بہت حیرت کی بات ہے کہ، اناپولیز میٹینگ اور ایک کمزور اسرائیلی وزیراعظم کی غلط فہمیوں کے امتزاج سے کچھ مفید باتیں ابھر کے سامنے آئیں ، ایہود ( " امن مراعات کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے ") اولمرٹ۔ اپنے پیش رؤوں کے ساتھ تعلق توڑ کر، اولمرٹ نے بہت دلیری سے یہ مطالبہ کیا کہ اس کے فلسطین سوداباز شراکت دار اسرائیل کے مستقل وجود کو ایک یہودی ریاست کے طور پر قبول کر لیں، اس لیے اسے ایک چونکا دینے والا ردعمل ابھر کر سامنے آیا۔
اولمرٹ نے 11 نومبر کو اعلان کیا ، جب فلسطینی اسرائیل کو ایک "یہودی ریاست" کے طور پر تسلیم نہیں کر لیتے ، اناپولیز سے متعلق مذاکرات آگے نہیں بڑھیں گے۔ " میں کسی بھی طرح یہودی ریاست کے ایشو پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ یہ ہماری فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کے لیے ایک شرط ہو گی۔"
امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کے ساتھ ( بائیں طرف ) پی – ایل- او- مذاکرات ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ صائب ارکات۔ |
انھوں نے ایک دن بعد ہی ان باتوں کی تصدیق کر دی ، " اسرائیل کو یہودی لوگوں کے لیے ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے " کی وضاحت کی جو کہ "تمام مذاکرات کے لیے ایک نقطہ آغاز تھا ہمیں پوری دنیا میں کسی کے ساتھ بھی اس حقیقت پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسرائیل یہودی لوگوں کی ریاست ہے۔ انھوں نے بیان دیا کہ فلسطینی رہنماؤں کو ہر صورت اسرائیل کے ساتھ ایک یہودی ریاست کے طور پر امن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ "
اس موضوع کے ابھرنے کی بدولت عرب – اسرائیل تنازعے کا مرکزی موضوع کیا ہے آخرکار اس پر توجہ مرکوز کی گئی – جو کہ صہونیت ہے، یہودی قوم پرست تحریک ، ایک موضوع جو کہ مذاکرات کی افراتفری میں نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ تقریبا ریاست کی پیدائش کے بعد سے ہی ، یہ سرحدوں، فوجیوں کی تعیناتی، اسلحہ اور ہتھیاروں پر کنٹرول ، مقدسات، قدرتی وسائل، رہائشی حقوق، سفارتی نمائندگی ، اور خارجہ تعلقات جیسے ذیلی مسائل کی پیچیدگیوں پر فوکس کرتے ہیں۔
فلسطینی رہنماء فوری طور پر ایک کامل یقین سے اولمرٹ کے مطالبہ کا جواب دیتے ہیں:
- ناصرہ میں ہائر عرب مانیٹرینگ کمیٹی نے متفقہ طور پر فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم نہ کریں۔
- سلام فیاد، فلسطینی اتھارٹی کا " وزیراعظم ":" اسرائیل جیسے چاہے اپنی وضاحت کر سکتا ہے، لیکن فلسطینی اسے ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کریں گے۔
- یاسر عابد ربو فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کی ايگزیکٹیو کمیٹی کے جنرل سیکرٹری : یہ مسئلہ فہرست بنانے کے لیے نہیں ہے ؛ اس کو داخلی [ اسرائیلی ] استعمال کے لیے بڑھایا گیا ہے۔ "
- صائب ارکات، پی – ایل- او- مذاکرات ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ : فلسطینی اسرائیل کی یہودی شناخت کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک موجود نہیں ہے جہاں مذہبی اور قومی تشخص آپس میں باہم مربوط ہو۔"
ارکات کی عمومیت میں تجسس اور انکشاف دونوں باتیں موجود ہیں۔ نہ صرف 56 ریاستیں ایسا کرتیں ہیں اور پی – ایل- او اسلامی کانفرس کی آرگنائزیشن سے تعلق رکھتی ہے، لیکن ان میں بہت سی ، پی – ایل- او سمیت ، قانون سازی کے لیے شریعت ( اسلامی قانون ) کو اپنا اہم اور واحد ذریعہ سمجھتیں ہیں۔ یہاں تک کہ سعودی عربیہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا ہر ماتحت مسلمان ہو۔
مزید یہ کہ مذہبی- قومی گٹھ جوڑ بہت منظم طریقے سے مسلمان ممالک کے باہر تک پھیل چکا ہے۔ آرجینٹینا قانون، بوستان گلوب کے جیف جیکوبی اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ، مینیڈیٹ حکومت رومن کیتھولک عقیدئے کی حمایت کرتی ہے۔ ملکہ الیزبتھ دوئم انگلینڈ کی چرچ کی سپریم گورنر ہے۔ بھوٹان کی ہمالیہ ریاست میں، آئین یہ دعوی کرتا ہےکہ بدھ مت قوم کا ثقافتی ورثہ ہے،۔۔۔۔۔۔ ، یونان میں موجودہ مذہب ، یونانی آئین کے سیکشن دوئم کو بیان کرتا ہے ، کہ " مشرقی آرتھوڈکس مسیح کی چرچ ہے۔ "
پھر کیوں یہ فرضی اصول اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں؟ شائد کیونکہ پی – ایل – او ابھی تک اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
میرئے استعمال کیے گے لفظ " خاتمے " پر غور کریں ، نہ کہ تباہ کرنا۔ جی ہاں، مخالف صیہونی اب تک جمال عبدالناصر سے کہ " یہودیوں کو سمندر میں پھینک دیا جائے " محمود احمدی نژاد تک کہ" نقشے پر سے اسرئیل کا صفایا کرنا ضروری ہے " نے بنیادی طور پر ایک فوجی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ لیکن اسرائیل ڈیفنس فورسز کی طاقت نے مخالف – صیہونیت کی جانب ایک زیادہ بہتر نقطہ نظر سے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی یہودی خاصیت کو ختم کیا گیا۔ مخالف – صیہونیی نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بہت سے طریقوں کو اختیار کیا۔
آبادیات : فلسطینی اسرائیل کی یہودی آبادی پر غالب آ سکتے ہیں ، ان کی " واپسی کے حق " کے لیے ایک مطالبے کی طرف سے پر مقصد اشارہ یا ان کی طرف سے نام نہاد " رحموں کی جنگ "۔
سیاست : اسرائیل کے عرب شہری بہت شدت سے ملک کی ، یہودی خاصیت کو مسترد کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے ایک دو قومی ریاست بنایا جائے۔
دہشت گردی ؛ ستمبر 2000 ء سے لے کر ستمبر 2005 ء ، اس مدت کے دوران ایک ہفتے 100 فلسطینی حملے جو کہ اقتصادی بحران کو بڑھانے، ہجرت اور صلح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
علیحدگی : اقوام متحدہ کی تمام وہ قراردادیں، ادارتی مذمتیں، اور کیمپس جارحیت صرف اور صرف صیہونی جذبے کو شکست دینے کے لیے کی جاتیں ہیں۔
اسرائیل کی یہودی خاصیت کو تسلیم کرنا عرب کی اہم ترین سفارتی ترجیحات میں ہونی چاہیے۔ جب تک فلسطینی باضابطہ طور پر صیہونیت کو تسلیم نہیں کر لیتے ، تب تک اسرائیل کے خاتمے کے لیے ان کی مختلف قسم کی حکمت عملی کا تعاقب کر کے انھیں ختم کرنا چاہیے ، مذاکرات کو روک دینا چاہیے اور دوبارہ شروع نہیں کرنا چاہیے۔ تب تک یہاں بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔