5 دسمبر کو بحرین کے ولی عہد شہزادئے سلمان بن احمد الاخلیفہ ، ( خلیج فارس کی ایک جزیرہ نماء ریاست اور امریکی بحریے کے پانچویں بحری بیڑئے کا گھر )نے ایک غیر معمولی بیان دیا جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا، انھوں نے واضح طور پر اسلام پسند دشمن کا تجزیہ کیا اور اس سے مقابلہ کرنے کے لیے اہم طریقوں کی تجویز پیش کی۔
5 دسمبر کو بحرین کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن احمد الاخلیفہ، دشمن کی شناخت کے بارئے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ |
وہ مغربیوں کو بہت کچھ سیکھانا چاہتے ہیں ( اپنے بدقسمت برطانیہ کے ہم منصب، ولی عہد شہزادہ چارلس سے شروعات کرتے ہوئے )، اگر ہم صرف سننا چاہتے ہیں ۔ جی ہاں کچھ مغربی رہنماء اسلام پسند نظریے کا مقابلہ کرنے کے بارئے میں بات چیت کرتے ہیں، جب کہ اکثریت مہذب نام، بدحواسی، اور بزدلی کا سہارا لیتے ہوئے اس مسئلے پر بات چیت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ مایوس کن وہ رہنماء ہیں ( جیسے کہ ٹونی بلیئر ) جو کہ بغیر کسی عمل کے دھواں دار تقاریر کرتے ہیں۔
ٹونی بلئیر نے باحثیت برطانیہ کے وزیراعظم اسلام پسندی پر بہت زبردست تقاریر کیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا۔ |
شہزادہ سلمان، 45، نے واضح طور پر یہ تسلیم کیا کہ وہ بحرینی شاہی خاندان کے اہم ترین اصلاح کار ہیں انھوں نے اپنے بیان میں اس جملے " دہشت گردی کے خلاف جنگ " کے غلط ہونے پر اپنے ریمارکس کا اظہار کیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ، وقت آچکا ہے اس اصطلاح سے ہمیں "چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا" جو کہ ہمیں 11\9 میں واپس دھکیل دئے گا " یہ تھوڑا سا گمراہ کن خیال ہے، یہ مکمل طور پر ایسا نہیں ہے اور ہمارئے تنازعے کا حاصل نہیں ہے" لیکن صرف "ہتھیارکار ہے" اور ایک حربہ ہے۔
انھوں نے زبردست انگریزی میں بولتے ہوئے حالیہ تنازعے کو تاریخی تناظر میں رکھا: "اگر میں گذشتہ صدی کے بارئے میں سوچو ، تب ہم نے ایک بہت ہی مختلف دشمن کا سامنا کیا ۔ ہم نے کمیونزم کا سامنا کیا اور ہم نے اکھٹے مل کر اس کا مقابلہ کیا، ہم نے اسے ایک نظریے کے طور پر سمجھا۔ دہشت گردی ایک نظریہ نہیں ہے۔"
انھوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ " ہم صرف دہشت گردی سے نہیں لڑ رہے، ہم مذہبی حکومت کے اراکین سے لڑ رہے ہیں" جیسے کہ سلمان نے یہ اصطلاح استعمال کی ، کہ مذہبی حکومت کے اراکین مرد ہیں " جنھیں مذہبی نظریے کے مطابق سب سے اعلی مقام پر رکھا جاتا ہے جو مذہبی فتوی جاری [رکھنے[ کی طاقت رکھتے ہیں ان کی آخرت کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔ کسی ایک کو ختم کرنے کی – اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے [ مذہبی طاقت ] کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ جابر حکمران ہوتے ہیں، الگ تھلگ رہتے ہیں، اور زن بیزار رہتے ہیں جنھیں " ایک طویل مدت " تک لڑنے کی ضرورت ہے۔ وہ ان سے اس طرح نفرت کرتے ہیں " جیسے کہ بہت حد تک سترھویں صدی میں" اور اس کی " ہمارئے جدید زمانے کی اکیسویں " صدی میں کوئی جگہ نہیں۔
انھوں نے ہم پر زور دیا کہ " دہشت گردی کے خلاف جنگ کی " اصطلاح کو چھوڑ دیں اور اس کی بجائے حقیقی خطرئے پر زور دینا چاہیے، جو کہ ان مذہبی حکمرانوں کی بڑھتی ہوئی برائیاں ہیں" اس مقاصد کے لیے، انھوں نے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کی اپنی تشکیل کو : "ایک مذہبی، حکمرانوں کے خلاف جنگ" کے ساتھ تبدیل کر دیا۔ انھیں امید ہے کہ یہ نظریہ ، اس بات کو ممکن بنائے گا کہ " اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم اکھٹے مل کر فوجی، معاشرتی اور سیاسی – اور یہاں تک کہ اقتصادی – پالیسیوں کو ایک مجموعی انداز میں شروع کریں، جیسے کہ ہم نے کیمونیسٹ کے ساتھ کیا ۔ شائد تقریر کی سب سے زبردست لائن یہ تھی، جس میں انھوں نے جواب دیا کہ " یہ بذات خود ایک نظریہ ہے جس کا بھرپور مقابلہ کرنا چاہیے ۔ ضروری ہے کہ اس کو ایک نام دیا جائے، ضروری ہے کہ اسے شرمندہ کیا جائے، اس کا موجود ہونا ضروری ہے، اور بالاخر اس کو ہر صورت میں شکست دینی چاہیے۔"
یہاں تک بالکل درست ، لیکن سلمان تلخ حقائق سے گریز کرنا چاہتے ہیں کہ وہ " دوہرا " اور " وحشیانہ" نظریہ جو انھوں نے بیان کیا خصوصی طور پر اسلامی ہے۔ اور تمام مذہبی حکمران مسلمان ہیں: " یہ جنگ جس میں ہم سب مصروف ہیں وہ اسلام، ۔۔۔۔۔۔ میسیحت ۔۔۔۔۔ ،یہہودیت ۔۔۔۔۔، بدھ مت ۔۔۔۔۔، کے خلاف نہیں ہو سکتی ہے۔" پس ،جب اس نظریے کا نام لیا جاتا ہے، سلمان تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسے عمومی لحاظ سے دیکھتے ہیں۔ وہ نااہل من گھرٹ الفاظ پیش کرتے ہیں( "تھیو – کرازم ") تب وہ " فاتسٹ مذہبی حکمرانوں " کی عکاسی کرنے کے لیے جنگ عظیم دوئم میں واپس جاتے ہیں ۔ وہ ضمنی طور پر، یہ کہتے ہوئے " اسلام پسندی" کو مسترد کرتے ہیں کہ وہ " کچھ سیاسی پارٹیوں کے بارئے میں بحث نہیں کرنا چاہتے کہ وہ اسلام پسند ہیں یا نہیں ۔"
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اسلام پسند ہی وہ جامع ترین اصطلاح ہے جس کے لیے وہ دشمن نظریے کی کھوج لگا رہے ہیں؛ اور ہم " اسلام پسندی پر جنگ " کے لیے مصروف عمل ہیں۔ تاہم سلمان بہترطور پر اس مسئلے کو سمجھتا ہے ۔ اسلام کی ایک مطلق العنان نظریے میں تبدیلی۔ لیکن وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میسحیت ، بدھ مت، اور یہودیت تمام اس مصیبت سے پناہ مانگتے ہیں۔ بہتر ہے کہ وہ – اور دیگر راست باز مسلمان – اس ناگزیر حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ اسلام اکیلا ایک مطلق العنان فتنے پر مشتمل ہے۔
مثبت لحاظ سے ، سلمان کا بیان اس لحاظ سے فٹ بیٹھتا ہے کہ مسلمان سیاستدانوں میں اسلام پسندی کے خطرئے سے براہ راست مقابلہ کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ اس کے لیے دو حالیہ مثالیں درپیش ہیں۔
- ایک اہم تصوراتی پیش رفت میں، قریبی متحدہ عرب امارات کی حکومت نے امریکہ کی اسلام تعلقات کی کونسل ( سی- ائے- آئی- آر ) اور دیگر- متشدد گروپوں کو اس بنیاد پر اپنی دہشت گردی کی لسٹ میں رکھا کہ وہ اشتعال انگیزی، فنڈز کی فراہمی اور دہشت گردی پیشوا میں سرگرم ہیں۔
- مصر کی حکومت نے یوسف القرضائی، 88 ، جو کہ اخوان المسلمون کا ایک بہت بااثر روحانی پیشواء تھا، " اشتعال انگيزی اور قتل عمد کرنے والوں کا ارتکاب کرنے کی امداد کے لیے ، قیدیوں کو فرار ہونے میں مدد کرنے کے لیے ، اور چوری میں ملوث ہونے پر اس کی انٹریول گرفتاری کے لیے ایک بلیٹن جاری کردیا۔
مصر کی حکومت نے اخوان المسلمون کے گہرئے مفکر، یوسف القرضائی کی گرقتاری کے وارنٹ جاری کر دئیے۔ |
یہ نیا رحجان بہت اہمیت رکھتا ہے جیسے کہ میں اکثر کہتا ہوں کہ انتہا پسند مسئلہ ہے اور اعتدال پسند اس کا حل ہے۔ اب، ہم ایک ولی عہد، کی بجائے، ایک بااثر رہنماء کو ، ان مسلمانوں کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں جو ایک حل تلاش کرنے کے خواہش مند ہیں۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔