جیسے کہ شامی حکومت اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے تیزی سے مایوس کن اور شیطانی کوشیش کر رہی ہے ، لیبیا ماڈل پر کم یا زیادہ ، فوجی مداخلت کے لیے درخواست ،جس پر وہ مزید باضد ہو گئے ہیں ۔ اس بات کا یقین ہے کہ ، یہ راستہ اخلاقی طور پر پر کشش ہے۔ لیکن کیا مغربی ممالک کو اس نصیحت پر عمل کرنا چاہیے؟ مجھے اس بات پر یقین نہیں ہے۔
جو اسے کاروائی کا نام دیتے ہیں وہ اسے تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں؛ ایک سنی مسلمان اپنے ہم مذہبوں سے تعلق رکھتا ہے، ایک عالمگیر انسانیت تشدد اور قتل کو روکنے سے تعلق رکھتی ہے، اور ایک جغرافیائی سیاست مسلسل تنازعے کے اثرات کی وجہ سے پریشان ہے۔ پہلی دو محرکات کو کافی آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے ۔ اگر سنی حکومت – جس میں قابل ذکر ترکی، سعودی عربیہ، اور قطر کے لوگ علویوں کے خلاف اپنے سنی ساتھیوں کی جانب سے مداخلت کا انتخاب کریں، یہ ان کا پورا حق ہے لیکن مغربی ممالک کو اس لڑائی کے بارئے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔
25 – 26 مئی ، شام، ہولہ میں قتل عام کا ذمہ دار کون تھا ؟ یہاں دیکھایا گیا ہے : متاثرین کا ایک بڑئے پیمانے پر جنازہ |
عمومی طور پر انسانی ہمدردی کو حقیقت، امکانات ، اور نتائج جیسے امکانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مخالف – باغی ، جو کہ میدان جنگ میں جیت حاصل کر رہے ہوتے ہیں، کم از کم کچھ مظالم کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ مغربی انتخابات ، خون اور ہرجانہ جو کہ انسانی ہمدردی کے لیے ضروری ہے کو قبول نہیں کر سکتے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سال کے اندر اندر یہ یقینی طور پر تیزی سے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ نئی آنے والی حکومت ( جیسے کہ لیبیا کے معاملے میں ) موجودہ مطلق العنیات کی نسبت بہت زیادہ بدتر نکلتی ہے۔ ایک ساتھ مل کر یہ عوامل انسانی بنیادوں کی مداخلت کے خلاف مجبوری کی دلائل پیش کرتے ہیں۔
خارجہ پالیسی کے مفادات کو اولین ترجیح دینی چاہیے کیونکہ مغربی اتنے مضبوط اور محفوط نہیں ہیں کہ وہ صرف شام کی طرف دیکھ سکیں جو کہ شامیوں کے لیے باعث تشویش نہیں ہے ؛ انھیں ملک کو حکمت عملی کے لحاظ سے دیکھنا چاہیے ، ان کو اپنی سیکورٹی کو اولین ترجیج دینی چاہیے۔
اسماء اور بشر الاسد ایک اچھے وقتوں ميں۔ |
واشنگٹن انسیٹیوٹ فار نئیر ایسٹرن پالیسی کے روبرٹ سٹل آف نے مدد گارانہ طور پر دی نیو ریپبلیک میں ان وجوہات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں کہ شام کی خانہ جنگی کو امریکی مفادات کے لیے کیوں خطرناک سمجھا جاتا ہے : اسد حکومت اپنے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کا کنٹرول کھو چکی ہے ؛ یہ انقرہ کے خلاف پی- کے- کے کی بغاوت کو دوبارہ ایک نیاء رنگ دئے سکتی ہے یا اسے ابھار سکتی ہے ؛ اردنی ، لبنانی، اور اسرائیلی سرحدوں کے پار فلسطینی آبادی کو دھکیل کر تنازعے کوعلاقائی حد تک محدود کر سکتے ہیں ، اور لبنان کے سنیوں سے لڑائی کرتے ہوئے لبنان کی خانہ جنگی کو دوبارہ فروزاں کر سکتے ہیں ۔ اس کے جواب میں ، سنی جہادی جنگجو، متشدد اسلامی دہشت گردی کی عالمی گٹھ جوڑ کر کے شام کو تبدیل کر سکتے ہیں ۔ ایک ہی سرحد سے ملحق نیٹو اور اسرائیل – آخر کار ، وہ اس بات کے بارئے میں پریشان ہیں کہ ایک طویل تنازعہ اسلام پسندوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے بانسبت کسی ایک کو جو اس کو فوری طور پر ختم کر سکے ۔
اردنی سلفی رہنماء ابو محمد تہاوی علویوں اور شیعوں کے بارئے میں کہتا ہے کہ وہ – اسرائیلی نہیں ہیں – جو کہ سنیوں کے لیے بہت خطرہ ہیں۔ |
جس کے جواب میں نے کہا : جی ہاں، ڈبلیو- ایم- ڈی- ایس مزید سرکش ہو سکتی ہے لیکن میں ایک اسلام پسند جانشین حکومت کے ہاتھوں ان کے خاتمے کے بارئے زیادہ فکر مند ہوں ۔ ایک نئے سرئے سے پی- کے- کے کی دشمن حکومت کے خلاف بغاوت جو کہ ترکی میں حکمرانی کر رہی ہے یا اس ملک میں سنی – علوی تناؤ میں اضافہ ، بامشکل ہی اہم مغربی خدشات کی درجہ بندی کر سکتا ہے۔ فلسطینیوں کو باہر نکال دینا بامشکل ہی اردن یا اسرائیل کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ لبنان پہلے سے ہی ایک ناامید مصیبت میں ہے، اور، 1976- 91 کے دور میں مخالفت کی گی ، وہاں اندرونی لڑائیاں ابھی بھی جاری ہیں جو کہ مغربی مفادات کو بہت معمولی حدتک متاثر کرتی ہیں ۔ عالمی جہادی مشقیں محدود وسائل کی حامل ہیں۔ وہ مقام آئیڈیل ہونے کی نسبت کم ہے لیکن تب اس کے مقابلے میں ( ایران کے ایرانی انقلابی گارڈ دستے ) پاسدران کے ساتھ لڑائی کرنا بہتر ہو گی؟
جیسے کہ وقت مغربی مفادات کے خلاف چل رہا ہے : یہاں تک کہ اگر شامی تنازعہ فورا ختم ہو جاتا ہے ۔ میں ایک کثیر – نسلی اور کثیر – اعترافی حکومت کے ابھرنے کے امکانات کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ چاہے جلدی یا بعد میں ، اسد اور اس کی پیاری بیوی کے روپوش ہو جانے کے بعد ، اس بات کا امکان ہے کہ اسلام پسند اقتدار پر قابض آ جائیں گے، سنی انتقام لیں گے ، اور شام کے اندر علاقائی تناؤ کو استعمال کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ اسد حکومت کا تختہ الٹنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ شام کی خانہ جنگی ختم ہو جائے گی ۔ مزید امکان یہ ہے کہ اسد حکومت کے زوال کے نتیجے میں علوی اور دیگر ایرانی – حمایتی عناصر نئی حکومت کے خلاف مزاحمت کریں گے ۔ مزید براں ، جیسے کہ گرئے گیمبل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مغربی فوجی مداخلت نئی حکومت کے لیے اپوزیشن کی حوصلہ افزائی کرئے گی اور اسطرح لڑائی طویل ہو جائے گی ۔ آخر میں
( جیسے کہ عراق کے معاملے میں ہوا تھا ) ، شام میں طویل تنازعہ کچھ جغرافیائی اور سیاسی فوائد کی پیشکش کرتا ہے:
- یہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنے یا لبنان یا دمشق کے دوبارہ قبضہ کرنے کے امکانات کو بہت کم کر دیتا ہے۔
- یہ اس بات کے امکانات کو بڑھاتی ہے کہ، ایرانی ملاؤں کے زیر تحت رہیں گے جو اسد کے اہم اتحادی ہیں ، جو کہ شامی بغاوت کی طرف سے تحریک کو اپنی طرف متوجہ کر لیں گے اور اسی طرح باغی اپنے حکمرانوں کے خلاف۔
- یہ تہران پر سنی عربوں کے شدید غصّے کو تیز کر دئے گا ، خاص طور پر جب اسلامی جمہوریہ ایران شامیوں کو کچلنے کے لیے اسلحہ، فنانس اور ٹیکنالوجی فراہم کرئے گا۔
- یہ غیر مسلمانوں پر دباؤ کو کم کرئے گا : نئی سوچ کی نشاندہی ، اردی سلفی رہنماء ابو محمد تہاوی یہ بیان دیتے ہیں کہ " علوی اور شیعہ اتحادی فی الحال سنیوں کے لیے اسرائیلیوں سے بھی زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔
- یہ اسد حکومت کی حمایت کے لیے ماسکو اور بیجنگ پر مشرقی وسطی کے غیظ و غضب کو ترغیب دئے گا۔
مغربی مفادات شامی دلدل سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔