وہ تمام مسائل جو کہ عرب – اسرائیل کے تنازعے کی وجہ بنے، ان میں سے کوئی بھی اتنا اہم، نقصان دہ ، ابتدائی، ہمیشہ رہنے والا، جذباتی اور پیچیدہ نہیں جتنا کہ ان افراد کی حثیت کی نسبت سے جو کہ فلسطینی مہاجرین کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
تل ابیب یونیورسٹی کے نیتزا نیکمس یہ نوٹ کرتے ہیں کہ، اس منفرد کیس کی بنیاد کے لیے کاؤنٹ فوک برناڈوٹ پر دوبارہ غور کیا جائے ، جو کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ثالث ہیں۔ ان اہل عرب کا حوالہ پیش کرتے ہوئے جو کہ فلسطین کے برطانوی مینڈیٹ کو چھوڑ کر بھاگ گئے، وہ 1948 ء میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ " اپنی امداد کے لیے خود ذمہ دار ہے" کیونکہ یہ اقوام متحدہ کا اپنا فیصلہ تھا، اسرائیل کا قیام، جس نے انھیں مہاجرین بنا دیا ۔ تاہم ان کا یہ نظریہ غلط ہے، جو کہ ابھی بھی ایسے ہی برقرار ہے اور مزید طاقتور ہو گیا اور اس سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ اقوام متحدہ نے اپنی ریاست کو زیر التواء رکھ کر فلسطینی مہاجرین کے لیے ایک منفرد توجہ کیوں وقف کی گئی۔
وئس بورگ کے کاؤنٹ کا فوک برناڈوٹ (1895 ء سے 1948 ء ) جس کی قانون سازی ابھی بھی فلسطینیوں کے مقابلے میں اقوام متحدہ کی پالیسی کی رہنمائی کرتی ہے۔ |
برناڈوٹ' کی قانون سازی بالکل سچ ہے، اقوام متحدہ نے خصوصی طور پر " فلسطینی مہاجروں کے لیے مخصوص اداروں" کی ایک رینج قائم کی ۔ ان میں سے ایک فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسیی ہے ، جس کی بنیاد 1949 ء میں رکھی گی، جو کہ اس وقت سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ یہ دونوں لحاظ سے صرف ایک پناہ گزینوں کی تنظیم ہے جو کہ مخصوص لوگوں کے ساتھ معاملات طے کرتی ہے (پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا ہائی کمیشن جو کہ تمام غیر فلسطینی مہاجرین کی دیکھ بھال کرتا ہے ) اور ( عملے کے لحاظ سے ) یہ اقوام متحدہ کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔
بظاہر طور پر اینراء اپنی نگرانی کی وضاحت اچھی خصوصیات کے ساتھ کرتاہے:" فلسطینی مہاجرین وہ لوگ ہیں جن کی عام رہائش کی جگہ جون 1946 ء اور مئی 1948 ء کے درمیان فلسطین تھی ، جنھوں نے 1948 ء کے عرب اسرائیل تنازعے کے نتیجے میں اپنا گھر اور ذریعہ معاش کے ذرائع دونوں کو کھو دیا۔" ، یقینی طور پر، ان 64 سالوں کے دوران ان مہاجرین کے درجے کم ہوتے چلے گے ( جس میں ابتدائی طور پر کچھ یہودی بھی شامل تھے )۔ اینراء کی اس تعداد کو قبول کرتے ہوئے ( جو کہ مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہے ) کہ اصلی فلسطینی مہاجرین کی تعداد 750،000 ہے، یہ صرف اس تعداد کا ایک چھوٹا سا حصّہ ہے ، جو کہ ابھی زندہ ہیں، ان کی تعداد تقریبا 150،000 افراد ہیں ۔
اینراء کے عملے نے فلسطینی مہاجرین کی واضح تعریف کو وسعت دینے کے لیے کئی سالوں کے دوران تین اہم اقدامات کیے ہیں۔ سب سے پہلے ، اور عالمگیر پریکٹس کے برعکس، اس نے ان افراد کو بھی مہاجرین کے مقام پر برقرار رکھا جو کہ ایک عرب ریاست کے شہری بن چکے ہیں ( خاص طور پر اردن میں )۔ دوسرا ، اس نے 1965 ء کے فیصلے پر بہت کم غور کیا جس نے " فلسطینی مہاجرین کی تعریف کو مزید بڑھا دیا" یعنی کہ ان مہاجرین کی اولاد جو کہ مرد ہیں، ایک ایسی تبدیلی جو فلسطینی مہاجرین کو ایک منفرد انداز سے اپنے مہاجر مقام کو آئندہ آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ امریکی حکومت جو کہ ایجنسی کی سب سے بڑی ڈونر ہے، نے اس تاریخی تبدیلی پر ہلکا سا احتجاج کیا ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1982 ء میں اس کی توثیق کی، تو یہ اب فلسطینی مہاجرین کی تعریف میں سرکاری طور پر یہ شامل ہے کہ " فلسطینی مہاجرین کے مردوں کی اولاد جس میں قانونی طور پر گود لینے والے بچے بھی شامل ہیں۔ تیسرا 1967 ء میں اینراء چھ روزہ جنگ سے مہاجرین کو اپنی فہرستوں میں شامل کیا : آج وہ فلسطینی مہاجرین کی کل آبادی کا پانچواں حصہ تشکیل دئے چکے ہیں۔
یہ تبدیلیاں ڈرامائی نتائج رکھتی تھیں ۔ دیگر تمام مہاجرین آبادیوں کے برعکس جو کہ آہستہ آہستہ تعداد میں کم ہوتے گے جیسے جیسے لوگ بستے گے یا مرتے گے، جبکہ فلسطینی مہاجرین کی آبادی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا اینراء اس عجیب و غریب واقعے کو تسلیم کرتا ہے: جب 1950 ء میں ایجنسی نے کام کرنا شروع کیا تو یہ تقریبا 750،000 فلسطینی مہاجرین کی ضروریات کو پورا کر رہے تھے۔ آج، 5 ملین فلسطینی مہاجرین اینراء کی خدمات کے اہل ہیں۔" مزید جیمز جی۔ لینڈسے کے مطابق ، جو کہ ایک اینراء کا ایک سابق جنرل وکیل ہے اینراء کی تعریف کے تحت ، کہ وہ جو ممکنہ طور پر فلسطینی مہاجرین کے مقام کے اہل ہیں یہ 5 ملین کے اعدادوشمار ان کے صرف نصف کی نمائندگی کرتی ہے۔
دوسرئے الفاظ میں ، چھ دہائیوں میں 5 – گنا کم ہونے کی نسبت اینراء نے مہاجرین آبادی میں 7 – گنا کا اضافہ کیا ۔ بڑھتے ہوئے جذبات کی وجہ سے وہ تعداد تیزی سے ابھی تک بڑھ سکتی ہے کہ مہاجرین عورتوں کو بھی اپنے مہاجر درجے کو منتقل کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ ، جب تقریبا 40 سالوں میں ، آخری اصلی ہدایتی فلسطینی مر گیا، جبکہ جعلی - مہاجرین کے پھلنے پھولنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ پس کیا " فلسطینی مہاجرین" کا معیار اس طرح غیر واضح طور پر بڑھتا رہے گا۔ اس کو ایک مختلف نقطے سے دیکھیں جیسے کہ مڈل ایسٹ فورم کے سٹیون جے۔ روسن غور کرتا ہے، اینراء کے لیے ایک معیار پیش کرتا ہے کہ بالاآخر تمام انسان فلسطینی مہاجرین ہونگے۔"
کیا فلسطینی مہاجروں کا مقام صحت افزاء ہو گا ، یہ لامحدود توسیع فہ بامشکل ہی کوئی معنی رکھتی ہے۔ لیکن یہ مقام دو پارٹیوں کے لیے تباہ کن اثرات رکھتا ہے: اسرائیل ،جو کہ افراد کے ایک طبقے کی طرف سے غارت گری سے دوچار ہے، جن کی زندگیاں مقطوعہ ہیں اور اپنے آباؤاجداد کے گھروں میں واپس جانے کے ناممکن خواب کی وجہ سے مسخ ہو چکیں ہیں ؛ اور "مہاجرین" بذات خود ، جن کی حثیت ایک ثقافتی انحصاری ، شکایات، غم و غصہ، کی دلالت کرتی ہے اور جو کہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
ایک بڑی چابی ( جس کو دنیا کی سب سے بڑی چابی کہا جاتا ہے) جو کہ بیت اللحم میں عائدہ مہاجرین کیمپ کے داخلی دروازئے کے اوپر لٹک رہی ہے، جو کہ رہائشیوں کو یاد دلواتی ہے کہ وہ " اپنے واپسی کے حق " کے لیے اصرار کریں۔ |
دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے دیگر تمام مہاجرین بہت طویل عرصے سے پہلے ہی آباد ہو چکے ہیں ( جن میں میرئے اپنے والدین بھی شامل ہیں ) ؛ فلسطینی مہاجرین درجے کو بھی بہت پہلے سے ہی بہت طویل عرصے تک برداشت کیا جا چکا ہے اور اس سے پہلے کہ مزید نقصان ہو اصل مہاجرینوں کو صراحت سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔