جب کوئی خارجہ پالیسی پر کام کرتا ہے،تو یہ ایک امریکی کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے ، جیسے کہ میں نے 1970ء کے بعد سے یہ کام کیا، دنیا میں اپنے ملک کی جگہ تلاش کرنے کے عظیم الشان منصوبے میں ایک چھوٹے کام کے ذریعے اس میں حصّہ لیا۔ لیکن براک اوبامہ کے تحت ، واشنگٹن میں ہونے والے فیصلوں کی اہمیت ڈرامائی لحاظ سے کم ہو رہی ہے۔ یہ پریشان کن اور مایوس کن ہے۔ اور جو اب مزید ایک اعزاز نہیں رہا۔
بے شک منظم سرد جنگ کے دوران یا بے ترتیب دودہائیوں کے درمیان جو کچھ بھی رو پذیر ہوا، امریکی اقتصادی سائز، تکنیکی برتری، ملٹری طاقت، اور بنیادی شائستگی کا مطلب ہے کہ اس میں غیر فعالیت کے باوجود بھی، امریکی حکومت کی پیش رفت کو دنیا میں کسی بھی دوسری ریاست کی نسبت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ واشنگٹن میں سنیفلیس کا ترجمہ کہیں انفلوئزا سے کیا گیا ہے۔
کمزور اور بہت زیادہ بے لوث صدر جیسے کہ جیمی کارٹر اور بل کلنٹن جن کے خود کے بھی معاملات تھے، مثال کے طور پر 79-1978 ء کا ایرانی انقلاب یا 1990 ء میں عرب – اسرائیل تنازعہ ۔ طاقت ور اور سرگرم صدر جیسے کہ رونالڈ ریگن اور جارج ڈبلیو۔بش تاہم بہت زیادہ پر مؤثر رہے، جنھوں نے تیزی سے سوویت یونین کا خاتمہ کیا یا افغانستان یا عراق پر حملہ کیا۔
لیکن اب ، براک اوبامہ کے ساتھ، امریکہ چونکا دینے والے غیر متعلقہ نفرت آمیز مشرق وسطی کی طرف جا رہا ہے، جو کہ دنیا کا مفسد ترین خطہ ہے۔ بے ثباتی، نا اہلی، اور سستی اوبامہ انتظامیہ کی کمزوری کو بیان کرتی ہے خارجہ پالیسی کے میدان میں اوبامہ اس طرح کام کرتا ہے کہ اگرچہ وہ بیلجئیم کا وزیراعظم ہو ایک چھوٹا سا ملک ہے جس نے جب اقوام متحدہ میں ووٹ ڈالنا ہوتا ہے یا اخلاقی طور پر سرد مہر مشکلات کو دور کرنا ہوتا ہے تو وہ عام طور پر اپنے بڑئے پڑوسیوں کے فیصلوں کی پیروی کرتا ہے ۔ بیلجئیم قدرتی طور پر اوبامہ کے وائٹ ہاؤس سے نکلنے والے مشہور جملے استعمال کرتا ہے کہ وہ" پیچھے سے قیادت کرتا ہے۔"
بہت عرصہ پہلے اوبامہ کی 2009 ء میں قاہرہ میں تقریر۔ |
قطر (225،000 کی قومی آبادی کے ساتھ) 1،400 – گنا بڑا امریکہ ( جس کی آبادی 314 ملین ہے ) کے مقابلے میں حالیہ واقعات پر بہت زیادہ اثرات رکھتا ہے۔ یہ کس طرح یاد رکھیں کہ دوحہ کے امراء کو پیچھے کی سیٹ پر رکھا جاتا ہے : وہ لیبیا کے باغیوں کو ہتھیاروں کو فراہم کرنے میں برتری لے جاتا ہے ، وہ درج ذیل ہیں ۔ وہ فعال طریقے سے شام میں باغیوں کی مدد کرتے ہیں، وہ جان چھڑاتا ہے۔ انھوں نے مصّر کی نئی قیادتوں کو اربوں فراہم کیے، وہ اس پر بذات خود چونک گیا۔ انھوں نے غیر مشروط طریقے سے حماس کو غزہ میں واپس کر دیا، وہ اسرائیل – فلسطین کے " امن کے عمل" کے حوالے سے ایک خوش فہمی میں مبتلا ہیں ۔ اس غرض سے ،امریکہ کے سیکرٹری نے چار مہینوں میں سفارتی سرگرمیوں کی بھرپور کوشش کرنے میں اسرائیل اور فلسطین کے علاقوں کے چھ دورئے کیے جس کے بارئے میں کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ عرب – اسرائیل تنازعے کا خاتمہ ہو گا۔
دوجہ، مشرق وسطی میں واشنگٹن کے مقابلے میں ، اب زیادہ بااثر ہے۔ |
اسی دوران ، امریکہ کے وزیر دفاع نے مصّری رہنماء سے 60 سے 90 منٹ کی گفتگو کے دوران 17 مرتبہ بلایا تاہم اس کے دلائل ناکام رہے سس کو اخوان المسلمون کے خلاف طاقت کے استعمال سے باز رہنے کے بارئے میں کہا۔ تاہم سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ سس نے اوبامہ کا فون اٹھانے سے ظاہری طور پر انکار کر دیا۔ مصّر کو سالانہ 1.5 بلین $ دی جانے والی امریکی امداد اچانک اس کو تین فارسی خلیج ممالک سے ملنے والی 12 بلین ڈالر امداد کے مقابلے میں بہت کم دیکھائی دینے لگی ، ان وعدوں کے ساتھ کہ کہیں مغربی امداد کی کمی ہے۔ مصّر کی گہری سیاسی تقسیم میں دونوں اطراف کی حمایت کے لیے اوبامہ پر الزام لگاتے ہیں اور اس کے نام سے نفرت کرتے ہیں۔ جیسے کہ درجنوں قطبی گرجا گھر جل رہے تھے، وہ گالف کے چھ راؤنڈ کھیل رہا تھا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ، چار سال قبل ، جہاں مصّر تھا اوبامہ نے ایک اہم تقریر کی جس میں اس نے بظاہر فتح کا احساس کرتے ہوئے جارج ڈبلیو۔ بش کی پالیسیوں کو رد کیا۔
وڈرولسن (21 – 1913 ) پہلے چار جمہوری صدروں میں سے پہلا جمہوری صدر تھا جس نے ریاست کی طاقت میں بھرپور اضافہ کیا ۔ |
اوبامہ کے عزائم کہیں بھی غلط ہو سکتے ہیں جو کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے اندر اندر حکومت کے دائرہ کار کو بڑھا رہے ہیں ، جس کو اوبامہ کے کرئیر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس کے مطابق اس نے کافی سوچ بچار کے بعد خارجہ پالیسی کا کام ایک ناپسند بوجھ کے طور پر کیا ، اور جوسر معاملات پر واپس آنے سے پہلے کچھ ایسا تھا جس کو بہت عجلت میں پورا کیا گیا ۔ اس کا عراق اور افغانستان سے فوجوں کی واپسی پر جو کچھ بھی ہے اس پر کم تشویش کا اظہار کیا۔ ا اس کی منفرد خارجہ پالیسی کی کامیابی، اسامہ بن لادن کی پھانسی کا ایک مشہور بدنام اشتہار تھا۔
اب تک، اوبامہ کی بے وقوفیوں کی وجہ سے امریکی مفادات کا مول بہت زیادہ نہ ہو سکا ۔ لیکن وہ فوری طور پر تبدیل ہو سکتا ہے ۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ، ایران بہت جلد اپنا جوہری بریک آوٹ حاصل کر لے گا اور نئی ایجاد کے جوہر کو اپنے اردگرد پھینکنا شروع کر دئے گا، اگر اس کے نئے برانڈ کے ہتھیاروں کو استعمال نہ کیا گيا ۔ مصّر میں نئی حکومت اپنے ابتدائی امریکہ مخالف جذبات اور انسداد صہونیت پر دوبارہ واپس آسکتی ہے ؛ پہلے سے ہی مصّر میں اہم عناصر اسرائیل کے ساتھ امن معاہدئے کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
باحثیت ایک امریکی کے لیے جو کہ اچھے کاموں کے لیے اپنے ملک کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے ، یہ ترقیاں دردناک اور خوفناک ہو سکتیں ہیں ۔ دنیا کو ایک فعل، پرفکر اور صاف امریکہ کی ضرورت ہے ۔ تاریخ دان والٹر ائے۔ میکڈوگل بجاطور پریہ بیان دیتا ہے کہ" ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تخلیق گذشتہ چار سو سالوں کا ایک مرکزی واقعہ ہے " : اور اس کی تہذیب دیگر تمام تہذیبوں کے لیے تکلیف دہ ہے جو کہ صرف اس کی وجہ سے وجود میں آئیں"۔ تاہم یہ دن زیادہ پریشان کن نہیں ہیں ۔ ہو سکتا ہے ، کہ موجودہ مایوس کن حالت اس مدت میں مختصر ہو جائے۔
مسٹر ڈینیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔