ترکی کے صدر ، ریسیپ طیب ایروڈگان ، کل دوپہر نیویارک کے شہر میں خارجہ تعلقات کی کونسل کی ریکارڈ تقریب میں ایک گھنٹےکی تاخیر سے پہنچے۔ مکمل – اگر یہ مکمل طور پر منظم نہیں ہے تو بیک وقت کیے گئے انگلش زبان کے ترجمہ کی نقل کو "ریسیپ طیب ایروڈگان کے ساتھ ایک گفتگو" پر ملاحظ کیا جا سکتا ہے۔ میں نے دیگر ارکان کے ساتھ اس اجلاس میں شرکت کی ( بہت سے لوگوں نے اس میں شرکت کی جس کے لیے ایک کافی بڑئے کمرئے کی ضرورت تھی) اور میں نے اس کے کچھ جوابات اور خیالات کے بارئے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ۔
خارجہ تعلقات کی کونسل میں ریسیپ طیب ایروڈگان۔ |
ریاست کے سربراہان اور حکومت کی طرف سے مہمانداروں کی ایک مناسب تعداد نے کونسل میں حصّہ لیا، ان میں سب اپنے اپنے محافظوں اور معاونین کے گروپ کے ساتھ وہاں پہنچے، لیکن ان سب میں سے جو میں نے دیکھے ،ایروڈگان ان سب کی نسبت ایک بہت بڑی تعداد پر مشتمل وفد کے ساتھ وہاں پہنچے، میرئے اندازئے کے مطابق ،ان افراد کی تعداد 35 تھی، اور تقریبا تمام نوجوان آدمی تھے جو کہ سیاہ لباس میں ملبوس تھے۔ تاہم یہ بہت بے مثال تھا، انھوں نے پہلی تین قطاروں پر نشستیں سنبھال لیں،جہاں وہ اپنے لیڈر کے ہر لفظ پر مسحور کن بیٹھے تھے،اگرچہ کہ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے انھوں نے ایسے الفاظ کبھی نہیں سنے۔ حتی کہ اس کے بولنے سے پہلے،اور اس کے بعد کثیرالتعداد اہلکار ایک بھر پور نعرئے جیسی بیان بازی کا اظہار کر رہے تھے۔ جیسے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کا مطلوبہ مقصد یہ ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔
طویل عرصے تک "میں یہود مخالف نہیں ہوں" صرف مقابلہ کرنا ہی اطمینان کا باعث تھا جو کہ خاص طور پر نیویارک کے ناظرین کے لیے تیار کیا گیا تھا: "مجھ یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ بعض اوقات میرئے ملک کو ،خود مجھے، اور میرئے ساتھیوں کو یہود مخالف کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔"
جیسے کہ انھوں نے یہود مخالف چھاپ لگنے کے بارئے میں بات چیت کی،میں تسلیم کرتا ہوں کہ براہ راست ایروڈگان کے سامنے بیٹھے ہوئےبات چیت کرنے کا فائدہ اٹھاؤں گا، بالکل اس کے سیاہ لباس میں ملبوس نوجوانوں کی قطاروں کے پیچھے اور میں سارا وقت یہ سوچتے ہوئے پرزور طریقے سے اپنا سر اس بات کی حمایت میں ہلاؤں گا کہ میں استنبول کی نسبت نیویارک میں رہنے میں خوشی محسوس کرؤں گا۔
شائد سب سے دلچسپ دلیل یہ تھی کہ جب تک سلطنت عثمانیہ کی حکمرانی رہی تو سب کچھ بہت اچھے طریقے سے چل رہا تھا اور 1923 ء میں اس کے خاتمے کے بعد تمام حالات بگڑ گئے۔ " عثمانی ریاست ایک بہت کامیاب نظام کی حامل تھی، اور صدیوں تک یہ علاقے اپنے وجود کو بغیر کسی مسئلے کے برقرار رکھے ہوئے تھے، جو کہ آج بحران کا شکار ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ،عراق اور شام میں مسائل، کریمیا،بلقان، ان سب کے مسائل سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد پیدا ہوئے۔
عام طور پر جب اجلاس میں سوال پوچھنے کا وقت دیا جاتا ہے تو یہ مخصوص قسم کی دلچسپی پیدا کرتا ہے کیونکہ اجلاس کا یہ ہی وہ حصّہ ہوتا ہے جس کو کسی نے لکھا نہیں ہوتا۔ اعتدال پسند فرید زکریا، آئی- ایس-آئی-ایس کی طرف سے رہا کیے جانے والے 49 موصل یرغمالیوں کے معاوضے کے لیے ایروڈگان نے واضح الفاظ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کی حکومت یرغمالیوں کے لیے قیدیوں کا تبادلہ کیا تھا۔ پیٹر گال برینتھ نے یہ سوال کیا کہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ترکی ایک خودمختار عراقی کردستان کو تسلیم کرئے گا، جس کا جواب ایروڈگان نے نہیں دیا، اور کہا کہ وہ عراق کی کسی بھی قسم کی تقسیم کی مخالفت کرئے گا ۔ بین الاقومی پریس انسیٹیوٹ اور صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کی جانب سے ریبوٹرز کے ہاراولڈ ایون نے ترکی میں صحافیوں کے علاج سے متعلق بات چیت کرنے کے لیے ایروڈگان سے ایک ملاقات کی درخواست کی جس کو انھوں نے فوری طور پر قبول کر لیا۔ پی- بی- ایس کے مارگریٹ وارنر نے یہ سوال کیا کہ شام اور عراق میں غیر ملکی جہادیوں کے بہاؤ کو روکنے کے لیےترکی کس قسم کی کوشش کر رہا ہے، جس کے بارئے میں ایروڈگان نے بہت معصوم بنتے ہوئے یہ جواب دیا کہ حکومت کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ کر رہی ہے ۔ حتی کہ اس نے اپنی توہین کا اعتراف کیا جب، ورنر نے پر زور طریقے سے شام کے ساتھ ترکی کے غیر محفوظ سرحد کے بارئے میں سوال کیا۔
تب میں نے خود سے ایک سوال کیا :" کہ آپ کی حکومت اپنے وزیراعظم کے تحت اپنے ہمسائیہ ممالک کے ساتھ زیرو مسائل کی درینہ پالیسی رکھتی ہے۔" جو کہ اب ناکام ہو چکی ہے کیا اس علاقے کے لیے آپ کے پاس کوئی نیا منصوبہ ہے؟" اس منصوبے کی ناکامی پر زور دیتے ہوئے میرا ارادہ سپیکر کو اکسانے پر تھا۔ ایروڈگان نے جواب دیا کہ " زیرو مسائل کی پالیسی ابھی بھی جاری ہے" اور پھر ترکی کی بجائے ، اس کے ہمسائیہ ممالک کی ناکامی پر زور دیا۔ اس کے تناظر میں اس نے عراق، شام اور مصّر کا ذکر کیا۔ خاص طور پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس نے مصّر کے صدر سس کے بارئے میں یژمردہ حقارت کا اظہار کیا ، جس کے بارئے میں یہوہ کہہ رہے تھے کہ "[مورسی]" کی کابینہ میں ایک فوجی [جس] نے ایک بغاوت کا اہتمام کیا۔"
اس سب کا خلاصہ کرتے ہوئے، میری عقل ایروڈگان کو ایک جرات مندانہ اور جارحانہ عوامی پسند شخص قبول کرتی ہے، جس پر اس کی انتخابی کامیابیوں کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے اور یہ اس کے اپنے ملک کے لیے اور پوری دنیا کے لیے مسئلہ کا باعث بنے گی۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔