9 جون کو اتحادیوں نے موصل پر قبضہ کر لیا عراق کے دوسرئے بڑئے شہر پر اپنا قبضہ حاصل کر لیا، مال غنیمت کی صورت میں ہتھیاروں کی ایک بڑی تعداد ، سونے کی صورت میں امریکی 249 $ ، تکریت، سمارا، اور شائد بغداد کے شہر کو فتح کرنے کے لیے ایک اوپن راستہ۔ عراقی کردوں نے کرکوک پر قبضہ کر لیا ۔ 2010 ء میں عربوں کا انقلاب شروع ہونے کے بعد سے یہ مشرق وسطی میں ہونے والا اہم ترین واقعہ ہے۔
علاقائی خطرہ : عراق اور شام میں اسلامی ریاست ( آئی – ایس – آئی – ایس ) ، ایک نامزد دہشت گرد گروپ، اردن سے شروع ہوتےہوئے ، شام اور عراق اور شائد اس سے بھی آگے سرحدوں کو پھیلاتے ہوئے یہ ان دو نو آبادیاتی تخلیقات کے درمیان تقریبا ایک صدی پرانی سرحد کو مٹا سکتے ہیں اور ایک واحداتی ریاست کے طور پر ان کا خاتمہ کر سکتے ہیں ، اس لیے مشرق وسطی کے سیاسی نظام کو کالعدم قرار دئے دیا گیا جیسے کہ یہ پہلی جنگ عظیم سے ابھر کے سامنے آیا تھا۔ بجا طور پر امریکی حکومت آئی – ایس – آئی – ایس کو " پورئے خطے کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ "
عراق اور شام میں اسلامی ریاست کے کنٹرول کے تحت شہروں کے ساتھ نقشہ۔ |
غیر متوقع طاقت : ان واقعات نے اسلام ازم کی انتہائی شدید اور متشدد شکل کو تشکیل دیا ، جیسے کہ القاعدہ اور دوسرئے گروپوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے، جو کہ گوریلا جنگجو بنانے کے لیے دہشت گردی سے بھی آگے نکل سکتے ہیں جو علاقوں کو فتح کرنے اور حکومت کے لیے چیلنج ہیں۔ اس میں آئی – ایس – آئی – ایس نے افغانستان میں طالبان، صومالیہ میں الشباب ، شام میں النصرہ فرنٹ، مالی میں انصار دین اور نائجیریا میں بوکو حرم کو شامل کیا۔
القاعدہ کے پرچم کے ساتھ ایک خودکش بمبار ( " یہاں کوئی معبود نہیں ، سوائے خدا کے، محمد خدا کے رسول ہیں " ) اور دونوں طرف نیچے اور اوپر دائیں طرف " عراق اور شام میں اسلامی ریاست " |
مسلمان اسلام ازم سے نفرت کرتے ہیں: آئی – ایس – آئی – ایس کی وحشیانہ شہرت کا شکریہ جو کہ شام، اس کے اپنے دارالحکومتی شہر رقاء ، اور کہیں بھی قائم ہوئی ، ایک اندازئے کے مطابق موصل کی ایک چوتھائی آبادی جو کہ تقریبا 2 ملین ہے وہ فرار ہو گئے۔ آئی – ایس – آئی – ایس کے مظالم کا حالیہ دور مزید لاکھوں مسلمانوں میں اسلام ازم کے لیے ایک نئی نفرت کو پیدا کرئے گا۔
فرار ہونے والے موصل کے رہائشی علاقوں کو سڑکوں اور پارکنگ لاٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ |
یقینی مایوسی : تاہم ، اس لیے القاعدہ کی قسم کی تنظیمیں مال اور جان کو نقصان پہنچا سکتیں ہیں، یقینی طور پر وہ ایک فاتح بن کر نہیں ابھر سکتے ( جس کا مطلب یہ ہے کہ ، ایک خلیفہ اس کی مکمل اور شدت سے اسلامی قوانین کا اطلاق کرتا ہے ) کیونکہ ان کی گہری انتہاء پسندی دونوں نے مسلمانوں کو الگ تھلگ کر دیا اور غیر مسلمانوں کو خوفزدہ کر دیا ۔ آخر میں اسلام ازم کی تشکیل کی محتاط حکمت عملی ( مثال کے طور پر جو فتح اللہ گولن نے ترکی میں کی ) بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے لیے ایک سرحدی پٹی کی درخواست کرتے ہیں اور غیر مسلمانوں کے لیے کم فکر مند ہیں ۔
سنی بمقابلہ شیعہ : آئی – ایس – آئی – ایس کی فوج نے براہ راست ایران کی حامی حکومت ، عراق کی شیعہ اکثریت کو ایک پیشگی دھمکی دی ہے ۔ تہران اس کے زیر تحت جانے کی اجازت نہيں دیتا : اس کے مطابق ایرانی طاقتیں پہلے سے ہی تکریت پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے مدد کر رہیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ ایرانیوں کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ شام کی خانہ جنگی میں نسلی بنیادوں کے چربے کی طرف اشارہ کرتی ہے، ترکی حمایت یافتہ سنی جہادیوں کے ساتھ جو کہ ایک ایرانی حمایت یافتہ ، شعیوں پر مبنی حکومت کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ جیسے کہ شام میں ، اس طرح مغربی مفادات کو سر انجام دیتے ہوئے ، یہ تصادم ایک انسانی تباہی کی طرف چلا گیا یہاں تک کہ اس نے اسلام پسندوں کو ایک دوسرئے کے خلاف کر دیا۔
موصل ڈیم لومز : 1980 ء میں سعودیہ اور دوسرئے عربوں نے موصل کے شمال مغرب میں تقریبا 35 میل کے فاصلے پر دریائے دجلہ پر ایک غیر تسلی بخش عجلت میں تیار کیے گئے ڈیم کے لیے فنڈز فراہم کیے ۔ غیر معیاری تعمیر کا مطلب ہے کہ یہ قطرہ قطرہ بن کر بہہ جائے گا اور زور دار دھماکے سے منہدم ہونے سے بچانے کے لیے مستقل طور پر چونا ، گارا، کنکریٹ اور دیگر مہنگی اقدامات کی ضرورت ہو گی ۔ کیا آئی – ایس – آئی – ایس کا یہ تیز مزاج طرز عمل اس کی مرمت کے کام کو جاری رکھے گا؟ یا وہ اس پر سے ٹکڑاتے ہوئے گزر جائے گا ، تو اس لیے نہ صرف موصل کو خطرہ لاحق ہے بلکہ عراق میں رہنے والے بہت سے لوگوں کو تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑئے گا؟
امریکی ناکامی : ہمیشہ کی طرح بہت زیادہ واضح آئی – ایس – آئی – ایس فورسز کی کامیابی نے عراق پر امریکی حملے کے نتیجے میں حد سے زیادہ جرآت مندانہ مقاصد کو اجاگر کر دیا ( اور اسی طرح افغانستان میں ) ، جس کا ہرجانہ ہزاروں مغربی جانیں اور ٹریلین سے بھی زیادہ ڈالر ہیں۔ امریکی زیر اہتمام اداروں میں 53 بلین ڈالر کے تصور کا سامنا کرنا ، ناکام ہسپتالوں سے عراقی قومی سمفنی تک، اس کی ناکامی کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ آئی – ایس – آئی – ایس کے فوجی فاتح بن کر اوپر کھڑئے ہیں امریکی فراہم کردہ فوجی ہتھیاروں کو گھر واپس لایا گیا " ایک مستحکم ، جمہوری اور خوشحال عراق " کے لیے ایک اعلی امریکی امیدوں کی حماقت۔
عراق سکیورٹی کی حکومت نے آئی – ایس – آئی – ایس سے بچنے کے لیے اپنے یونیفارم پھینک دئیے۔ |
جمہوریت پسند : جمہوریت پسندوں نے غیر منصفانہ طور پر آئی – ایس – آئی – ایس کی فتوحات کا ذمہ دار براک اوبامہ کو ٹھرا دیا ۔ نہیں جارج – ڈبلیو – بش نے عراق کو دوبارہ بنانے کا عزم کیا تھا اور انھوں نے 2008 ء میں " افواج کے معاہدئے کی حثیت " پر دستخط کیے تھے کہ 2011 ء کے اختتام پر عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو ختم کر دیا جائے۔ جمہوری پارٹی کے لیے ہے کہ وہ خارجہ پالیسی میں ترقی کریں ، یہ بہت ضروری ہے کہ ان غلطیوں کو تسلیم کیا جائے اور ان سے سبق حاصل کیا جائے ، نہ کہ اوبامہ پر الزامات کے ڈھیڑ کو ڈال کر ان سے گریز کر لیا جائے۔
ڈیموکریٹس : تین سال پہلے اسامہ بن لادن کی پھانسی انتقام کا ایک اہم علامتی قدم تھا ۔ لیکن عملی طور پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اور اب یہ وقت ہے کہ اوبامہ القاعدہ کے متعلق ڈینگیں مارنا چھوڑ دئے کہ وہ ہار گئے۔ حقیقت میں ، القاعدہ اور اس کے ساتھی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں ، جو کہ دہشت گردی سے علاقوں کو فتح کرنے کی طرف منتقل ہو چکے ہیں ۔ امریکیوں اور دوسروں کی بھلائی کے لیے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر انحصار کرنا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔
مغربی پالیسی : یہ بنیادی طور پرمشرق وسطی کا مسئلہ ہے اور بیرونی طاقتوں کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ صرف اپنے مفادات کی حفاظت کریں، نہ کہ مشرق وسطی کے بحران کو حل کریں۔ تہران ، نہیں ہمیں، آئی – ایس – آئی – ایس کے ساتھ لڑنا چاہیے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔