن اسرائیل میں اپنے باپ دادا کے گھر "واپس" جائے گی۔ یہاں تک کہ جب فلسطین اتھارٹی کے چئیرمین محمود عباس نے یہ تسلیم کیا کہ پانچ لاکھ فلسطینیوں کو بھیجنے کا مطلب ہے کہ " اسرائیل کا خاتمہ " ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اینراء تنازعات کے حل میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت کے عہدئے دار بہت اچھے طریقے سے اس بات سے باخبر ہیں کہ اینراء پناہ گزینوں کے مسائل کو مسلسل برقرار رکھے ہوئے ہیں اور مکمل طور پر ان کی برائیوں سے باخبر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی ریاست اینراء کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے کام کر رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کی مخصوص سروسز کو پورا کرئے گا۔
اسرائیل کے باہمی تعاون پر مبنی پالیسی 1967 ء میں کومی – مائیکل مور ایکسچینج آف لیٹر کے ساتھ شروع ہو گئی جس میں یروشلم نے وعدہ کیا کہ " [ کرنے کے لیے ] اینراء کے کام کو آسان بنانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسرائیلی حکام سے بھرپور تعاون کیا جائے گا "۔ یہ پالیسی بہت عرصے سے اپنی بات پر قائم ودائم رہی ؛ نومبر2009 ء میں، ایک اسرائیلی نمائندئے نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ 1967 ء کے الفاظ اور اینراء کے اہم انسانی مشن کی حمایت کے لیے ایک " مسلسل مفاہمت کا عزم ہے۔" یہاں تک کہ انھوں نے اینراء کے ساتھ " قریبی تعاون " کو برقرار رکھنے کا بھی وعدہ کیا۔
فلسطینی خودکش بمبار ، آیت الاخرس کی ایک تصویر ، جو کہ بیت لحم کے قریب ڈیہش پناہ گزین کیمپ میں اینراء کے سکول کی دیوار پر موجود ہے ؛ اس طرح کی اشتعال انگیزی کے باوجود ، اسرائیلی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ اینراء اپنے کام کو بند کر دئے۔ ( رونڈا سیپویک کی طرف سے فوٹو ) |
اسرائیلی حکام اینراء کے منفی سیاسی کردار اور ایک سوشل سروس ایجنسی کے مثبت کردار کے درمیان فرق کو کو واضح کرتی ہے، جو کہ بنیادی طور پر میڈیکل اور تعلیمی امداد فراہم کرتا ہے ۔ وہ اس بات کی تعریف کرتے ہيں کہ اینراء ، کو غیر ملکی حکومت کی طرف سے جو فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں ، ان سے وہ مغربی کنارئے پر موجود ایک تہائی اور غزہ میں تین چوتھائی آبادی کی مدد کرتا ہے۔ ان فنڈز کے بغیر ، اسرائیل اپنی سرحدوں پر ایک دھماکہ خیز صورت حال کا سامنا کر سکتا ہے اور بین الاقوامی طور پر اس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ ان کی تصویر کشی ایک " قابض طاقت " کے طور پر کی جا رہی ہے، آبادیوں کی دیکھ بھال کرنے کا بوجھ محسوس کیا جائے گا۔ انتہائی صورت حال میں، اسرائیل کی دفاعی طاقتیں، سکول اور ہسپتال کو چلانے کی نگرانی کرنے کے لیے دشمن علاقے میں داخل ہو جائیں گی، جس کے لیے اسرائیلی ٹیکس اداء کرتے ہیں جس کی بنیاد پر اکاؤنٹس تیار کیے جاتے ہیں – ایک بہت زیادہ بد نماء پس منظر۔
ایک اچھے طریقے سے باخبر اسرائیلی عہدیدار اس کا کچھ اس طرح خلاصہ پیش کرتے ہیں کہ اینراء " فلسطینی آبادی کے عام شہریوں کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے میں اہم کردار اداء کرتا ہے" یہ ضروری ہے کہ اس کو ایسے ہی برقرار رکھا جائے ۔
یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کیوں، جب اسرائیل کے غیر ملکی دوست اینراء کی امداد کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں ، یروشلم اس بات پر زور دیتا ہے کہ ایسا کرنے میں احتیاط برتی جائے یا یہاں تک ان کوششوں کو روکنے کے لیے رکاوٹیں ڈالتا ہے۔ مثال کے طور پر ، جنوری 2010 ء میں ، کینیڈا کی ہارپر حکومت نے اس بات کا اعلان کیا کہ " پی- ائے میں احتساب کو یقینی بنانے اور لے پالک جمہوریت " کے لیے یہ امداد کو اینراء سے فلسطینی اتھارٹی تک ری- ڈائریکٹ کریں گے۔ تاہم کینیڈا بنائی بریتھ بہت فخریہ انداز میں یہ بتاتی ہے کہ اس کے مشورئے کو" حکومت سنے گی کینیڈا کے سفارت کاروں نے کہا کہ یروشلم نے بہت خاموشی سے اس بات کی درخواست پیش کی کہ اینراء کی امداد کو دوبارہ بحال کردیا جائے۔
ایک اور مثال: دسمبر 2011 ء میں ، ڈچ کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کی حکومت اینراء کے لیے اپنی پالیسی کے لیے اس کا " اچھے طریقے سے جائزہ " لے گی، پھر صرف بعد میں بہت رازدار طریقے سے یہ بتایا کہ یروشلم نے صرف اینراء کو امداد فراہم کرنے کے بارئے میں کہا۔
کون سی چیزیں ہمیں اس سوال کی طرف لے کر آتی ہیں: کیا اینراء کے عناصر اسرائیل کے لیے فائدہ مند ہیں جس کو مہاجرین کا درجہ مسلسل بڑھانے کے بغیر برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ جی ہاں لیکن اینراء ایک سوشل سروس ایجنسی کے کردار سے لے کر اس کے بہت زیادہ "مہاجرین " کی تعداد کو بڑھانے کے لیے ان کے درمیان فرق کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کے برعکس یہ پوتوں کو بھی مہاجرین کے طور پر رجسٹر کرنے کا کام کرتا ہے، اینراء کی محصولاتی اہلیت اور رجسٹریشن کی ہدایات کی دفعہ 3 ۔ ائے ۔ 2 اور دفعہ 3 بی کے تحت فلسطینیوں کو مہاجرین کے طور پر تعریف کیے بغیر انھیں سوشل سروسز فراہم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ان شرائط کے اثرات ابھی بھی موجود ہیں: مثال کے طور پر مغربی کنارئے پر ، جنوری 2012 ء میں 17 ٪ فلسطینیوں نے اینراء کے ساتھ اندراج کروایا اور ان کا مہاجرین کے طور پر درج نہیں کیا گیااور ان کی خدمات حاصل کرنے کے اہل بن گئے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو اینراء کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے ، اس کے اسرائیل مخالف اکثریت کے خود کار طریقے کے ساتھ اینراء کے طرز عمل میں تبدیلی کو لازمی قرار دیا گیا جو کہ تقریبا ناممکن ہے۔ لیکن اینراء کے اہم ڈونرز جو کہ امریکی حکومت سے شروع ہوتے ہیں ،ان کو مہاجرین حثیت برقرار رکھنے کے لیے اینراء کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیے۔
واشنگٹن کو اینراء کے ساتھ ایک آلہ کار کے طور پر سلوک کرنا چاہیے جو کہ سماجی خدمات فراہم کرتا ہے ، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ اس کو اینراء سے مستفید ہونے والے لوگوں پر زور ڈالنا چاہیے جو کہ کبھی بھی بے گھر نہیں ہوئے یا جو کہ پہلے سے ہی دیگر ممالک میں شہریت حاصل کر چکے ہیں، اگرچہ کہ شائد وہ مہاجرین نہیں بلکہ اینراء کی سروسز کے اہل ہیں۔ اس فرق کا قائم کرنا عرب – اسرائیل تعلقات میں جھنجھلاہٹ کو کم کرنے میں اہم کردار اداء کرئے گا۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔