گذشتہ ہفتے ڈیموکرٹیک نیشنل کنونشن میں یروشلم پر ایک تنازعے کو دیکھا گیا ، اس طرح کے واقعات کے تناظر میں ، جو کہ پارٹی خفیہ طورپر بذات خود اسرائیل سے دور ہونے کے لیے اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔
4 ستمبر ، کو کہانی کھل کر سامنے آئی، جب واشنگٹن فری بیکن نے یہ رپورٹ پیش کی کہ 2012 ء کے ڈیموکرٹیک پارٹی پلیٹ فارم میں " یروشلم کا ذکر نہیں کیا گیا۔" یہ خبر بن گی کیونکہ جب سے یہ 1995 ء میں امریکی قانون بنا کہ " یروشلم کو اسرائیل کی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے ،" امریکہ کی دونوں اہم پارٹیوں کے پلیٹ فارم پر اس پوائنٹ کو دہرایا گیا۔ مثال کے طور پر، اس سال، ری پیبلیکن پلیٹ فارم نے " اس کے دارالحکومت کے طور پر اسرائیل یروشلم کے ساتھ" کا حوالہ دیا۔
ڈیموکریٹس کی خاموشی اختیار کرنے پر تیزی سے جوابات سامنے آئے: واشنگٹن پوسٹ کے جینیفر روبن نے اسے " اسرائیل کی ریاست کے قیام کے بعد سے کسی بھی بڑی پارٹی کی طرف سے اسرائیل کی پالیسی کا سب سے بڑا بنیاد پراستانہ غیر حمایت شدہ بیان کہا۔" یہودی آرتھوڈکس یونین کے نیتھن ڈایامینٹ نے اسے انتہائی مایوس کن کہا " ۔ پاؤل ریان نے اسے " غفلت بھرا المیہ " کہا۔ مٹی رؤمنی نے ( حال ہی میں بذات خود یروشلم میں کھڑئے ہو کر " یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت " کہا ) اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ پوری کی پوری ڈیموکرٹیک پارٹی نے اوبامہ کے " یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہ کرنے کے شرمناک انکار" کو قبول کر لیا۔
ڈیموکرٹیس نے بھی کوئی کم تیزی سے کام نہیں لیا ۔ اگلے ہی روز 5 ستمبر کو، ڈیموکرٹیک نیشنل کنونشن میں نمائندوں نے یہ بتایا کہ " صدر اوبامہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں اور ہماری پارٹی کے پلیٹ فارم کو بھی بہت اچھی طرح کرنا چاہیے۔" لاس اینجلس کے مئیر اینٹونیو ویلاریاگوسا نے ان سے پوچھا، کہ صوتی ووٹ کے ذریعے اسے 2 سے 1 کی منظوری دی جائے ان اصولوں کے ساتھ پلیٹ فارم میں ترمیم کی جائے، اس کے ساتھ ساتھ دیگر دوسری ترمیم بھی کی جائیں۔
ڈی-این- سی پارلیمینٹ کے رکن ہیلن ٹی۔ میکفڈن، ویلاریاگوسا کو ہدایات دئے رہے ہیں کہ " تم اقتدار حاصل کرؤ گےاور جب تم یہ کرؤ گےاور جب تم یہ کر لو تو انھیں وہ کرنے کی اجازت دینا جو وہ کرنے جا رہے ہیں۔" اس سے پہلے کہ وہ بولنا شروع کرتے ، انھوں نے اپنی بات کو دہرایا: " اقتدار " |
تب کنونشن کے صرف ایک غیر تحریری لمحے میں، نہیں کی آواز زور سے گونجی؛ ہمیشہ کے مقابلے میں، اگر بہت زیادہ اونچی نہیں تو ویلاریاگوسا پر ایک حیران کن نظر ڈالتے ہوئے ایک سکینڈ کے لیے صوتی ووٹ کے بارئے میں پوچھا گیا اور ایک ہی نتیجہ حاصل ہوا – جیسے کہ وہ غیر یقینی اظہارکر رہے تھےکہ کیا کیا جائے،رکن پارلیمینٹ ہیلن ٹی – میکفڈن ان کے قریب آیا اور انھیں حکم دیا " تم اقتدار حاصل کرؤ گےاور جب تم یہ کرؤ گےاور جب تم یہ کر لو تو انھیں وہ کرنے کی اجازت دینا جو وہ کرنے جا رہے ہیں۔" اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے اس نے ایک تیسرئے ووٹ کے لیے پوچھا ۔ دوبارہ، انکار کا لفظ بامشکل ہی ہمیشہ سے مل پایا ۔ لیکن اس دفعہ ویلاریاگوسا نے ٹیلی پرمٹر ہدایات پڑھ لیں اور بیان دیا کہ " صدارت کے نقطہ نظر کے حوالے سے دو تہائی ووٹوں کی تصدیق کی گی، تحریک کو اپنایا گیا۔" ایک فتح کو دھوکہ دیا گیا ، مخالف – اسرائیل وفود ہتک آمیز جملے بولتے ہیں ۔
ڈی-این- سی ٹیلی پرمٹر پر یہ جملہ موجود ہے کہ " صدارت کے نقطہ نظر کے حوالے سے دو تہائی ووٹوں کی تصدیق کی گی۔ ۔۔۔۔۔ " جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل صوتی ووٹوں کے قطع نظر ، کنونشن کے چئیرمن پارٹی کے پلیٹ فارم میں یروشلم کو شامل کرنے کے احکامات کو جاری کیا۔ |
ہاورڈ یونیورسٹی کے ایلن ڈرشواٹز نے ہتک آمیز جملے جو کہ " بدمعاش عناصر " کی طرف سے آ رہے تھے، ان کو مسترد کر دیا ۔ سینیٹر چارلس سیچومر ( نیو یارک کے ڈیموکریٹ ) نے یہ اعلان کیا کہ " ہر کوئی جانتا ہے " " بڑی غالب اکثریت کو " جیسے کہ ڈیموکریٹس یروشلم کو اسرائیل کے لیے غیر منقسم دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس، اسرائیل مخالف سرگرم کارکن جیمز زوگبی نے اپنی جانب سے فتح کا اعلان کر دیا: " جب میں نے یہ تمام بکواس سنی ، ۔۔۔۔۔۔ [ اس کا ] مطلب یہ ہے کہ ہم امریکی سیاست کے مارجن پر مزید الگ تھلگ نہیں ہو رہے۔" کون سی تشریح درست ہے؟
نہ تو ڈرشواٹز اور سیچومر اس بات کی تردید کرنے میں غلط ہیں کہ اسرائیل مخالف فورسز پارٹی میں جڑ پکڑ رہیں ہیں اسلام پسندوں کو تیزی سے خوش آمدید کہا جا رہا ہے، اور ایک صدر پر فخر محسوس کر رہے ہیں جو مشرق وسطی کے بارئے میں سمجھ بوجھ رکھتا ہےجیسے کہ نیشنل ریویو اسے پیش کرتا ہے۔ " برنارڈ لیوس کی نسبت ایڈورڈ کہتا ہے۔" حقیقت یہ ہے کہ ، پارٹی کے وفود اسرائیل کی دارالحکومت کے لیے، یروشلم پر یکساں طور پر تقسیم ہو گئے لیکن زوگبی کے برعکس ، اوبامہ کا ذاتی طور پر مداخلت کا مطالبہ اور پلیٹ فارم کے سگنل کو تبدیل کرنا کہ کتنی وسیع حد تک امریکی عوام اسرائیل کی حمایت کرتی ہے اور اسرائیل کے لیے یہ استحکام قومی انتخابات میں تکلیف دہ ہے ۔ اسرائیل مخالف ہتک آمیز جملے ڈیموکرٹیک وفود کی طرف سے آ رہے ہیں ۔ وہ ووٹرز کے لیے ضرر رساں ہونگے ؛ اس بات کا اظہار کرتے ہوئے رومنی کی مہم نے اس واقعے کو دوبارہ نشر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں – جسکو نیو یارک سن میں بجا طورپر ایک مہم کے اشتہار میں " ڈیموکرٹیک کنونشن کی کہانی " کہہ کر بلاتے ہیں ۔
ڈیبی ویسرمین شویلٹز کو گذشتہ ہفتے اسرائیل کے موضوع پر دو دفعہ جھٹلانے کی وجہ سے پکڑ لیا گیا ۔ |
شکست خوردہ ترمیم کے ذریعے حکمرانی کرنے کے لیے پارلیمینٹ کے رکن میکفڈن کو نارمل اور اخلاقی باتیں ویلاریاگوسا کو بتانی چاہیں ، بجائے اس کے کہ وہ وفود کو غلط کہیں اور اسرائیل – حامی ترمیم کے ذریعے فیصلہ کریں ۔ بڑئے افسوس کی بات ہے ، کہ فریب کا عوامی مظاہرہ ڈیموکرٹیک پارٹی کے دوغلے پن کے ایک بہت بڑئے طریقہ کار کے مطابق فٹ بیٹھتا ہے۔ آئیے تین باتوں پر غور کرتے ہیں۔
- ڈیموکرٹیک نیشنل کمیٹی کے صدر ڈیبی ویسرمین شویلٹز نے گذشتہ ہفتے " جان بوجھ " کر واشنگٹن کے آڈیٹر پر الزام لگاکر اسرائیل کے سفیر کے متعلق یہ کہتے ہوئے غلط حوالہ پیش کیا کہ جمہوریت پسند " اسرائیل کے لیے خطرناک ہیں "؛ درحقیقت اس نے سفیر کے بیان کو جھٹلانے کے لیے دو دفعہ – جھوٹ بولا اور پھر جو اس کے بارئے میں کہا تھا اس سے انکار کر دیا۔
- ایک نیشنل یہودی ڈیموکرٹیک کونسل ویڈیو ، " اسرائیلی اوبامہ کے بارئے میں کیا سوچتے ہیں؟ دراصل ، اسرائیلیوں کی طرف سے فاضل اوبامہ – مخالف بیانات ، نے انھیں اوبامہ کا حامی بنا دیا ۔
- ایک ممنوعہ جملے کو ختم کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس نے ایک سال قبل تصویر کی سرخیوں کو دوبارہ لیبل کیا ، یعنی کہ، " یروشلم، اسرائیل۔ "
ڈیموکرٹیس ( انتخابی وجوہات کی بناء پر ) اسرائیل کی حمایت کرنے کا ڈرامہ کر رہے ہیں یہاں تک کہ وہ ( نظریاتی وجوہات کی بناء پر ) یہودی ریاست کو قوت بخش رہے ہیں۔ ان کا بگاڑ تیزی سے غیر مؤثر، صریح اور دغدار ہوتا جا رہا ہے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔