جب برطانوی نشریاتی کارپوریشن ( بی – بی – سی ) جو کہ دنیا کی سب سے بڑی نیوز کارپوریشن ہے، نے جنوری میں یہ فیصلہ کیا کہ چارلی ہیبڈو کے حملہ آوروں کو دہشت گرد کہہ کر نہ پکارا جائے، اس بات نے مجھ پر ایک تصور کو طاری کر دیا ۔ بی – بی – سی عربی سروس کے سربراہ ، طارق کافالا ، نے اس کی وجوہات کی وضاحت کی :
کہ دہشت گردی ایک طرح کا بھاری بھرکم لفظ ہے۔ اقوام متحدہ ایک دہائی سے بھی زیادہ اس نقطے کی وضاحت کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وہ اس کی وضاحت نہیں کر سکا ۔ یہ بہت مشکل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سیاسی تشدد کیا ہے، ہم جانتے ہیں کہ قتل کیا ہے، بم دھماکے اور فائرنگ کیا ہے اور ہم ان کی وضاحت کرتے ہیں۔ یہ بہت زیادہ چونکا دینے والا ہے، دہشت گردوں کی طرح کا ایک لفظ استعمال کرنے کی نسبت ہم یقین رکھتے ہیں کہ لوگ اسے ایک ایسی اقدار کے طور پر دیکھیں جس کو پہلے سے ہی فرض کیا جا چکا ہے۔
نہ صرف اقوام متحدہ اس چھوٹے سے لفظ کی وضاحت نہ کر سکا ؛ ایک سرؤئے کے مطابق، اس کے لیے 109 تعریفوں پر مشتمل ایک فہرست پیش کی گئی اور اس کے معنی پر بحث کی گی جس نے ماہرین کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ۔ یہ نظریہ صرف پریشان کن حصّوں جیسے کہ – اہلکاروں ، ہتھیاروں ، حکمت عملی، نیٹ ورکس ، اور مقاصد کو شامل کرتا ہے ۔ ایک امریکی سکیورٹی کے ماہر ڈیوڈ ٹیکر ، اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ جو اس کی وضاحت کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ لوگ جو جہنم میں داخل ہو رہے ہیں ان کی طرح آسانی سے "امید کو ترک" کر دیں۔ اس کا اسرائیلی ہم منصب بوزگینور ، مذاق میں کہتا ہے کہ " دہشت گردی کی تعریف کرنے کی کوشش کرنا بعض اوقات دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے ۔"
اگر بی – بی – سی ، اقوام متحدہ ، اور ماہرین اس بات پر متفق نہیں ہو سکتے کہ اس لفظ کا مطلب کیا ہے، نہ ہی سیاستدان یا پولیس ہو سکتے ہیں ۔ کیا یہ ایک فوجی کو اس بات کا احساس کروائے گا کہ وہ ایک لسانی جنگ لڑ رہے ہیں جس کو وہ کبھی بھی نہیں جیت سکیں گے؟ کیوں اس نقطے پر بحث کی جا رہی ہے کہ ہر کوئی بدحواسی میں اس پر متفق ہے اور کچھ تو اسے بھاری بھرکم تصور کرتے ہیں۔
لہذا ، میں نے بھی دہشت گردی اور دہشت گرد کے لفظ کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ( انسداد دہشت گردی، تاہم، چھوڑنے کے لیے ایک سخت لفظ ہے )۔ یہ لڑائی کے قابل نہیں۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ ، تشدد قاتلانہ ، اسلام پسند، اور جہادی جیسے الفاظ کو استعمال کیا جائے، ایسے الفاظ تعریفی ہنگامہ آرائی کا باعث نہيں بنتے۔ بہتر ہو گا کہ امریکی یا اسرائیلی حکومتیں دہشت گرد نہیں اس پر بحث کر کے وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بد ترین دہشت گردی پر دلائل اہم حقائق پر سے توجہ ہٹا رہے ہیں جو کہ تباہی اور قتل ہیں۔ اس پر بحث کرنے کی بجائے ، بے شک تشدد کی کاروائی سے کچھ نظریاتی حد ملتی ہے، چلیں حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ۔
میں نے دہشت گردی کے بارئے میں 200 دفعہ لکھا اور بات کی ہے۔ میں اس کے منظم استعمال کے بارئے میں دہائیوں سے دلائل پیش کرتا آ رہا ہوں ۔ نہ صرف 1984 ء میں ایڈیٹر کو میراواشنگٹن پوسٹ کا خط ؛ اس کے ساتھ ساتھ حال ہی میں گذشتہ اکتوبر میں، شریک مصنف ایک مضمون لکھا جس میں یہ بحث کی گی کہ لفظ دہشت گردی کے قانونی اور مالی اثرات کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیے " ایک مخصوص اور جامع تعریف ہو، جس کا مستقل طور پر اطلاق کیا جا سکے ۔" میرا اپنا نقطہ نظریہ ہے کہ دہشت گردی کی اصطلاح کو استعمال کیے بغیر قانونی اور مالی دستاویزات کو دوبارہ لکھا جائے۔
واشنگٹن پوسٹ کی طرف سے۔ |
اب پانچ ماہ ہو گئے ہیں کہ اس کے بعد سے میری لغت میں سے یہ لفظ ختم ہو گئے ہیں ، کافی وقت ہو گیا ہے کہ وہ یہ بیان کرنے کے قابل ہو گئے ہیں کہ میرئے تجزیوں کو کافی دیر ہو چکی ہے اور سیاسی کوشیش غیر واضح نہیں ہیں۔ حقیقت میں، میں نے اس کے نہ اٹھائے جانے والے بوجھ اور اس کے ذخیرہ الفاظ کی بحث پر فتح حاصل کر لی ہے۔ آپ بھی کر سکتے ہو۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔