د ہشت گردی کے جواب میں جس بھی مو ثر تکنیک کو اپنایا جاۓ اس حقیقت کو مد نظر رکھنا ھوگا کہ مسلم د ہشت گردی جو کہ اسلام کے نام سے کی جاتی ھے وہ مہذ ہب اورتہذ ہیب یا فتہ طبقے، مسلم یا غیر مسلم کے لیے انتہای خطرناک ہے۔
نیچلی سطح پر، اس خطرہ کے ذمہ دار چند عناصر ہیں جو " سڈن جہاد سنڈروم" کے شکار ہیں، اور بغیر کسی وجہ کے مرنے مارنے پر تلے ہوۓہیں- بالائی سطح پر لاقانونیت کی حامل تنظیمیں ، جيسے کہ حاماس جو فلسطینی قاسی حکومت چلا رہی ہے، يا القاعدہ جس کا مقاصد تباہی پہيلانے والے ہتیھار حاصل کرنا ہے ، تشددکو پھیلانے کی وجوع بن رہی ہیں ۔ کیا ان تمام حالات میں مسلمانوں کو دہشت گردی پہيلانے سے روکا جا سکتا ہے ؟ یہ کامیبابی کی طرف ایک اہم پیش قدمی ہو گئ جس کو کچھ لوگ چوتھی عالمگیر جنگ کے نام سے پکارتے ہیں۔
کيا ايسا ممکن ہے ؟
بالکل ایسا ممکن ہے، اور کچھ حد تک دہشہت گردی کا جواب تعليدی طور پر دینا درست ہوگا- تنہا عناصر کو پکڑ اجا سکتا ہے، تنظیميں بند کی جاسکتی ہے- نيٹ ورک جام کیے جا سکتے ہیں، سرحديں مانيٹر ہوسکتی ہيں، روپے کی گردش پر نظر رکہی جاسکتی ہے ، اور تباہی پھیلانے والے ہتہياروں پر روک تہام لگائ جاسکتی ہے-مگر يہ اقدامات مسلۓ کی اعلامات کو ظاہر کرتے ہيں نہ کہ مسلۓ کا حل بتاتے ہيں- یہ مسلہ وہ طاقتور تحريک ہے جو بحر متطلاطم کی مانند اس تشدد کو جو اسلام کے نام سے کيا جا تا ہے، کوکثرت سے ابہارتی ہے- کيا اس کو بدلا جاسکتا ہے ؟ کيوں دہشت گردی مسلم زندگی کا ايک اہم اور نماياں پہلو بن کر سامنے آتی ہے ؟ کيا اس تشدد کو روکا اور اسکا جواب ديا جاسکتا ہےـ
يہ جارحيت کسی ايک کجرو اور غير اخلاقی تحريک کا نتيجہ نہيں جو اپنی ذ اتی خواہش کی بنا پر نقصان پہنچا رہی ہے، اور نہ ہی مذہب اسلام سے جارہی ہو ساری ہے اور جس نے پچھلی نسل کو تو قاتلانہ سرگرميوں پر ابہارا نہيں تہاـ بلکہ يہ جارحيت سياسی سوچ کا نتيجہ ہےـ
اجتماعی جرم ميں خيالات کا کوئ عمل دخل نہيں ہوتا، بلکہ یہ صرف خود غرضی کی فضا پيدا کرتے ہيں۔ ليکن خيالات بنيادی طور پر تيزی سے دنيا کے حالات تبديل کر رہے ہيں، دہشت گردی اور خاص طور پر خود کش حملے جيسی قسم ميں اضافہ کر رہے ہيںـ ہم جو زندگی کو جیسے ہے کی بینیاد پر قبول کرتے ہيں ، کے مترادف خيال پر ست نیۓ اور بہتر نظام کو اپنانے پر مصر ہيں ـ اور اس کو پانے کے ليۓ وہ تمام طاقت اور اختیارات کا مطالبہ کرتے ہيں، انسانی زندگی کی تذليل سرۓعام کرتے ہيں، اور اپنے خيالات کو دنيا بھر ميں پھيلانے کی آرزو رکھتے ہيںـ بہت سے خيالی منصوبے موجود ہيں، بالکل فاش ازم اور کیمو نزم کی طرح جہینوں نےتاریخ میں لاکھوں زندگيوں کو لقمہ اجل بنايا ہےـ
1945 اور 1991 ميں علی الترتيب، يہ دونوں اجتماعيت (حاکمانہ نظامات ) جنگ کے ذریعۓ شکست کھانے کے بعد ايک تشدد سے ( دوسری عمالمگير جنگ ميں) اور دوسری ذہانت سے (سرد جنگ ميں) اختتام پزير ہوہیں ـ ان (اجتماعيت) کی ياد داشت رجاہئیت پسندوں کو ہمت دلاتی ہےکہ خیال پرستوں اور اجتماعیت کا وہ دور ختم ہو چکا ہے اور غير قدامت پسند نظام ان کی جگہ ہميشہ کے لیۓ لے چکا ہےـ
افسوس کہ تيسری اجتماعیت کو مکمل طور پر نظر انداز کيا گيا ، جو کہ 1920 سے اسلام کے نام سے تيزی سے پھیل رہی ہے جس کو مختصرآ ایسے ايمان کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کے پاس ہر سوال کا جواب ہے ، بچےکی ديکھ بھال سے لے کر جنگ و جدل تک کے مسائل کا حل صرف اسلام کے پاس ہےـ يہوديوں اور مسیحيوں سے تاريخی رقابت ، پيدايئش ميں تند اضافہ ، ايرانی رياست پر غلبہ، امير عرب رياستوں سے کیئژ امداد جيسے حقائق کی وجہ سے مسلم انتہا پسند مسلمانوں کی مذہبی سوچ وفکر ، اسلامی شناخت اور ايمان پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہيںـ
اسلامی نظام ،دو صدياں گوشہ تنہائی ميں رہنے کے بعد، طوفانی انداز ميں واپس آيا ہے اور جہاد يا مقدس جنگ جيسے نظريات کو بھی ساتھ لايا ہےـ خلافت ہزار سال محدوم رہینے کے بعد دوبارہ مرتعش خواب نظر آنے لگی ہےـ يہ جارحانہ خيالات، عالم و مفکرز جيسے محمد بن عبدلوہاب ، شاہ والی اللہ، سعيد ابوالمدودی ، حسن البناء ، سعيد کا تب اور روح اللہ خومينی نے کا ميابی کے ساتھ اسلام کی روايتی اور متجد د سوچ کے خلاف پیش کيۓ ہيں ـ خيال پر ستوں کی اس فتنہ انگيز سوچ کو جاری رکھنے کے ليۓ انکے پيرو کار پرتشدت ذرائع جيسا کہ دشہت گردی اپنا رہے ہيںـ
دہشت گردی کے خالف موثر جواب دہشت گردوں سے لڑ نا نہیں ، بلکہ اس سوچ اور خيالات سے جو ان کو ايسا کرنے پر ا کساتی ہے ـ يہ تکينک دو اقدامات پر منحصر ہوگی ، اول کہ اسلامی انتہا پسند تحريک کو اسی طرح شکت دينا ہو گئ جسں طرح فاشزم اور کیمونزم کو شکست دی گئ تھی ، ہر سطح پر اور ہر موقعے پر اور ہر پبلک اور ذاتی قسم کے ادارے کو بھر پور طور پر استمال کرنا ہوگاـ
يہ ٹاسک خاص طور پر صرف غير مسلم ہی ادا کر سکتے ہيں، مسلم کمیونٹيز مجوعی طور پر اس
ا قدام پر عمل درآمد کرنے کی نا تو اہل ہیں اور نا ہی آمادہ ہو گيں۔
جبکہ اس کے مقابل صرف مسلمان ہی دوسرے اقدام پر عمل درآمد کر سکتے ہيںـ ان کو ايسے اسلام کو تشکيل دينا اور پھیلنا ہو گا جو جديد ، اعتدال پسند ، جمہوری ، آزاد خيال ، اچھا ہمسايہ ، ہمدرد اور نرم دل اور خواتين کا احترام کرنے والا ہو ـ يہاں غير مسلم ، اسلامی انتہا پسندوں سے کنارہ کشی کر کہ اعتدال پسند مسلمانوں کی ہمايت اور مدد کر سکتے ہيںـ
حالانکہ نظرياتی طور پر ايسا ممکن ہے مگر موجودہ دور ميں اعتدال پسند اسلام کی حمايت ميں کمی اس کو نا ممکن بناتی ہے اور جبکہ اسکے امکانات بلکل مدہم نظر آتے ہيں مگر اعتد ال پسند اسلام کی کاميابی موجودہ دہشت گردی کو ہميشہ کے ليے ختم کرنے کا واحد اور اصل حل ہےـ
دہشت گردی برے انداز فکرکو اپنانے سے شروع ہو ئ ہے ـ اچھا انداز فکر ہی اس کو ختم کر سکتا ہےـ
مسٹر پائپسں، ڈايکٹر آف مڈل ايسٹ فارم ، نے پچھلے ہفتے برازيل ميں اس موضوع پر تفيل سے اپنے خيالات کا اظہار کيا ـ يہ کانفرنس ملک کی ذہين اعلی ادارے ، دی ایجنسیہ برازيلہ دی نے منقعد کی تھی ـ (ABIN انٹلیجنسیہ)