جب مصّر کے زیریں ایوان نے 23 جنوری کو اجلاس منعقد کیا ، اسلام پسندوں نے 72 ٪ یا 498 سیٹوں میں سے 360 سیٹیں حاصل کیں۔ تاہم، یہ عجیب و غریب اعدادوشمار، ملک کی عوامی رائے کو کم ظاہر کرتے ہیں جبکہ یہ فوجی قیادت کے حکمرانوں کی طرف سے اقتدار میں رہنے کی ایک چال کی عکاسی کرتا ہے۔
حالیہ مضمون میں ( 6 دسمبر، "مصّر کے جعلی الیکشن ،" ) ہم نے دلیل دی کہ ماضی میں بالکل انور السادات اور حسنی مبارک کی طرح " راہ میں رکاوٹ حائل کرنے کے طور پر چالاک بااختیار اسلام پسند مغربی حمایت، اسلحہ، اور پیسا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے،" اسطرح محمد طنطاوی اور اس کی مسلح افواج کی سپریم کونسل ( ایس- سی- ائے-ایف ) "ابھی تک تھکی ماندی پرانی گیم کھیل رہے ہیں ۔"
محمد البردعی نے اس کی فریب کارانہ معیار کے متعلق شکایت کرتے ہوئے صدارتی انتخابات کو چھوڑدیا۔ |
ہم اس دعوی کے لیے تین دلائل پیش کرتے ہیں: (1 ) مقامی انتخابی دھندلی ؛ (2) ( ایس- سی- ائے-ایف ) کی اسلام پسندوں کو ایک " معاہدئے " کی پیشکش؛ اور ( 3 ) فوج کی اسلام پسند سیاسی پارٹیوں کو مراعات دینا : سات ہفتوں بعد ، مختلف قسم کی علامات کہیں بڑئے پیمانے پر ہونے والے فراڈ کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔
آزاد مصّری پارٹی، مصّر کی معروف کاسیک لبرل سیاسی پارٹی ، نے 10 جنوری کو اعلان کیا کہ انھوں نے ایوان زیریں کے انتخابات کے بارئے میں 500 سے زائد شکایات دائر کروائیں لیکن اس کے جواب میں کوئی قانونی کارؤائی نہیں کی گی۔ پارٹی کو آنے والے ایوان بالا کے انتخابات سے باہر نکال دیا گیا کیونکہ " خلاف ورزی کرنے والوں کو انتخابی فوائد سے نوازا گیا اور قانون کی پاسداری کرنے والوں کو سزا دی گی" اور ان کی منسوخی کے لیے منظوری دئے دی گی۔
محمد البردعی جو کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر جنرل ہیں ( آئی-ائے-ای-ائے ) نے 14 جنوری کو صدر کے لیے اپنی امیدواریت کو واپس لے لیا کیونکہ ان کے خیال میں یہ دھندلی زدہ انتخابات ہیں: انھوں نے اعلان کیا ، کہ " میرا ضمیر " مجھے صدارت کے لیے یا کسی بھی دوسری سرکاری پوزیشن کے لیے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا جب تک یہ ایک حقیقی جمہوری نظام کے تحت نہ ہو جائیں۔"
مصّری قومی کونسل کا لوگو۔ اس کا نعرہ : روٹی – آزادی – سماجی انصاف۔ |
البادل اخبار نے جنوری میں اپنے دسویں ایڈیشن میں یہ رپورٹ پیش کی کہ چھ پارلیمانی امیدواروں نے حکام کی ایک رینج کے خلاف سرکاری شکایات درج کروائیں اور مطالبہ کیا کہ انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے اور دوبارہ کروایا جائے۔ امیدواروں میں سے ایک ، ابراہیم کامل نامی ایک وفد پارٹی کا امیدوار ، یہ وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح اس نے سرکاری دستاویزات حاصل کیے جو یہ ظاہر کر رہے تھے کہ 40 ملین مصّریوں کے مقابلے میں کچھ ووٹ دینے کے اہل تھے، جبکہ حالیہ انتخابات 52 ملین وٹرز کو شامل کرتے ہیں، جو کہ ظاہر کر رہے ہیں کہ 12 ملین بیلٹ جعلی تھے۔ یہ اضافہ خود سے کیا گیا تھا ، وہ کہتا ہے کہ ، جائز وٹروں کے نام اور شناختی کارڈ نمبر لیے گئےاور دوسرئے انتخابی اسٹیشنوں میں 2 سے 32 دفعہ ان کی نقول تیار کی گئیں۔
ممدوح حمزہ ، مصّری قومی کونسل، ایک این – جی – او کے سربراہ ، نے بھی البادل کو اس انتخابی گڑبڑ کی تصدیق کی ، اس کی ڈبنگ کرتے ہیں، کہ " مصّری تاریخ میں فراڈ کا سب سے بڑا جرم۔ "انھوں نے مطالبہ کیا کہ ایوان زیریں کے انتخابات کو بغیر کسی توقف کے دوبارہ شروع کیا جائے۔
اس کے برعکس ، فتح یاب ہونے والے اسلام پسند، جو کہ جمہوریت کو حقیر سمجھتے ہیں، نے فراڈ کے ذریعے اپنی انتخابی کامیابی کو چھپانے کے لیے بہت کم کوشش کی۔ ان میں سے کچھ فخریہ انداز اور بغیر کسی تاسف کے اس حد تک چلے گے کہ انھوں نے دعوی کر دیا کہ بے ایمان ہونا ان کا اسلامی فرض ہے۔ طلعت زہرن ، ایک معروف سلفی جو کہ جمہوریت کو " مشرکانہ،" "مجرمانہ،" اور صیون کے عمائدین کہتے ہیں جو کہ [ عزت کے ] قابل نہیں۔ وہ سخت انداز میں مشاہدہ کرتا ہے کہ " یہ ہمارا فرض ہے کہ انتخابات کو قائم کریں ؛ خدا اس کے لیے ہمیں انعام دئے گا۔"
طلعت زہروی عربی ( نہ کہ مصّری ) لباس پہنے ، اپنے سلفی آؤٹ لک کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ |
بڑی حیرانی کی بات ہے کہ، زہرن نے طنطاوی کی بھی تعریف کی : جیسے ہم نے مبارک کو بیعا [ اسلامی وفاداری کا حلف ] دیا تھا، اب ہم ایس- سی- ائے-ایف کی حمایت کریں گے۔ اگر طنطاوی اقتدار میں رہنے کا فیصلہ کریں گے ، تو ہم اس کی آخری دن تک اس کی حمایت کریں گے۔ رپورٹس یہ ظاہر کرتیں ہیں کہ اسلام پسند اور فوجی قیادت ، فوجی خود مختاری اور 1971 ء کے آئین میں ترمیم کرنے جیسے اہم معاملات پر آسانی سے مل کر کام کر رہے ہیں۔ ان کے اس تعاون کی سمجھ آتی ہے، کہ اسلام پسند مسلم اتحاد کے لیے کوشیش کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے کافر دشمن ( خاص طور پر یہودی اور عیسائیوں ) پر مکمل طور پر توجہ مرکوز کر سکیں۔
ہاتھ میں فراڈ کے اتنے سارئے شواہد کے ساتھ، یہ ہمیں حیرانی میں ڈال دیتا ہے کہ مغربی سیاستدان، صحافی ، اور علماء کرام لگاتار نتیجہ اخذ مصّری انتخابات کے ناقص نتائج کی ایک پاپولر منظوری کو ایک جائز اظہار بیان کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔ کہاں ہیں وہ نندک صحافی جو کہ سلفیوں پر قیاس کر رہے تھے جو کہ 28 ٪ ووٹ جیتنے کے لیے کہیں سے نہ آئے؟ کیوں سخت رو تجزیہ نگار ، جو کہ فارس اور شام میں ہونے والے جعلی انتخابات کو حق پر دیکھ رہے تھے جنھوں نے " مصّری تاریخ میں فراڈ کے سب سے بڑئے جرم " پر یقین کر لیا؟ شائد کیونکہ وہ قاہرہ کی تقریبا 40 سال سے مغربی طاقتوں کے ساتھ تعاون کرنے کی بناء پر اسے ایک مہلت دئے گے ؛ یا شائد کیونکہ طنطاوی زیادہ تیزی سے قائل کرتے ہیں۔
انتخابات کے نتائج کے لیے ایس- سی- ائے-ایف کی نفرت کو دیکھتے ہوئے ، ہم خود بھی حیران ہیں کہ تجزیہ نگار یہ توقع کر رہے ہیں کہ اسے ملک کے مستقبل کے لیے برداشت کرنا پڑئے گا۔ حقیقت میں، ایس- سی- ائے-ایف نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے حالیہ انتخابات کا استحصال کیا ؛ اس ڈرامے میں اسلام پسند پیادئے ہیں نہ کہ بادشاہ۔ ہم ایک نظریاتی انقلاب کی نہيں بلکہ ایک فوجی حکام کے دستے کا ظلم کے میٹھے پھل سے لطف اندوز ہونے کے لیے اقتدار میں رہنے کی گواہی دئے رہے ہیں۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔