تر جمہ: ھ ۔ س
کیا مغرب فشزام اور کیمونزم کو شکت دينے کے بعد اب اسلام کو شکت دے سکتا ہے؟
ظاہری طور پراسکی فوجی اہليت فتح کو نا گزير بناتی ہے- اگرچہ تہران نیوکلیای ہتيار حاصل کر بھی لے، اسلامی قوم کے پاس ایسی کوی فوجی مشين نہ ہو گی جسکہ ايکس (نازی قوت) نےجنگ عظيم دو یم ميں ، سوويت يونين نے سرد جنگ ميں استعمال کی ہو- اسلامی د نيا کے پاس ايسا کيا ہوگا جس کا موازنہ وير ماخت ( جرمن فوجی قوت) يا ريڈ آرامی ، ايس ايس (سخوتز ستافل - خاص ماحفظ دستۂ) يا سيپٹناز ( رشین اسپشل فورسز) ، گسٹاپو ( نازی پوليس) يا کے جی بی ، يا ايش ويٹ اور گلگ( جبر مزدور کیمپ ، سابقہ سوویت یونین) سے کیا جا سکے-
پھر بہھی تجزيہ نگار، جس ميں ميں بہھی شامل ہوں، اس کو اتنا آسان نہيں سمجھتے- مسلمان (جس کا مطلب وہ شخص جو اسلامی شريعہ کے مطابق زندگی گزارے) سابقہ اجتمایت سے کچھ زيادہ کرنے کا اہل ہے- وہ يہ موجودہ جنگ جيت بھی سکتے ہيں- کيونکہ مغرب بظاہر کتنا ہی مظبوط نظر آتا ہو- اس کے سوفٹ وير ميں چند مہلک کمزورياں موجود ہيں- جس ميں يہ تين ، امن پسندی، خود نفرت اور آسودگی کو نظر آنداز نہیں کيا جاسکتا-
امن پسندی: اہل علم اس بات پر خاص يقين رکھتے ہيں کہ موجودہ حالت يا مسائل کا "کوئی فوجی حل موجود نہيں ہے" اور يہ سوچ ، وہ ہر ميڈل ايسٹ مسلۓ، لبينان ،اعراق ، ايران ، افغانستان ،کردز دہشت گردی ، عرب ، اسرا ئیل مسلہ پر لاگو کرتے ہيں- اور نظريہ امن پسندی اس حقيقت کو نظر آنداز کرتا ہےکہ موجودہ تاريخ ميں فوجی مداخلت ناگزيہ ہے- ايکس کی شکست کس طرح ہوئی، امريکہ کی ويت نام ميں اور سوويت يونین کی افغانستان ميں شکت فوجی مداخلت نہیں تو کیا تھی؟
خود سے نفرت :- بعض مغربی ممالک جسے کہ امريکہ ، برطانيہ ، اسرائيل ايک قابل اہم نقطہ پر يقين رکھتے ہيں کہ ان کی اپنی حکوميتں دہيشت گردی اور ديگر جرائم کی ذ مہ دار ہے- ہم دشمن سےواقع ہے وہ ہم ميں سے ہے ، جيسا رويہ جوابی اقدام کی بجاۓ تسلی و تسکين کو جگہ ديتا ہے ، اور ساتھہ ہی موقہ ديتا ہے کہ روايات اور کاميابياں سے کنارہ کشی اختيار کی جاۓ- اسامہ بن لادن، ،رابرٹ فسک اور ويلم بلم کی طرح منافقت والی شہرت حاصل کرچکا ہے ۔ مغربی شہری اپنےاس خاص کردار اور اہم نفط نظر کی وجہ سے تعلمی ادروں ميں ، بغير جانےہوۓ ، اسلامی انتہاہ پسندوں کے مددگار مجاہدين کی طرح کام کر رہے ہيں-
آسودگی :کسی بڑی اور طاقت وار اسلامی فوج کی غير حاظری کی وجہ سے مغرب دل سے فکر مند نہيں ہيں، اور حقارت کی نظر سے اسلام کو ديکھتے ہیں ۔ جبکہ رسمی جنگ باوردی نفری ،جہاز ، ٹينک ، ہوائ جنگی جہاز ، اور زمين اور وسائل کے ليے خونی جنگيں ، کو سمجھنا بہت آسان ہے- انتہا پسند اسلام کے ساتھ آسميٹرک جنگ حيران کن ہوگی- خودکش کمربند اور ہاتھ سے بناۓ ہوۓ دھماکہ خيزمواد اس امر کو ناممکن بناۓ ہيں کہ اس دشمن کو اہم اور ظروری سمجھا جاۓ۔ جيسا کہ جان کيری نے کہا ہے بہت سے دہشت گردی کے خيالات حالات کو محض تکليف دہ بناتے ہيں-
مسلم انہتا پسندوں نے خوفناک حد تک اپنی اصيلتوں کو صف بند کياہوا ہے جو کہ معمولی دہشت گردی ہرگز نہيں ہے-
* تباہ کن ہتھياروں تک رسائی جن کو مغربی شہريوں کے خلاف استمعال کہا جاسکتا –
* مذہبی اپيل جو گہری بازگشت پيدا کرتی ہے اور فاشزم اور کمپونزم کی مصنوعی نظريات سے زيادہ طاقت ور ہے-
* واضع مالی وسائل وزائع، مظبوط مذہبی سانچہ، جو کہ کامیابی سے يقين واعتبارکی فضاء، اور حق راۓ دہی کی فضاء پيدا کرتا ہے-
* ايسا نظرياتی نظام جو ہر سوچ و فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان کو تبديل کر سکتا ہے – صنعتی مزدور سے پی ايچ ڈی کی کامياب زندگی گزارنے والےسے، ذہينی مريض، يمن سے کينڈا تک کے لوگوں کو تبديل کر سکتی ہيں- اور يہ تحريک عمرانیات پر مبنی معاشرے کو چیلنج کر رہی ہے-
* ايک غير تشدہ تحرک ، جس کو ميں جائز اسلام ازم کا نام ديتا ہو ، جو اسلام کے پھیلاو کو تعليمی، سياسي ، مذ ہبی ذرائع سے پھيلا رہے ہے- بغير غيرقانونی اوردہشت گردی سے – جائز اسلام ازم بڑی کاميابی سےمسلم اکژيت والے ممالک جسے کہ الجرائز، اور مسلم اقليت جيسے کہ انگلنيڈ میں ترقی کررہا ہے-
* ايک بہت وسيع اور ذمہ دار ڈھانچہ موجود ہے- اگر مسلم انتہا پسند ، مسلم دنيا آبادی ميںسے 10 سے 15 فصید حصۂ ہيں تو ان کی تعداد 120 سے 200 ملين تک ہوگی جوکہ فاشرارم اور کميونزم سےجو کبھی موجود تھےکئی حد تک زيادہ ہے ۔
امن پسندگی ، خود سےنفرت اور آسودگی جيسے عناصر انتہا پسند اسلام کے خلاف جنگ کو طول دےرہے اور مقتولين ميں اضافہ کررہے ہيں- صرف کسی بڑی انسانی تباہ کاری کے بعد ہی مغرب اس تہيرے دکھ پر قابو پاسکئے گۓ، اور اس خطرے کا سامنا کرسکۓ گۓ- اور اس کے بعد تہذيب يا فتہ ممالک، بعداز وقت اور انتہا کی قميت ادا کرنےکے بعد، پھر غلبہ حاصل کريں گے۔
کيا اسلامی انتہا پسند ذہين ہوجاۓ گے اور انتہائی تباہ کاری سے کنارہ کشی کريں گےکیا قانونی چارہ جوئی، سياسی اور غير تشدد آميز طريقے کو اپناۓ گے، کيا ان کی تحريک ہمیشہ اہم کردار ادا کرے گی- اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کيا ان کو روک سکتا ہے-