اس بات کا کیا مطلب ہے کہ محمد مورسی مصّر کے صدر ہیں؟ امریکی اتفاق رائے کے بارئے میں بات کرتے ہوئے بریٹ سٹیفنز نے وال سٹریٹ جرنل میں تسلی کے خلاف حالیہ دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اخوان المسلمون کی فتح " محض ایک علامتی حثیت رکھتی ہے، جبکہ اس کے بعد بھی فوجیں بندوقیں رکھتا ہے۔" وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ " مصّر نقصان کی طرف جا رہا ہے۔"
ہم اس کے برعکس بحث کریں گے: انتخابات صرف علامتی نہیں تھے بلکہ دھوکہ دہی پر مشتمل تھے ، اور مصّر کا مستقبل زیادہ تمسخر کا شکار رہے گا۔
مورسی مصّر میں بہت زیادہ طاقتور سیاست دان یا چیف کمانڈر نہیں ہے، بلاشبہ ، یہاں تک کہ اخوان المسلمون کے لیے کام نہیں کرتا ۔ اس کی نوکری غیر واضح ہے۔ فوج اس کو آسانی سے ایک طرف کر سکتی ہے۔ 1954 ء کے بعد پہلی دفعہ ، مصّر کا صدر ایک ثانوی شخصیت ہے، جتنے عرصے تک وہ وزیراعظم سے منسلک رہے گا وہ ایک اہل کار کی حثیت کا کردارء اداء کرئے گا۔
مورسی اور طنطاوی کی ایک تصویر ان کے تعلقات کی شرائط کو ظاہر کر رہی ہے: نہ صرف طنطاوی دائیں جانب بیٹھا ہوا ہے، جہاں پر سابق مصّری صدر ( ناصر، سادات، حسنی مبارک ) بیٹھتے تھے رسمی انداز میں ان کی ملاقات کا انعقاد وزارت دفاع میں کیا جاتا تھا، نہ کہ صدارتی محل میں ، یہ پروٹوکول وہ ہے جس کی عام طور پر ضرورت پڑتی ہے۔ |
محمد طنطاوی مصّر کا ایک حقیقی حکمران ہے۔ مسلح فوج کی سپریم کونسل ( ایس- سی- ائے-ایف )، فیلڈ مارشل ، اور دفاع کے وزیر، وہ نہ صرف چیف کمانڈر کی بلکہ تمام مصّر کی سرکاری شاخوں کے ایک مؤثر سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دئے رہے ہیں طنطاوی ایک آمر ہے جس کے پاس تقریبا تمام اختیارات ہیں۔ فوجی حکومت کے چیف نمائندئے کے طور پر جو کہ 2011 ء کے بعد سے مصّر پر حکومت کر رہا ہے، مستقبل میں فوج کی حکمرانی کو ایک غیر معینہ مدت تک بڑھانا ان کا مشن ہے، اس سے افسران کو بالائی آمدنی اور مراعات کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے۔
ایس- سی- ائے-ایف اخوان المسلمون اور دیگر قائم مقام کا اپنے شہری محاذوں کے طور پر فائدہ اٹھاتی ہے، ایک ایسا کھیل جس کو کھیل کر وہ خوش ہیں۔ اسلام پسندوں کی طرف سے اجازت حاصل کر کے وہ پارلیمانی ووٹ کی ایک غیر معمولی فیصد تعداد حاصل کریں ، تب وہ صدارت جیت سکتے ہیں ۔ صدارتی ووٹ کا اعلان کرنے سے پہلے متشبہ ایک ہفتے – کی مدت کے دوران، ایس- سی- ائے-ایف نے اخوان المسلمون کے حقیقی رہنماء خیرات اللہ الشاطر سے ملاقات کی، اور ایک ایسے معاہدئے تک پہنچے جس کے تحت مورسی صدر بنیں گے لیکن پھر بھی کنٹرول ایس- سی- ائے-ایف کا ہو گا۔
ایس- سی- ائے-ایف کی طاقت کو سمجھنے کے لیے ، تین اقدامات پر غور کریں جو اس نے صدارتی انتخابات کے ساتھ مل کر کیے :
مارشل لاء کا نفاذ: 13 جون کو وزیر انصاف نے جنرل اینٹیلی جنس سروسز اور ملٹری پولیس کو یہ اختیار دیا کہ اگر عام شہری ایس- سی- ائے-ایف، پولیس یا ان کے اسلام پسند پراکسی کے خلاف کسی بھی قسم کی تحریری یا فنکارنہ مخالفت کریں تو انھیں اپنی مرضی سے گرفتار کریں اور انھیں چھ ماہ کے لیے جیل میں بند کر دیں یا انھیں اداروں کے خلاف گلیوں میں احتجاج کرنے کے نتیجے میں انھیں عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
پارلیمینٹ کی تحلیل:اس بنیاد پر کہ نومبر 2011 – جنوری 2012ءکے پارلیمانی انتخابات نے،آئین کی خلاف ورزی کی ( جس نے " انفرادی " نشستوں پر پارٹی کے امیدواروں کو کام کرنے سے روک دیا )، فروری 2012 ء میں سپریم انتظامی عدالت نے ان کی حکومت کو نااہل قرار دئے دیا ۔ 14 جون کو ایس- سی- ائے-ایف نے اس فیصلے کی منظوری دیتے ہوئے سپریم آئنیی عدالت کا کنٹرول سنبھال لیا اور پارلیمینٹ کو توڑ دیا۔ ماضی پر نظر ڈوڑاتے ہوئے ، ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ایس- سی- ائے-ایف جو کہ ان انتخابات کی نگرانی کر رہی تھی، جان بوجھ کر اسلام پسندوں کو اجازت دی کی کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کریں تو اس طرح ان کو اپنی مرضی سے مصّر کی فریب زدہ پارلیمینٹ کو توڑنے کا بہانہ مل جائے گا۔
مارشل لاء کے لیے بنیاد فراہم کر کے اسے قائم کرنا: 17 جون کو ایس- سی- ائے-ایف نے ایک آئینی بیان جاری کیا جو کہ باضابطہ طور پر اس کی 60 – سالہ پرانی فوجی حکومت کو مزید طول دینے کے ارادئے کو ظاہر کرتا ہے۔ آڑٹیکل نمبر 3\52 یہ بیان کرتا ہے کہ داخلی بدامنی کا سامنا کرتے ہوئے " صدر ایس- سی- ائے-ایف کی اجازت سے سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے اور عوامی مقامات کو بچانے کے لیے – مسلح فوج کو براہ راست حکم جاری کر سکتا ہے۔" ایک مکمل فوجی قبضے کی بنیاد کے لیے شائد ہی بہت کھلم کھلا اس پر زور دیا جا سکتا ہے ؛ تحلیل شدہ پارلیمینٹ کا دوبارہ قیام کرنے کا مورسی کا منصوبہ اس طرح کی کاروائی کے لیے ایک جواز پیش کر سکتی ہے۔
مورسی نے سپریم آئنیی عدالت کے سامنے اپنے عہدئے کا حلف اٹھایا نہ کہ پارلیمینٹ کے سامنے ایس- سی- ائے-ایف نے ایک اور علامتی کامیابی حاصل کی ۔ |
اگر غیر ملکی ایس- سی- ائے-ایف کے طاقتور کھیل کو بہت حد تک نہیں دیکھ سکتے ، جبکہ مصّری اس کو ایک وسیع پیمانے تک تسلیم کرتے ہیں ۔ لبرل اپریل 6 یوتھ موومنٹ اس حالیہ کاروائی کو " ایک نرم فوجی بغاوت " کہتے ہیں۔ صحافی زینب عبدالماجد سختی سے یہ نوٹ کرتی ہیں کہ " ان دنوں منصفانہ 'انتخابات' کے ذریعے سیاسی بغاوت کی جارہی ہے ۔" ہیومن رائٹس سٹڈیز قاہرہ انسی ٹیوٹ کے زید عبدالتواب اس پارلیمانی تحلیل کو " ایک کھلم کھلا بغاوت " کہہ کر پکارتے ہیں۔ ایک مصّری اخبار مورسی کو " اختیارات کے بغیر صدر" کہتا ہے، جبکہ ایک اسلام پسند اس کا موازنہ برطانیہ کی ملکہ الیزبتھ دوئم کے ساتھ کرتا ہے۔
ایس- سی- ائے-ایف اس جمود کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کے تحت فوجی افسران اچھی زندگی سے لطف اندوز ہونگے اور ملک کے باقی لوگ ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خدمات سرانجام دیں گے۔ مورسی کو مصّر کا ظاہری صدر بناتے ہوئے چالاکی سے اسے اس بوجھ تلے دبا دیا کہ وہ ملک کے اقتصادی مسائل کو بگاڑنے کا ذمہ دار ہے لیکن ایس- سی- ائے-ایف کی چالیں عظیم خطرات سے دوچار ہیں اور ان کا الٹا اثر ہو سکتا ہے، ایک عوام کے لیے جو ان مظالم اور پسماندگی سے تنگ آچکی ہے جو کہ اس ہی کے ساتھ زیادہ خود اس کا حل چاہتے ہیں اگلا دھماکہ 2011 ء کے شروع میں ہی اٹھنے والی بغاوت کو کم کردئے گا۔
اگلے دھماکے سے بچنے سے مدد کرنے کے لیے، مغربی حکومتوں کو ایس- سی- ائے-ایف کو دبانے کے لیے پالیسی اختیار کرنی چاہیے آہستہ آہستہ اصلی سیاسی شمولیت کے اضافے کو اجازت دینی چاہیے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔