جیسے کہ 2012 ء میں حال ہی میں، یہ ظاہر ہوا ہے کہ اسلام پسندوں نے اپنے بہت سے اندرونی تضادات پرقابو پا لیا ہے جیسے کہ – فرقہ واریت (سنی، شیعہ) سیاسی (بادشاہت، ری پبلیکن)،حکمت عملی پر مبنی (سیاسی،متشدد)، یا جدیدیت کی طرف ان کے رویے (سلفی، اخوان المسلمون ) – اور تعاون۔ تیونس میں مثال کے طورپرسلفی اوراخوان المسلمون (ایم- بی ) میں بنیادی چیزیں مشترک پائیں گئیں۔ ان تمام گروپوں میں اختلافات حقیقی، لیکن ثانوی درجے کے تھے، جیسے کہ میں نے یہ کیا ، کیونکہ " تمام اسلام پسند ایک مکمل اور شدید اسلامی قانون ( شریعت ) کے لاگو کرنے کی پیروی کرتے ہیں۔"
اچھے وقتوں میں الخیمانی اور محمود احمد نژدی۔ |
اس قسم کے تعاون ابھی بھی چھوٹے طریقوں پر قائم ہیں ،جیسے کہ ترکی کی حکمران جماعت کے ایک رکن اور جرمنی میں سلفی تنظیم کے سربراہ کے درمیان حالیہ اجلاس میں دیکھا گیا۔ لیکن حالیہ مہینوں میں بہت اچانک اور غالب اکثریت سے اسلام پسند بذات خود ایک دوسرئے کے پیچھے پڑ گئے۔ اسلام پسند ابھی بھی ایک ایسی تنظیم کا قیام کر رہے ہیں جو ایک جیسی بالادستی اور مثالی مقاصد کا اشتراک کر سکیں، لیکن وہ بھی مختلف اہلکار، نسلی وابستگیاں، طریقے اور فلسفہ رکھتے ہیں۔
اسلام پسندوں کی اندرونی دشمنیاں اب بہت سے دیگر مسلمان اکثریت والے ممالک میں بھڑک اٹھی ہے ۔اسلام پسند مختلف نقطہ نظر کی وجہ سے ، سنی بمقابلہ شیعہ کشیدگیوں کو ترکی بمقابلہ ایران میں دیکھا جا سکتا ہے؛ لبنان میں، جہاں یہ ہے سنی بمقابلہ شیعہ اسلام پسند اور سنی اسلام پسند بمقابلہ فوج ؛ شام میں سنی بمقابلہ شیعہ اسلام پسند ؛ عراق میں سنی بمقابلہ شیعہ ؛ مصّر میں سنی اسلام پسند بمقابلہ شیعہ ؛ یمن میں ہودس بمقابلہ سلفی۔
ریسیپ ایرڈوگان اور فتح اللہ گولن کبھی بہت قریبی اتحادی ہوا کرتے تھے۔ |
تاہم، اکثر ہی، ایک فرقے کے اراکین آپس میں بھی لڑتے ہیں ؛ایران میں خیمانی اور احمد نژاد ؛ ترکی میں ائے – کے- پی بمقابلہ گلنیست ؛ عراق میں عصائب اہل الحق بمقابلہ مقتدی الصدر؛ سعودی عربیہ میں بادشاہت بمقابلہ اخوان المسلمون ؛ شام میں لبریشن فرنٹ بمقابلہ النصرہ فرنٹ ؛ اسرائیل کی جانب دشمنی کے حوالے سے مصّر کے اخوان المسلمون بمقابلہ حماس ؛ مصّر میں اخوان المسلمون بمقابلہ سلفی ؛ اور سوڈان میں دو معروف نظریہ دانوں اور سیاستدانوں کے درمیان تصادم ، عمر البشر بمقابلہ حسن الترابی ۔ تیونس میں سلفی ( النصار الشریعہ نامی ) اخون المسلمون طرز کی تنظیم سے لڑ رہے ہیں( جنھیں النہضہ کہتے ہیں)۔
باظاہر طور پر نظر آنے والے چھوٹے اختلافات ایک بہت پیچیدہ درجے تک جا سکتے ہیں۔ طرابلس کے شمالی شہر کے بارئے میں صرف بیروت اخبار کی خفیہ دشمنی کے اکاؤنٹس دیکھیے۔
طرابلس میں مختلف اسلام پسندوں کے درمیان جھڑپیں مارچ 8 اور مارچ 14 کی سیاسی تحریکوں میں تقسیم ہو چکے ہیں جو کہ اب عروج پر ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مارچ 14 کے اعدادوشمار کے مطابق قتل کے بعد سے اور اکتوبر میں اینٹیلی جنس چیف برگیڈئیر وسام الحسن، طرابلس میں اسلام پسند سرگرمیوں کے دوران تنازعات ایک بہت بڑی آتش گیری کی طرف بڑھ گئے۔ خاص طور پر حسن کی وفات سے صرف ایک گھنٹے بعد ، شیخ عبدالرزاق کا قتل ۔ کنعان ناجی ، ایک آزاد اسلام پسند شخصیت جو کہ نیشنل اسلام پسند اجتماع کے ساتھ منسلک تھا،اس نے اسلامک توحید تحریک کے ہیڈ کواٹر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ، جس کی وجہ سے ایک مسلح جھڑپ ہوئی اور اس کے دوران شیخ ہلاک ہو گیا ۔
اس طرح کی توڑ پھوڑ کا نمونہ 1950 ء کی پان – عرب تحریک قوم پرستوں کی تقسیم کی یاد دہانی دلاتی ہے ۔ وہ تمام عربی بولنے والے لوگوں کو یکجاء کرنے کے خواہش مند تھے ، جیسے ہی اس کا اظہار کیا پھر چلے گئے، "[بحرواوقیانوس ] سمندر سے [ فارسی ] خلیج تک۔" تاہم یہ خواب بہت دلکش لگتا ہے ، جیسے ہی یہ تحریک اقتدار میں آئی اس کے رہنماء کمزور پڑ گئے۔ پان – عرب قوم پرستوں پر اس کی وجہ سے فتوی لگایا گیا کہ بالاآخر کہ وہ مختلف قسم کے دباؤ کے تحت منہدم ہو جائیں گے اور زیادہ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہو گیں، ان میں درج ذیل شامل ہیں۔
1 ۔ مصّر کے جمال الناصر بمقابلہ ( یا بتھ ) بتھ جماعتیں جو کہ شام اور عراق میں حکومت کر رہیں ہیں۔
2 ۔ شامی بتھ پارٹی بمقابلہ عراقی بتھ پارٹی۔
3۔ شامی سنی بتھ بمقابلہ علوی شامی بتھ۔
4 ۔ جدہ کا علوی شامی بتھ بمقابلہ اسد کا علوی شامی بتھ ۔
عمر البشر اور حسن الطرابی ، کبھی قریبی اتحادی ہوا کرتے تھے۔ |
اور اسی طرح، سچ تو یہ ہے کہ عرب یونین بنانےکی ہر ممکن کوشش ناکام رہی – خاص طور پر مصّر اور شام (61 – 1958) ریاستیں (61 – 1958 ء) ،عرب ریاستوں کی فیڈریشن (77- 1927 ء)، لبنان کا شامی تسلط (2005 – 1976 ء) اور کویت پر عراق کا قبضہ (91 – 1990 ء)۔
مشرق وسطی کے پیٹرن کی شدید عکاسی کرتے ہوئے ، اسلام پسندوں کے درمیان اس طرح کے اختلافات انھیں اکھٹے کام کرنے سے روکتے ہیں۔ جیسے ہی اس تحریک کا سیلاب امنڈ آیا ، اس کے اراکین اقتدار میں آگئے اور حقیقی حکمرانی کرنے لگے، اس کے شگاف تیزی سے تقسیم در ہونے لگے۔ کاغذی دشمنی کا اختتام ہوا جب اسلام پسند اپوزیشن میں مرجھا کر ابھرئے تب وہ بہت زیادہ طاقت میں تھے۔
کیا یہ گروپوں میں تقسیم ہونے کا طریقہ ایسے ہی قائم و دائم رہے گا، اسلام پسند تحریکوں پر فتوی لگ جائے گا ، جیسے کہ فاشزم یا کیمیونزم، اور زیادہ کچھ نہیں یہ تہذیبوں کے لیے خطرہ بنیں گے جو کہ بہت زیادہ خطرئے کا باعث ہو گا۔ لیکن یہ کبھی بھی رائج نہیں ہو گا۔ اسلام پسند طاقت پر یہ ممکنہ حد ، جو کہ صرف 2013ء میں دیکھائی گئی ، جو کہ مروت کے لیے نہیں بلکہ رجائیت کے لیے ایک بنیاد فراہم کرئے گا۔ حتی کہ چیزیں گذشتہ سال سے زیادہ روشن دیکھائی دئے رہیں ہیں ، تو رحجانات بہت تیزی سے دوبارہ تبدیل ہوںگے۔ اسلام پسندوں کو شکست دینے کا طویل اور پیچیدہ کام ہمیشہ آگے بڑھتا رہے گا۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔