کیمیائی ہتھیاروں کے بحران میں وقفہ مہاجرین کی کثیر تعداد سے توجہ ہٹانے کا موقع فراہم کرتا ہے جو شام کو چھوڑ رہے ہیں اور اپنے مستقبل کے بارئے میں کچھ گمراہ کن مفروضوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔
شام کے دو ملین باشندوں کا تقریبا دسواں حصّہ بین الاقوامی سرحد کو پار کر کے،اپنے بہت سے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی کی طرف فرار ہو چکے ہیں۔ معاملات حل ہونے کے قابل نہیں ہیں، ان کی حکومتیں انٹری پر پابندی عائد کر رہی ہیں،شامی حالت زار کے بارئے میں بین الاقومی تشویش کو فروغ دئے رہیں ہیں۔ مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر انتوینو گوتیرس ، سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کی ایجنسی جیسے کہ گارڈن (خود سے یہ الفاط دہراتا ہے) " ہزاروں دس شامی مہاجرین کو ان ممالک میں آباد کیا جائے وہ ان کی میزبانی برداشت کرنے کی بہتر صیلاحیت رکھتے ہیں،"2003 ء کے بعد سے عراقی آبادکاری کے پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے، جب 100،000 عراقیوں کو مغرب میں آباد کیا گیا تھا۔ دیگر ممالک بھی جبلی طور اس حل کے لیے مغرب کی طرف دیکھ رہے ہیں؛ مثال کے طور، امریکی کیتھولک بشیپ کی کانفرس میں، مغربی ریاستوں پر زور دیا گیا، کہ وہ شامی مہاجرین کے لیے "مزید کام کریں۔"
جرمنی کی طرف روانہ ہوتے ہوئے بیوروت ائیرپورٹ پر شامی مہاجرین۔ |
اپیل سنی گئی :کینیڈا نے 1،300 شامی مہاجرین کو اپنے ملک میں رکھنے کی پیش کش کی اور اقوام متحدہ نے 2000 ۔ اٹلی نے 4،600 شامی مہاجرین سمندر کے راستے کے ذریعے حاصل کیا۔ جرمنی نے 5،000 مہاجرین کو رکھنے کی پیش کش کی سویڈن نے پہلے سے ہی اس ملک میں 15،000 شامی مہاجرین کو سیاسی پناہ دینے کی پیش کش کی ہے۔ پورئے مغرب میں مقامی گروپ ان کی آمد کے لیے خاصی تیاری کر رہے ہیں۔
لیکن یہ تعداد لاکھوں کی آبادی کی تعداد کی نسبت بہت کم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب اکیلا شامی مہاجرین کے مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔ مزید یہ کہ بہت سے مغربی ممالک ( خاص طور پر یورپی ممالک میں سے کچھ جیسے کہ نیدرلینڈ اور سويزرلینڈ ) وہ مسلمان عوام کو اپنے ملک میں رکھنے سے ہچکچاتے ہیں جو کہ ان کی ثقافت میں ضم نہیں ہوتے بلکہ وہ اس کی بجائے مغربی ثقافت کو اسلامی قانون کوڈ، شریعت ، کے ساتھ تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جرمن چانسلراینگلا مارکلر اور برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، نے پر زور اصرار کے ساتھ تمام تہذیبوں کے لیے یکساں اہمیت کے لیے کثیر ثقافتی تصور پیش کیا، جس میں وہ ناکام ہو گئے۔
یونان میں بدترین، فاتسٹ تحریکیں جیسے کہ گولڈن ڈان فروغ پا رہیں ہیں۔
اور بہت سے مسلمان مہاجرین غالبا اپنے طریقے پر ہیں۔ شامیوں کے ساتھ ساتھ اس میں بنگلہ دیش، پاکستان، افغان، ایرانی ، عراقی، فلسطینی ، مصّری، صومالیہ اور الجزائر بھی شامل ہیں۔ دیگر شہری – مثال کے طور یمینی اور تیونس بھی – ان کی صف میں خوشی سے شامل ہو جائیں گے۔
ہمارئے ہاتھ میں اس کا ایک حل موجود ہے۔
شامیوں کو رکھنے کے لیے " ان ممالک میں میزبانی کو برداشت کرنے کی بہترین صیلاحیت موجود ہے،" جیسے کہ گوتیرس بہت اچھے طریقے سے یہ بیان کرتے ہیں، کوئی ایک مسیحی اقلیت والے مغرب کی توجہ ایک وسیع، خالی رقبے پر مشتمل بہت زیادہ امیر بادشاہی سعودی عربیہ کی طرف کرنا چاہتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ چھوٹی لیکن بعض صورتوں میں امیر ترین کویت، بحرین، قطر، اور متحدہ عرب امارات کی ریاستیں بھی ہیں۔ شروعات کے لیے، یہ ممالک ( جنکو میں مجموعی طور پر عرب کہہ کر بلاؤں گا ) زیادہ مناسب ہے کہ وہ وہاں سے شامیوں کو ان کے وطن واپس بھیجیں، جس کو کہا جاتا ہے ، نیوزی لینڈ۔ وہاں رہنے کا یہ بھی مطلب ہے کہ وہ وہاں کا شدید ٹھندا موسم بھی برداشت نہیں کر سکتے ( جیسے کہ سویڈن میں ) یا مشکل ترین زبانوں کا سیکھنا جن کو صرف چند لوگ ہی بول سکتے ہیں، جیسے کہ ڈنمارک میں
سب سے اہم بات یہ ہے کہ،عرب مسلمان اپنے شامی بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ گہرئے مذہبی تعلقات رکھتے ہیں، تاہم وہاں آباد ہونا انھیں مغرب میں موجود زندگی کی کشدگیوں سے بھی بچائے گا۔ کچھ حرام ( ممنوع ) عناصر کو بھی ذہن میں رکھیں جن سے مسلمان مہاجرین عرب ممالک میں رہتے ہوئے پرہیز کریں گے۔
- پالتو کتے ( ان میں 61 ملین اکیلے امریکہ میں رہتے ہیں )۔
- ایک سور کا تحلیل شدہ کھانا اور ایک شراب سے آلودہ سماجی زندگی ۔
- ریاستی پشت پناہی میں قرعہ اندازیاں اور لاس ویگاس طرز جوئے کی ایمپوریا۔
- نامناسب لباس میں ملبوس خواتین، بیلے، سوئمنگ سوٹ بیوٹی کے مقابلے ایک اکیلی خاتون کا تنہا رہنا ، مخلوط غسل، ڈيٹنگ اور حلال عصمت فروشی۔
- ہم جنس پرست سلاخیں، ہم جنس پرست فخر جلوس اور ہم جنس پرستوں کی شادی۔
- ہالوسیجن کی طرف ایک لاپرواہ رویہ، کچھ علاقوں میں بعض قانونی منشیات۔
- گستاخانہ ناول، قرآن مخالف سیاستدان، مرتد مسلمانوں کی تنظیمیں، اور ایک پادری جو بار بار اور عوامی سطح پر قرآن پاک جلاتا ہے۔
سعودی عربیہ میں ایک ہم جنس پرست فخر پریڈ چلانے پر کوئی خطرہ نہیں ہے، جیسے کہ یہ ایک۔ |
اس کی بجائے، عرب میں رہنے والے مسلمان ایک شریعی طریقے سے مستفید ہو سکتے ہیں ( آئرلینڈ کے برعکس ) کثرت الازواج کی اجازت دیتا ہے اور ( برعکس برطانیہ ) چھوٹی عمر کے بچوں کی شادی کی اجازت دیتا ہے ۔ فرانس کے برعکس، عرب ممالک بیویوں کو مارنے کی وکالت کرتے ہیں اور خواتین کے اعضائے تناسل کو نقصان پہنچانے میں آسانی فراہم کرتے ہیں ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے برعکس، غلاموں کو رکھنا قید کی سزا کا تقاضا نہیں کرتے اور مردوں کے رشتہ دار بغیر سزائے موت کے خوف کے بغیر غیرت کے نام پر اپنے قبیلے کی خواتین کو قتل کر سکتے ہیں۔
سعودی عربیہ کے، ریاض شہر کی ایک فضائیہ تصویر، جو کہ ملک کے پر کشش شہری مقامات کو ظاہر کر رہی ہے۔ |
شام اور عربیہ کی مثال سے ایک وسیع تر نقطہ نظر کو ظاہر کرتی ہے: معشیت سے قطع نظر، مہاجرین کو اپنے ثقافتی علاقوں میں رہنے اور ان کی حوصلہ افزائی کی اجازت دی جانی چاہیے، جہاں وہ بہترین طریقے سے فٹ ہو جائیں، اپنی روایات کو وہ بہترین طریقے سے درست کہہ سکیں گے، ميزبان ملک میں بھی کم سے کم خلل ڈال سکیں، اور وہ وہاں سے زیادہ آسانی سے اپنے وطن واپس جا سکتے ہیں۔ وسطائی ایشائی باشندوں کو عام طور پر مشرق ایشا میں جا کر ہی آباد ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ نے یہ نوٹ لیے ہیں کہ : باقی حصوں کی نسبت مغرب پر کم فوکس کیا جائے۔ جیسے کہ سعودی عربیہ کے لیے: یہ وقت ہۓ کہ وہ اپنے مسلمان ہم مذہبوں کو دباؤ کے تحت کھلے دل سے خوش آمدید کہیں۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔