ایرانی سیاسی شخصیت عیسی کلینٹاری کی درجہ بندی کے لحاظ سے ، حالیہ طور پر خبردار کیا گیا ہے کہ ماضی میں کی گئی غلطیاں ایران کو پانی کی ناکافی کمی کے ساتھ چھوڑ جائیں گی جو کہ تقریبا 70 ٪ تک ہو گی ، یا 78 ملین ایرانیوں میں سے 55 ملین ایرانیوں کو نامعلوم حصّوں کے لیے اپنے آبائی ملک کو مجبور ہو کر چھوڑنا پڑئے گا ۔
بہت سے حقائق کلینٹاری کی الہامی پیشن گوئی کی حمایت کرتے ہیں۔ ایک دفعہ شاعری میں جھیل یوریما کو سراہا گیا ، جو کہ مشرق وسطی کی سب سے بڑی جھیل ہے، 1996 ء کے بعد سے اس کا 95 ٪ پانی خشک ہو گیا ، جو کہ31 بلین کیوبک میٹر سے 1.5 بلین رہ گیا ۔ پیرس تک دریائے سین کا کیا ہو گا، زیانڈیرڈ اصفان تک ہے۔ سوائے مؤخرالذکر کے جو کہ 2010 ء تک خشک ہو جائے گی ۔ ایران کے دوتہائی سے زیادہ شہر اور قصبے " پانی کے بحران کے دہانے " پر ہیں جس کے نتیجے میں وہ پینے والے پانی کی قلت کا شکار ہو جائیں گے ؛ پہلے سے ہی ہزاروں دیہات پانی کے ٹینکوں پر انحصار کرتے ہیں۔ بہت بڑئے غیر معمولی مٹی کے طوفان اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں اور صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
حالیہ دہائیوں میں ایران کی یوریما جھیل کا پانی 95 ٪ تک کم ہو گیا۔ |
اکیلا ایران ہی صرف اس خطرئے سے دوچار نہیں ہیں، بلکہ خشک مشرق وسطی میں بہت سے دیگر افراد کو بھی ناپسندیدہ ، مفلس، مایوس کن جلاوطنی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ایک منفرد ، شاندار، رعائیت کے ساتھ ، آبادی میں اضافے ، بصیرت کے فقدان کا شکار آمر، مسخ شدہ اقتصادی مراعات ، اور جنگ کے طور پر تباہ حال بنیادی ڈھانچے جیسی بیماریوں کی وجہ سے مشرق وسطی کا بہت سا حصہ پانی کی قلت کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کے بارئے میں کچھ تفصیلات :
مصّر: بڑھتی ہوئی سمندر کی سطح کی وجہ سے نہ صرف ملک کے ساحلی شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ ہے ( بشمول اسکندریہ ، جس کی ابادی 4 ملین ہے ) بلکہ یہ نیل ڈیلٹا کی پانی کو جذب کرنے والی چٹانوں کو بھی آلودہ کرئے گا، جو کہ دنیا کا سب سے بڑا زمینی پانی کا ذخایرہ ہے۔ ایتھوپیا کی حکومت کو آخر کار بلیو نیل کی ہائیڈرالک طاقت کو استعمال کرنا ہو گا ڈیموں کی تعمیر کی جائے جس کی وجہ سے بہت حد تک دریائی پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہو گی جو کہ مصّر ( اور سوڈان ) پہنچ رہا ہے ۔
غزہ : یہ اس لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ ایک " ہائیڈرولوجیکل ڈراؤنا خواب ،" سمندری پانی کا داخل ہو جانا اور نکاسی کے نظام میں لیکیج ہونے کی وجہ سے 95 ٪ ساحلی پانی کے ذخائر کو انسانی استعمال کے لیے ناموزوں قرار دئے دیا گیا ہے۔
یمن : تیل کی ترسیلات زر نے یمنیوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ بہت زیادہ قات کو چبانے کے عادی بن گئے ، ایک پتا جس کی جھاڑیاں غذائی پودوں کی نسبت کہیں زیادہ پانی جذب کرتی ہیں اسے ان کی جگہ دئے دی گئی ہے۔ پانی کے ماہر گرہارڈ لیچٹنتھیلر رپورٹ کے مطابق ، بہت سے پہاڑی علاقوں میں پینے کا پانی " اس حد تک کم ہو گیا ہے کہ ایک دن میں ایک چوتھائی گیلن ایک فرد کے لیے ہے۔" ماہر ایلن ویلفسون لکھتے ہیں کہ صنعاء " دنیا کا پہلا دارالحکومتی شہر بن سکتا ہے جس کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ "
تین یمنی قات کر چبا رہے ہیں۔ |
شام : شامی حکومت نے 1988 – 2000 تک آبپائشی کے ناکام منصوبوں پر 15 ملین ڈالر ضائع کر دئیے۔ 2002 ء اور 2008 ء کے درمیان تقریبا تمام 420،0000 غیرقانونی کنویں خشک ہو گے، جیسے ہی اناج کی پیداوار ہوئی، کل پانی کے ذرائع نصف حد تک کم ہو گے، جس کے نتیجے میں 250،000 کسانوں کو اپنی زمینیں چھوڑنا پڑئیں۔ 2009 ء تک ، پانی کے مسائل کی وجہ سے 800،000 ملازمتیں داؤ پر لگ چکی ہیں ۔ 2010 ء تک ، رقہ کے اندرونی علاقوں میں جو کہ ایک اسلامی ریاست کا دارالحکومت ہے، نیو یارک ٹائمز یہ دپورٹ پیش کرتا ہے کہ، " قدیم آبپائشی کے نظام کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخائر خشک ہو چکے ہیں اور سینکڑوں دیہاتوں کو کھیت کی شکل دینے کے لیے ترک کر دیا گیا ہے جو کہ ٹوٹے پھوٹے صحرا میں تبدیل ہو چکے ہیں اور چارا کھانے والے جانور مر رہے ہیں ۔"
عراق : ماہرین اس بات کی پیشن گوئی کرتے ہیں کہ دریائے فرات کا پانی جلد ہی نصف رہ جائے گا ( ان منفی اثرات کے لیے وہ 22 :16 انکشافات کا حوالہ پیش کرتے ہیں)۔ پہلے ہی 2011 ء میں ، موصل ڈیم، جو کہ عراق کا سب سے بڑا ڈیم ہے، پانی کے ناکافی بہاؤ کی وجہ سے مکمل طور پر بند ہو گیا ہے۔ خلیج فارس سے سمندری پانی کو شطل – عرب میں دھکیلا گیا ہے جس کے نتیجے میں نمکین پانی نے ماہی گیری ، مویشیوں ، اور فصلوں کر تباہ و برباد کر دیا ہے ۔ شمالی عراق میں پانی کی کمی کی وجہ سے دیہاتوں کو ترک کرنا پڑا ، جن میں سے کچھ اب ریت میں دفن ہو چکے ہیں اور جو اور گندم کی پیداوار میں 95 ٪ کی کمی واقع ہوئی ہے ۔ کھجور کے پودئے 33 ملین سے کم ہو کر 9 ملین تک رہ گئے ہیں ۔ صدام حسین نے شمالی عراق کے دلدلوں کو خشک کروا دیا، ایک بار جنگلی حیات کے ماحولیات کو تباہ و برباد کر دیا اور مارش کے عربوں کو ان کے ذریعے معاش سے محروم کر دیا۔
خلیج فارس: ستم ظریفی یہ ہے کہ پانی کو وسیع پیمانے پر صاف کرنے کے اقدامات کی وجہ سے خلیجی سمندر کے پانی میں 32،000 سے لے کر 47،0000 پاڑٹس پر ملین کھارئے پن کا اضافہ ہوا جو کہ حیوانات اور سمندری زندگی کے لیے ایک خطرہ ہے۔
قریبی پاکستان بھی 2022 ء تک " پانی کی کمی کا شکار ملک " بن سکتا ہے۔
اسرائیل اس افسوسناک علاقائی کہانی کے لیے ایک واحد رعائیت کی پیشکش کرتا ہے ۔ یہ بھی حالیہ ہی ، 1990 ء میں پانی کی کمی کا شکار ہو گیا تھا؛ لیکن اب تحفظ کے مجموعوں ، ری سائیکلنگ ، جدید زرعی ٹیکنالوجی ، اور ہائی ٹیک صفائی کا شکریہ ، جبکہ ملک اب پانی سے بھرپور ہے ( اسرائیل کی واٹر اتھارٹی کے مطابق : ' ہمارئے پاس ہماری ضرورت کے مطابق کافی پانی ہے ")۔ میں یہ تحقیق کرتے ہوئے خاص طور پر اس بات کا ذکر کرتا ہوں کہ اسرائیل ایک امریکی پیسے کے بدلے 17 لیٹر پانی صاف کر سکتا ہے؛ اور یہ دوسرئے درجے پر آنے والے سپین کی نسبت تقریبا 5 گنا زیادہ پانی ری سائیکل کر سکتا ہے۔
ایک اسرائیلی کمپنی نیٹافم ایک اسرائیلی کمپنی کام کر رہی ہے۔ |
دوسرئے الفاظ میں ، آبادی کے بڑھنے سے حشک سالی پر مبنی انقلابات – جو کہ شائد خطے کے بہت سے شدید مسائل میں سب سے زیادہ بد تر ہے ۔ جسکو ذہنی طاقت اور سیاسی پختگی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ مایوس کن ہمسائیے دنیا کی ہائیڈرالک سپر پاور کے ساتھ جنگ کے طور اپنی بے کار ریاست کے خاتمے کے بارئے میں سوچ سکتے ہیں اور جبکہ اس کی بجائے اس سے کچھ سیکھیں۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔