عرب جو کہ اسرائیلی آبادی کہ 5\1 حصہ تشکیل دیتے ہیں، کیا وہ یہودی ریاست کے وفادار شہری بن سکتے ہیں؟
جیسے ہی یہ سوال ذہن میں آیا ، میں نے حال ہی میں اسرائیل کے عرب آبادی والے علاقوں ( جافا، بقا الغربیہ، ام الفحام، ہائیفہ، عکا، گولان کی پہاڑیاں، یروشلم ) کا دورہ کیا اور مرکزی اہمیت رکھنے والے عربوں اور یہودی اسرائیلیوں کے ساتھ مباحثوں کا انعقاد کیا۔
علی یحی ، یونان اور فن لینڈ کے سابق اسرائیلی سفیر۔ |
میں نے سب سے زیادہ یہ دیکھا کہ عربی – بولنے والے شہری ایک یہودی معاشرئے میں رہنے کی وجہ سے شدید تنازعات کا شکار ہیں۔ دوسری طرف وہ ملک کے مراعات یافتہ طبقے کے مذہب کے طور پر یہودیت سے خفاء ہیں، واپسی کا قانون، جو کہ صرف یہودیوں کو اپنی خواہش کے مطابق ہجرت کی اجازت دیتا ہے، ریاست کی بنیادی زبان عبرانی ہے، پرچم میں داؤد کا سٹار ہے اور قومی ترانے ميں " یہودی روح " کا ذکر کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ، وہ ملک کی اقتصادی کامیابی، صحت کی دیکھ بھال کے معیار، قانون کی حکمرانی، اور فعال جمہوریت کی تعریف کرتے ہیں۔
ان تضادات سے بہت سے تاثرات کا اظہار ہوتا ہے۔ 1949 ء کی چھوٹی، ناخواندہ ، اور شکست خوردہ اسرائیلی آبادی جس میں دس گنا کا اضافہ ہوا ہے، انھوں نے جدید مہارت حاصل کرلی ، اور اپنے اعتماد کو بحال کر لیا۔ اس کمیونٹی میں سے کچھ باعزت اور ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز ہیں، جن میں سپریم کورٹ کے جسٹئس سلیم جویربن، سابق سفیر علی یحی اور صحافی خالد ابو شامل ہیں ۔
لیکن یہ ملاپ ایک عدم اطیمنان کا شکار عوام کے ساتھ ساتھ کچھ رکاوٹوں کی بھی پیشکش کرتا ہے جو لینڈ ڈئے ، نقابا ڈئے، اور فیوچر وژن رپورٹ کے ذریعے شناخت حاصل کرتے ہیں۔ انکشافی طور پر بہت سے اسرائیلی عرب پارلیمینٹ کے ارکان ہیں، جیسے کہ احمد طیبی اور بہت زیادہ غصّے سے اپنی پوزیشن کے مطابق زہر اگلتے ہیں۔ اسرائیلی عرب اپنے یہودی شہریوں کے خلاف تیزی سے تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔
بے شک ، اسرائیلی عرب دو پراڈکسز میں رہتے ہیں۔ اگرچہ کہ وہ اسرائیل کے اندر امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ وہ اپنے خود مختار ممالک میں رہنے والے کسی بھی عرب ملک کے مقابلے میں زیادہ حقوق اور استحکام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ( مصّر یا شام کے بارئے میں سوچیں ) ۔ دوسرا وہ ایک ایسے ملک کی شہریت کے حامل ہیں جس کے اپنے عربی ساتھی انھیں بدنام کرتے ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے خطرہ ہیں۔
اسرائیل میں میرئے مکالمات یہ نتیجہ اخذ کرنے میں مدد دیتے ہیں کہ یہ پیچیدگیاں مضبوط مباحثوں کی راہ میں رکاوٹ حائل کرتے ہیں، جو کہ یہودیوں اور عربوں دونوں کی طرف سے ایک جیسا ہے، جبکہ اسرائیلی عرب کے غیر معمولی وجود کی طرف سے مکمل لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ انتہاء پسند پارلیمانی اراکین اور نوجوانوں کے تشدد کو ایک نااہل نمائندہ ٹرم کے طور پر برطرف کر دیا جاتا ہے، اس کی بجائے ، کہیں سے ، یہ آواز آئی کہ اگر اسرائیلی عربوں کو مرکزی حکومت کی طرف سے بہت زیادہ عزت اور میونسپل امداد حاصل ہو تو، حالیہ عدم اطمینان میں کمی واقع ہو سکتی ہے؛ یہ ضروری ہے کہ اسرائیل کے ( اچھے ) عرب اور اور مغربی کنارئے اور غزہ کے ( برئے عربوں ) کے درمیان فرق کیا جا سکے؛ اور ایک تنبیہہ ہے کہ اسرائيلی عرب فلسطین میں کینسر کی بیماری کی طرح تیزی سے پھیل جائیں گے نہیں تو اسرائیل ان سے اچھا سلوک کریں۔
بقاء الغربیہ میں ایک مرکزی سڑک کے ساتھ ساتھ مذہبی نشانیاں۔ |
عام طور پر میرئے مذاکرات اسلام سے متعلق میرئے سوالات کو ایک طرف تروتازہ کر دیتے ہیں۔ اسلامی آمریت کو بیان کرنا تقریبا غیر مناسب محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان ( جو کہ اسرائیلی عرب کی آبادی کا 84 ٪ تشکیل دیتے ہیں ) خود حکمرانی کرتے ہیں۔ اسلامی قانون کا نفاذ کرنے کے لیے اسلامی کوششوں پر بحث کرنا ایک بے معنی بحث پیدا کرتا ہے اور اسے ایک بہت قریب ترین موضوعات میں تبدیل کر دیتا ہے۔
یہ کنارہ کشی مجھے 2002 ء سے پہلے کے ترکی کی یاد دلواتی ہے، جب مرکزی اہمیت رکھنے والے ترکوں نے یہ فرض کر لیا کہ اسلام پسندوں کا رحجان ایک طرف ہی رہے گا۔ وہ بہت غلط ثابت ہوئے ؛ ایک دہائی بعد اسلام پسند 2002 ء کے بعد سے جمہوری طریقے سے اقتدار پر قابض ہو گئے ، منتخب حکومت نے آہستہ آہستہ زیادہ سے زیادہ اسلامی قوانین کا اطلاق کیا اور نو – عثمانی علاقائی طاقت کو جنم دیا ۔
میں اسرائیل میں اسطرح کے ارتقاء کی پیشن گوئی کرتا ہوں جیسے کہ اسرائیلی عرب پیراڈکسز کے اختلافات کی نوعیت شدت سے بڑھتی جا رہی ہے۔ اسرائيل کے مسلمان شہریوں کا تعداد میں، مہارت ، اور اعتماد میں لگاتار اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، جو کہ یک دم ملک کی بقاء کے لیے نہایت اہم بن چکے ہیں اور یہودی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے بہت زیادہ پر عزم ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل بیرونی خطرات پر قابو پا لے گا ، اسرائیلی عرب زیادہ سے زیادہ تشویش ناک بن کر ابھرئیں گے ۔ بے شک میں نے پیشن گوئی کی تھی کہ وہ یہودی وطن کے قیام کے لیے یقینی رکاوٹ کی نمائندگی کریں گے جو کہ تھیوڈر ہرزل اور لورڈ بال فورتھ کی طرف سے بہت زیادہ متوقع ہے۔
ذیل میں کوشتر کی علامت، جافا میں مندرجہ بالا مینار۔ |
کیا کیا جا سکتا ہے ؟ لبنان کی عیسائیوں نے اپنا اقتدار کھو دیا کیونکہ انھوں نے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو جمع کر لیا تھا اور ملک کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے اس پر حکومت کرنے کے لیے تعداد میں کم رہ گئے تھے۔ اس نصیحت سے سبق لیتے ہوئے، اسرائيل کی شناخت اور تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ عرب کے شہریوں کی تعداد کو – ان کے جمہوری حقوق کو کم کر کے نہیں، نہ ہی انھیں ملک بدر کر کے کم نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ اسطرح کے اقدامات کےذریعے جیسے کہ اسرائیل کی سرحدوں کو ترتیب دئے کر ، سرحدوں کے اردگرد باڑ لگا کر، خاندان کی یکجائی کے لیے سخت قسم کی پالیسیوں پر عمل درآمد کر کے، شرح پیدائش کی حامی پالیسیوں کو تبدیل کر کے، اور احتیاط سے پناہ گزینوں کی درخواستوں کی جانچ پڑتال کر کے کیا جا سکتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے ، کہ ان افعال کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل عربوں کی طرف سے ہوئی جو کہ پرزور طریفے سے یہودی ریاست کے بے وفا شہری بن کر رہنے کی خواہش کریں گے ( جیسے کہ فلسطینی ریاست کے وفادار شہریوں کی مخالفت کرتے ہوئے)۔ مزید برآں، بہت سے دیگر مشرق وسطی کے مسلمان اسرائیلی بننے کی خواہش کرتے ہیں ( ایک ایسا مظہر جیسے میں مسلم العالیہ کہتا ہوں )۔ یہ ہی وہ ترجیحات ہیں ، جس کی میں نے پیشن گوئی کی تھی ، کہ یہ اسرائیلی حکومت میں رکاوٹ ڈالیں گے، جس کی وجہ سے وہ مناسب ردعمل کی تیاری نہیں کر پائیں گے اس لیے آج کی متعلقہ خاموشی کل کے بحران میں تبدیل ہو جائے گی۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔