کی طرف سے منہدم کر دیا گیا ، دنیا (ISIS) ، ہٹرا اور کورسا آبادجیسے قدیم ترین شہروں کو اسلامی ریاست نمردو کے تین عظیم ترین آثار قدیمہ اور ثقافتی مقامات میں، صرف اس ہی گروپ کی طرف سے حالیہ ہی اتنے بڑئے علاقے پر ، جو کہ اس کے کنٹرول میں ہے پر ہر طرف سے حملے کیے گئے جنوری 2014 ء کے بعد سے زبردست انسانیت نے شیعہ مساجد کو دھماکوں سے اڑا دیا ، گرجا گھروں کو منہدم کر دیا، مزارات کی توڑ پھوڑ کر دی گئی ، ISISسوز اور عجائب گھروں میں لوٹ مار کی۔
ریکارڈ ایک پرانے اور عام نمونے کے ISISمسلمانوں کی طرف سے تاریخی نمونوں کو تباہ وبرباد کرنے کا بدتر،
مطابق فٹ بیٹھتا ہے۔ کچھ حملوں ، میں حریف مذاہب کے کاموں کو نشانہ بنایا گیا ، جیسے کہ ( 1974 ء کے بعد سے ) شمالی قبرص میں آرتھوڈکس گرجا گھر، ( 2000 ء میں ) افغانستان میں بامیان بدھا ( 2002 ء میں ) تیونس میں غریبا یہودی عبادت گاہ، اور ( 2006 ء ) میں ملائشیاء میں تاریخی ہندو مندر، اور 2015 ء میں موصل اسور نوادرات ( بت )۔
ایک ذاتی سطح پر ، ٹوکیو میں 2014 ء میں ایک سعودی شہری نے سینسو- جیبدھ مت مندر کے تاریخی مجسمے کو توڑ پھوڑ دیا۔ یہ خطرہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا: اسلامی رہنماء ایران کے قدیم شہر، سینائی میں سینٹ کیتھرین کی خانقاہ، اور مصّر کے عظیم ترین اہراموں کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبوں کو بڑھا رہے ہیں۔
1974 ء کے حملے کے بعد سے ، ترکی فورسز نے شمالی قبرص میں بہت سے گرجا گھروں کو تعمیر کیا جو کہ صرف جانوروں کے لیے بہتر تھے۔ |
کچھ صورتوں میں، فاتحوں نے غیر اسلامی مقدس مقامات کو اسلامی مقامات میں تبدیل کر دیا، اس طرح سے انھوں نے اسلامی بالادستی کا پرچار کیا۔ اس سب کا اظہار انھیں اسلامی مقدس مقامات میں تبدیل کر کے کیا گیا، جیسے کہ مکہ میں، کبعہ، دمشق میں سینٹ جان گرجا گھر، اور قسطنطنیہ میں ہیگا صوفیا ؛ یا ان پر کچھ تعمیر کر کے، جیسے کہ یروشلم میں مسجد اقصی اور بھارت ، ایودھیا ، میں بابری مسجد۔
بعض اوقات ایک مسلک کے مسلمان دوسرئے اسلامی فرقوں کی وراثت کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ اس میں ( 2012 ء)میں ٹمبکٹو میں قرون وسطی کی ساخت، کے لحاط سے سیدی محموداں کی قبر، ( 2012 ء ) میں لیبیا میں صوفیوں کے مقبرئے ، اور 2015 ء میں موصل کی لائبریریوں کی تازہ ترین مثالیں شامل ہیں۔ لیکن ان میں سب سے قابل ذکر 1990 ء کے بعد سے نوادرات کی سعودی تباہی شامل ہے ، جہاں پر سخت غیر – شفاعت کے وہابی اصولوں کا اطلاق کیا ؛ یہاں تک کہ مدینہ میں محمد کی قبر اطہر کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
2001 ء میں طالبان نے چھٹی صدی کے بدھا کی یادگار کے مجسمے کو اڑا دیا۔ |
جنگ کی لڑائی کے دوران تباہی و بربادی بھی ساتھ ساتھ ہوتی ہے؛ 2011 ء کے بعد سے شام کا تنازعہ اس لحاظ سے جو کہ عظیم الشان Crac des Chevaliersبہت تباہ کن رہا ہے، جس نے حلب کے درگ، اموی مسجد، اور بشمول
نوادرات کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنے۔ اس کے ساتھ ساتھ ، جنگی اخرجات اداء کرنے کے لیے اسمگنگ اور دیگر منافع کمانے والی سرگرمیوں کے نتیجے میں ہول سیل چوری اور نایاب نوادرات کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ مثال کے کی جگہ مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔"Apamea کی رپورٹ کے مطابق ، قدیم شامی UNESCOطور پر
یہاں تک کہ قدیم ترین نمونوں کو بھی منہدم کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی جگہ کسی اور فوری جگہ کے لیے ضروری سمجھا جا سکتا ہے۔ فلسطین اتھارٹی نے 2000 ء میں آثار قدیمہ کی باقیات کی قیمتی مونٹ مندر کو ایک مسجد تعمیر کرنے کے لیے صرف ملبہ سمجھ کر باہر پھینک دیا۔ 2013 ء میں حماس نے فوجی مقاصد کے لیے غزہ میں موجود 3000 ، سال پرانے اینتھی ڈون ہاربر کے حصّے کا صفایا کر دیا گیا اور ترکی کے حکام نے ایک آرائشی تالاب کی تعمیر کے لیے یدیکل باغوں کے بازنطینی دور کی دیواروں کو شدید نقصان پہنچایا۔
2002 ء میں القاعدہ نے تیونس میں موجود غریبیا یہودی عبادت گاہ پر بمباری کی۔ |
بالآخر، یہاں بلاثبوت خود ساختہ ثقافتی گھاؤ موحود ہیں ۔ اس میں ( 2003 ء ) میں عراقی عجائب گھر، لائبریریوں، اور کو نذر آتش کر دینا اور مصّری عجائب گھر میں L'Institut d'Égypteآرچیوس کی لوٹ مار، 2011 ء میں مصّر کے
میں مالاوی ،عجائب گھر کی توڑ پھوڑ، مصّر، اور Minyaلوٹ مار، 2013 ء میں ٹمبکٹو میں دستاویزات کی تباہی اور
لائبریری، لبنان اور قاہرہ میں اسلام آرٹ کے میوزیم کی تباہی شامل ہے۔Saeh2014 ء میں طرابلس میں
کیوں اسلام اپنے پیروکاروں کو متاثر کرنے کے لیے اپنی ہی میراث کو تباہ و برباد کر دیتا ہے؟ کیونکہ ذلت کسی ایک کی برتری کو قائم کر دیتی ہے۔ کافر رہنے پر تباہی اور اس کی وجہ سے مرتب ہونے والے اثرات مسلمانوں کی برتر طاقت اور اسلام کی حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمان اپنے حریفوں کے آثار کو ختم کر کے ، کم جارحانہ طریقے سے اسلام کی تشریحات کے ساتھ، اسلام پسندی کی برتری کو دوسروں پر قائم کرتی ہے۔
نے موصل میں شیعہ مسجد کو دھماکے سے اڑا دیا۔ISIS2014 ء میں |
تاہم دوسروں کی یادگاروں پر قبضہ کرنا اور اپنی ملکیت بنانا اسلام کے قیام سے ہی شروع ہو گیا تھا ( یعنی کہ کبعہ )، کی طرف سے ہونے والی تباہی بلند ترین وحشیانہ مقام تک پہنچ چکی ہےجو کہ ایک نئی چیز ہے، یہ بات قابل ISIS
غور ہے کہ تقریبا تمام مثالوں کی تاریخ جو یہاں درج ہے وہ اکیسویں صدی سے شروع ہوتیں ہیں۔
ارد گرد نظر گھمانے سے پتہ چلتا ہے کہ ، کہ وہ حالیہ تباہ کیے جانے والے نوادرات ایک طویل عرصے تک برقرار رہے کیونکہ مسلمانوں نے انھیں تنہاء چھوڑ دیا تھا ۔ اس لحاظ سے اب حالات بہت بدتر ہو چکیے ہیں جبکہ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا – یہ ایک حیرت انگیز بات نہیں ہے، جیسے کہ اسلام اپنی بدتر شکل میں رہا ہے۔ تمام دوسرئے مذاہب نے بھونڈئے انداز میں مقابلہ کر کے ایسی متحرکات کو باہر منتقل کر دیا جس کے مقاصد ناقابل قبول ہیں اور ان کے نتائج افسوسناک ہیں۔
کیا یہاں کوئی ایسا مشرق وسطی کا ملک موجود ہے جو کہ اپنے کثیر – مذہبی ورثے، سکوں، ا اور ٹکٹوں پر قدیم نمونے کی یاد منائے، اپنے نوادرات کے لیے شاندار عجائب گھروں کو تعمیر کرئے، آثار قدیمہ کا ایک قومی شکل کے طور پر برتاؤ کرئے، اور دستاویزات کو جلانے کی بجائے ان کا مطالعہ کرئے ؟ ویسے ، جی ہاں، یہاں ایک ایسا ملک ہے۔ اسے اسرائیل کہا جاتا ہے۔ خطے کے باقی ممالک کو آثار قدیمہ کی قدر دانی کے بارئے میں ایک یا دو باتیں یہودی ریاست سے سیکھنی چاہیں۔
دونوں اس کے نام ہیں قوت السلام (" اسلام کی پاور") کے نام کی مسجد دہلی میں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اسے " 27 بت پرست مندورں " کے مواد سے تعمیر کیا گیا جو کہ اسلامی بالادستی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ |
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔