شام اور مصّر کے بھڑکتے ہوئے غصّے اور ایران کے تعمیر کردہ جوہری ہتھیاروں کے ساتھ ، کیوں امریکی وزیر خارجہ فروری کے بعد سے بہت زیادہ اسرائیل – فلسطین شٹل ڈپلومیسی پو فوکس کرنے کے لیے مشرق وسطی سے اپنا چھٹا دورہ کر کے واپس آرہے ہیں۔؟
جزوی طور پر، کیونکہ وہ اور دیگر آزاد خیال یہ سوچتے ہیں کہ عرب اور ایرانی ( اور اب ترکی ؟) کہ اسرائیل میں جنگ ایک اسرائیل – فلسطین تنازعے کو کم کر دئے گی اور اس لیے وہ اس کی وسعت پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں ؛ اس کے ساتھ ساتھ، یہ بھی ہے ، کیونکہ وہ ایک آزاد خیالی کے وہم میں مبتلا ہیں کہ اسرائیل سے متعلقہ مسائل خطے کا ایک " اہم حصّہ " تشکیل دیتے ہیں۔ ( جیسے کہ اوبامہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیمز – ایل – جونز نے ایک دفعہ ایسا ظاہر کیا تھا ) ، تاہم ان کے حل کے لیے مشرق وسطی کے دیگر مسائل سے نمٹنا ضروری ہے۔
جان کیری نے نیتن یاہو پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ |
لیکن یہاں پر کیری کے جوش و جذبہ کی ایک اور ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے: اس نے اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کا اندازہ لگایا اور انھیں فلسطین کے ساتھ ایک معاہدئے تک پہنچنے کے بارئے میں واقعی ہی سنجیدہ پایا، اور یا صرف واشنگٹن کو خوش کرنے کے لیے جوش و خروش کا ڈرامہ نہیں کر رہے تھے۔
ویسے بھی یہ، ایلن یونیورسٹی کے ڈیویڈ ایم ۔ وینبرگ کا مضمون ہے جو اسرائیل ہائیمن میں لکھا گیا ؛ نیتن یاہو سفارتی عمل کے بارئے میں غیر مخصوص جذباتی بیانات جاری کر رہے ہیں: بیانات یہ کہ اسرائیل کی خواہش ہے کہ فلسطین کو مصروف رکھا جائے اور دو ریاستی حل کے لیے گفت و شنید کے مطابق متوقع مسلسل بات چیت س بیانات کا رخ بدل دیا جائے۔ وینبرگ یہ بتاتے ہیں کہ "نیتن یاہو سفارتی تحریک کے لیے بے چین ہیں لیفٹ ونگ [رکھتے ہوئے ] کے دلائل کی طرف آتے ہوئے موجودہ معاملات غیر مستحکم ہیں ۔ " وینبرگ یہودیہ اور سامریہ کے اہم حصّوں کو تسلیم کرنے کے لیے ایک یکطرفہ اسرائیلی اقدام کی تیاریوں کو محسوس کر رہے ہیں جو کہ ابھی بھی جاری و ساری ہیں۔"
کیوں نیتن یاہو ، جو کہ پرزور طریقے سے اس پلیٹ فارم پر مہم چلانا نہیں چاہتے تو کیوں اس طرح کے منصوبے بناتے ہیں؟ وینبرگ بنیادی طور پر ملکی سیاست کو دیکھتے ہیں ۔
نیتن یاہو کے پاس اپنی وزارت اعظمی کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی دوسرا قومی ایجنڈا موجود نہیں ہے۔ انھیں ایک نئے پیغام کی ضرورت ہے جو عوام کے ذہن میں ایک رہنماء کے طور پر ان کی پوزیشن کو وضع کر سکے ، اور فلسطینی ایشو ہی وہ سب کچھ ہے جس پر کام کر کے وہ یہ پوزیشن حاصل کر سکتے ہیں۔ اقتصادی اور سماجی معاملات پر برتری کو [ سیاسی حریف یائر ] لیپڈ اور بینیٹ [ نیفتالی ] نے غیر قانونی طریقے سے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہاں یہ چھوٹا سے نیتن یاہو شام اور ایران کی گرما گرم صورتحال کے متعلق کچھ کر سکتا ہے۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ ان محاذوں کے بڑھنے پر عقلمندی اور بڑی احتیاط سے ردعمل کا اظہار کریں نہ کہ اسرائیل کو آمنے سامنے لے کر جائیں۔
وینبرگ یہ بیان کرتا ہے کہ، ایک یک طرفہ اسرائیلی انخلاء، کیا " بینیٹ- لیپڈ کے اتحاد کو منظر عام سے ختم کر دئے گا۔ یہ کچھ ایسا ہے جو کہ نیتن یاہو کے لیے ایک اعلی سیاسی ترجیح ہے۔" تب وزیراعظم " واشنگٹن اور تل ابیب کے مراعات یافتہ طبقے کی تعریف کے سایے میں لطف اٹھا سکتے ہیں،" مرکز سے نکل جائیں – اور انتخابی – حمایت کو چھوڑ دیں ، اور انھیں غالبا کسی اور انتخابی فتح کے ساحل پر جانا چاہیے۔
ڈیویڈ بین- گیورن (1886 ء سے 1973 ء ) ، جس کے خلاف معیاری نتیجے کا فیصلہ اسرائیلی وزیر اعظم خود کریں۔ ٹائم میگزین ، 16 اگست 1948 ء |
یہ وضاحت مجھے قائل نہیں کرتی : ایران ممکنہ طور پر اسرائیل کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے اور وہ " وزارت اعظمی کو برقرار رکھنے کے لیے " بہت حد تک اس کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ اسرائیلی عوام رملہ نہیں، بلکہ تہران پر فوکس کرتے ہیں، اور نیتن یاہو، جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ اپنے وقت کا 70 ٪ سلامتی سے متعلقہ مسائل پر وقف کرتے ہیں، اپنی قیادت کو ثابت کرنے کے لیے بامشکل ہی محمود عباس کے ساتھ سفارت کاری کی ضرورت ہے۔
جبکہ، شائد ہی اس کی تحریک کوئی وجود رکھتی ہے : اسرائیل کے دیگر وزیر اعظموں کی طرح ، نیتن یاہو بھی اسی کیفیت سے دوچار ہیں جس کو میں " بین- گیورن کمپلکس " کا نام دؤنگا۔ ایک مشہورومعروف رہنماء کے طور پریہودی تاریخ کے اندر تک جانے کی خواہش۔ (ڈیویڈ بین- گیورن (جدید اسرائیل کے قیام کی نگرانی کر رہے تھے )۔ اس کی تیسری مدت میں اور (بین- گیورن کے بعد بذات خود ) ملک کے دوسرئے طویل – مدتی وزیراعظم کے طور پر کام سرانجام دینے والے ، نیتن یاہو ان سب میں سے اس خواہش کی شدید تمناء کرتے ہیں۔
1948 ء کے بعد سے ، بین- گیورن کمپلکس اسرائیل کے لیے بیرونی خطرات کو ختم کر دینے کی ترجمانی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ، یہ قابل ذکر تحریک بار بار دوغلے پن اور تغیر کا شکار ہوتی ہے۔ جیسے کہ 2004 ء میں ، میں نے یہ عجیب واقعہ بیان کیا تھا ، " سب سے پہلے منتخب شدہ وزیراعظم [ 1992 ء کے بعد سے ، اسحاق رابن، ایہود بارک، ایریل شیرون، اور نیتن یاہو ہیں ] اپنے الفاظ سے مکر گئے کہ وہ کس طرح عربوں کے ساتھ معاملات طے کریں گے۔ دوسرا یہ کہ ان میں سے ہر ایک نے ایک غیر متوقع رعایتی نقطہ نظر اپنایا۔"
1996 ء میں نیتن یاہو نے ایک مہم چلانے کا وعدہ کیا کہ، جس کے وہ انچارج تھے، کہ اسرائیل کبھی بھی گولان سے پبچھے نہیں ہٹے گا"؛ لیکن صرف دو سالوں بعد محض ایک کاغذ کی پرچی کے بدلے گولان کی پوری ریاست کو دمشق کے لیے پیش کرنے کی کوشش کی ۔ ( کیا تب نیتن یاہو کامیاب ہو گئے، آج اس کے نتائج کا اندازہ لگائیں، شامی غصّے کے ساتھ کیا کیا جائے اور القاعدہ کے یونٹس اسرائیلی سرحدوں تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ ) بدقسمتی سے ، اس کی کابینہ کے ساتھی اس کو اس حماقت کا اطلاق کرنے سے روک سکتے ہیں۔ ان دنوں ، ایک شدید – مرکزی اتفاق رائے کی سریلی آواز آ رہی ہے کہ اسرائیل کے لیے بیرونی خطرات کو ختم کرنے کے لیے فلسطین کے ساتھ دو ریاستی معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ( میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔) کیا نیتن یاہو اپنے الفاظ سے مکر رہے ہیں، اپنے انتخابی حلقے سے انحراف اور دوبارہ الیکشن جیتنے کے لیے اس طرح کے معاہدئے پر دستخط کر رہے ہیں؟ ضدی وزیر اعظم کا یہ طرز عمل اور اس کے ساتھ ساتھ نیتن یاہو کی سوانح عمری نے مجھے یہاں تک پہنچایا کہ میں 2009 ء کے بعد سے اس کی اس طرح کے بے وفاء مینڈیٹ کی وجہ سے فکر مند ہوں۔
لیکن شائد ہم ایک سبق حاصل کرنے سے بچ جائیں۔ فلسطینی ہٹ دھرمی کیری کو پریشان کر رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ، دوبارہ ، سفارتی دباؤ کو اسرائیل پر بہت کم کر دیا جائے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔