کیا براک اوبامہ دوبارہ منتخب ہوئے تھے، میں نے نومبر 2012 کے صدارتی ووٹ سے دو ماہ قبل یہ پیشن گوئی کی تھی، کہ " کسی امریکی صدر کی جانب سے کبھی بھی اسرائیل کے لیے مایوس کن برتاؤ کی امید کریں گے۔"تاہم، انتخابات کا اختتام ہو چکا ہے اور جب کہ وہ بدترین رویہ اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ گذشتہ 2 ماہ قبل اوبامہ نے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ اس سے اگلا قدم کیا لیا جائے گا:
1 ۔ تین سئنیر شخصیات کا انتخاب کرنا – ریاست کے لیے جان کیری، سی- آئی- ائے کے لیے جان برینان ، اور چک ہیگل دفاع کے لیے- جس کے بارئے میں کوئی سراغ نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے لیے کس حد تک دشمنی رکھتا ہے۔ مصّر کی اسلام پسند حکومت کے لیے 20 ایف- 16 لڑاکے طیارؤں اور ایم- آئی- ائے ابرام ٹینک جیسے جدید ترین ہتھیارؤں کی صورت میں ایک بہت بڑئے تحفے کی منظوری اس حقیقت سے قطع نظر کہ اس کے صدر محمد مورسی ، دن با دن جابر ہوتے جا رہے ہیں اور" یہودیوں کو خون چوسنے والے، شریک جنگ بندروں اور سوروں کی اولاد کہہ کر پکارتے ہیں۔
اپنی حمایت کی بار بار یقین دہانی کرواتے ہوئے 35 – سالہ پرانا حربہ اسرائیل مخالف اقسام کی طرف سے بھروسہ کرنا ہو گا جب کہ ملک کی فلاح و بہبود کا ڈرامہ کرتے ہوئے اسرائیلی پالیسیوں کی مزاحمت : "اسرائیل اب یہ نہیں جانتا کہ اس کے اپنے لیے بہترین مفادات کیا ہیں ۔"
2 ۔ قاہرہ کا شمالی کوریا سے سکیوڈ میزائل پارٹس کی درآمد کے ثبوت کو نظرانداز کرنا۔
3 ۔ اقوام متحدہ میں 239 ایوان اراکین کو رد کرنا جنھوں نے پی- ایل- او کو ریاست مبصر کی حثیت سے ایک گھنٹے کے ردعمل کی وجہ سے واشنگٹن میں پی- ایل- او کے دفاتر کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ۔
تین نامزدگیاں – چک ہیگل، جان کیری، جان برینان۔ |
ایج کوچ نیویارک کے سابق مئیر، نے اوبامہ سے ہیگل کی نامزدگی کے بارئے میں پوچھا، اس بات سے قطع نظر کہ اوبامہ اس کے بارئے میں کڑوی تنقید رکھتا ہے پھر بھی اس کے باوجود اس نے اوبامہ کےدوبارہ منتخب ہونے کی حمایت کی ، اس کو ایک حیرت انگیز ردعمل ملا : " میں سوچتا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب [اوبامہ] اسرائیل کے لیے اپنی ۔۔۔۔ حمایت سے انکار کر دئے گا[ لیکن یہ جتنا میں نے سوچا تھا یہ وقت اس سے کہیں پہلے آ گیا ۔" یہاں تک کہ اوبامہ کے اسرائیل – نواز حمایتی اس سے یہودی ریاست کے خلاف ہو جانے کی توقع رکھتے ہیں!
یہ اسرائیل مخالف اقدامات پریشانیوں میں اضافہ کریں گےکیوں کہ یہ اوبامہ کی ابتدائی انسداد صہونیت کے مطابق ہے۔ ہمارئے پاس معلومات کی کمی ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس نے ان کے ساتھ تعلیم حاصل کی، ان کا دوست رہا ، ان کے ساتھ ملتا جلتا رہا اور فلسطینی انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر:
رشید خلیدی ، سابق پی- ایل- او عہدہ دار ، اس کے بعد اوبامہ پال۔ |
1998 ء سے لی گئی تصویر یہ دیکھاتی ہے کہ وہ نظریہ دان ایڈورڈ سیڈ کی اسرائیلی مخالفت کو بہت باادبی سے سن رہا تھا۔ اوبامہ بہت بے پرواہی سے بیٹھا تھا جب 2003 ء کے ایوینٹ میں سپیکر کی طرف سے ایک سابق پی- ایل- او تعلقات عامہ کے آپریٹیو ، تقریب کر رہے تھے، تو اس نے فلسطینیوں کے خلاف دہشت گرد کاروائی کرنے پر اسرائیل کے خلاف الزام عائد کیا۔ " مغربی کنارئے پر صہیونی آباد کاروں کا موازنہ اسامہ بن لادن سے کیا۔
ابونیہماء جو کہ ایک اسرائیل مخالفت بھڑکانے والا ہے، اس نے 2004 ء میں " فلسطین اسرائیل تنازعے پر بلا امتیاز کاروائی کرنے پر " اوبامہ کی تعریف کی۔ اس کے بدلے میں، اوبامہ نے ابونیہماء کے شیکاگو ٹربیون میں ذہن پر چھا جانے والے اسرائیل مخالف مضمون پر اس کی حوصلہ افزائی کی، اس پر زور دیا گیا ، کہ " اچھا کام ہے جاری رکھو!" ابو نیہماء نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ 2002 ء کی ابتداء سے ہی اپنے اسرائیل مخالف بیانات کو کم کر دیا تھا " جیسے کہ اس نے اپنے اقدام کو ایک چھوٹی سی ایلی نویس سیاست سے قومی منطر تک لے جانے کے لیے منصوبہ کیا " اور اوبامہ نے ابو نیہماء سے معافی مانگتے ہوئے، اس کی وضاحت دو سال بعد کی : سنو مجھے بہت افسوس ہے اب میں فلسطین کے متعلق مزید نہیں کہوں گا، لیکن ہم ابھی ابتدائی مشکل دور میں ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ جب حالات سازگار ہو جائیں گے میں مزید مقابلہ کر سکوں گا۔"
اور اوبامہ نے اپنی فرض شناسی میں مطلوبہ پالیسیوں میں تبدیلی کی ،اگر ایک محدود اور تذبذب طریقہ کار سے( "میں بلاناغہ ان کے ساتھ معاملات طے کرتا ہوں" اس نے اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے بارئے میں افسوس سے کہا) انھوں نے اسرائیل کی حماس کے ساتھ 2008 – 09 اور 2010 کی جنگوں میں اس کی حمایت کی۔ اس کی انتظامیہ گولڈ سٹون کو " انتہائی مخدوش " کہہ کر بلایا اور اسرائیل کو اقوام متحدہ میں لابنگ اور ووٹ لینے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے کے لیے دوبارہ بھیج دیا اور پھر مسترد کر دیا۔ اسلحہ ضائع ہو گیا۔ اسرائیل کی جوہری عدم پھیلاؤ کی توقعات اپنی جگہ قائم و دائم رہیں۔ جب انقرہ نے 2009 ء میں اناطولیہ ایگل کی فضائیہ مشق میں اسرائیل کی شمولیت کو منسوخ کردیا، امریکی حکومت ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے کے لیے باہر نکلی۔ اگر اوبامہ اسرائیلی گھروں کی تعمیر شروع کرنے پر بحران پیدا کرئے گا، بالاآخر وہ انھیں ان کی تعمیر کو کم کرنے کی اجازت دئے گا۔
ایک مشترکہ پیچ مشق ایک ایسی مشق کے لیے جو کبھی منعقد نہیں ہوئی، جو کہ اب ای- بائے پر 9.99 $ میں دستیاب ہے۔ |
موجودہ صورت حال کی طرف واپس آتے ہوئے نیتن یاہو کا اسرائیل کے لیے ایک دفعہ پھر وزیراعظم کے طور پر منتخب ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک میں قیادت کا تسلسل رہے گا۔ لیکن یہ تسلسل امریکہ – اسرائیل کے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہو گا؛ اوبامہ دوبارہ منتخب ہونے کی رکاوٹوں سے آزاد ہے، سیاسی پوزیشنگ کے دس سال بعد بالاآخر وہ اپنی مخالف صیہونی خیالات کا اظہار کر سکیں گے ۔ تیسری بار نیتن یاہو کی حکومت کی جانب دوسری بار منتخب ہونے والی اوبامہ کی انتظامیہ کا نمایاں بد ترین سلوک ملاحظ کریں۔
اس وقت یہ یاد دہانی کرواتے ہوئے کہ مارچ 2012 ءمیں اوبامہ نے نجی طور پر روس کے صدرڈیمٹی میڈیوی نے کہا کہ ( یہ میرا آخری الیکشن ہے اور میرئے منتخب ہونے کے بعد ، میں زیادہ لچکدار ہو جاؤ گا سوچنے کے لیے ہر وجہ موجود ہے ، کہ وہ الیکشن جیتنا ہے، اب حالات "بہتر" ہو گئے ہیں اور دس سال احتیاط برتنے کے بعد ، اسرائیل کے خلاف فلسطینی مؤقف کو اگے بڑھانے کے لیے وہ " زیادہ سامنے آ کر مقابلہ کر سکیں گے" میں نے بھی ستمبر میں اس بات کی پیشن گوئی کی تھی کہ اوبامہ دوبارہ انتخاب جیتے گے اس کی وجہ سے " اسرائیل کے مصائب درحقیقت اب شروع ہوں گے"۔ یہ شروع ہو چکا ہے؛ یروشلم چار سالوں کے لیے ایک منی خطوط واحدانی جیسی عمارت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔