لارنس آسٹر اسلام کے بارے میرے نقطہ نظر کو "عالمگیر اتحاد کا تصور" اور اپنے نقطہ نظر کو "تمدنی زاویہ سے عملی" قرار دیتے ہیں۔ جبکہ میں اپنے نقطہ نظر کو تاریخی اور آسٹر کے زاویہ نگاہ کو اساسی کہوں گا۔ میں اِس بات پر زور دیتا ہوں کہ چیزیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں اور آسٹر کا خیال ہے کہ چیزیں اُسی طرح منجمد رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر ، وہ صدیوں پہلے کے سلسلہ وار واقعات کو دیکھتے ہیں، میں تب سے اسلام کی کئی تبدیلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں جب ١٩٩٦ءسے میں نے اسلام کو پڑھنا شروع کیا تھا۔
اُن کی مرکزی دلیل کے مطابق "معتدل اسلام معرضِ وجود میں نہیں آسکتا"۔ میں اِس کے جواب میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کی وہی شکل ہو سکتی ہے جو مسلمان اِس کو دینا چاہیں۔ میں آسٹر کو مسلمانوں کی تاریخ پڑھنے کا مشورہ دونگا تاکہ وہ اپنے طور پر (دو انتہاﺅں) کو سمجھ سکیں کہ بوسنین اور نجدی اسلام نے وہی صورتیں تشکیل دیں جو دینا چاہیں، ایک صورت رواداری پر مشتمل تھی اور دوسری یقینی طور پر سخت گیری کی غماز تھی۔
مذہب ماضی میں وقت کے ساتھ بدلتا رہا ہے اور یقینی طور پر آئندہ بھی تبدیل ہوتا رہے گا۔ ہم میں سے اکثر اِس بات کے ساتھ متفق ہیں کہ مسلمان دنیا اِس وقت ایک شدید نوعیت کے بحران سے بنردآزما ہے مگر آسٹر اِس حالت کو مستقل حالت سمجھتے ہیں ، میں اِسے عارضی تصور کرتا ہوں، جس کا غالباً جرمنی کی حالتِ جنگ کے زمانہ سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
آسٹر کا قرآن کے حوالہ سے نقطہ نظر قرآن کی جامد تفہیم کے نتیجہ میں ہے اور وہ اِس بات کو بھول رہے ہیں کہ ماضی میں مسلمانوں کا زاویہ نگاہ بدلتا رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ نئی تفاہیم اِس وقت بھی اپنا وجود رکھتی ہیں(جیسا کہ سوڈان کے عالم محمود محمد طاہا کی تفہیم اُن کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے)جو قرآن کی صدیوں پرانی تفاہیم کو یکسر بدل کر رکھ رہی ہیں اور جو اسلام کو جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتی ہیں۔ ایسی تفاہیم موجود ہیں اور یہ اپنائے جانے کی منتظر ہیں۔
'میں جھوٹی امیدوں کے بہلاوے ‘ میں ہوں، آسٹر کا میرے بارے کہنا ہے کہ جب میں ایسا سوچتا ہوں کہ معتدل اسلام (یا انتہا پسند اسلام مخالف) کا وجود ہے۔ لیکن میں نے ذاتی طور پر معتدل مسلمانوں کے ساتھ کام کیا ہے اور اِن میں سے کچھ معروف ناموں کا حوالہ بھی دیا ہے ( اِس حوالے کواِس ویب سائٹ کے انگریزی حصہ "Naming Moderate Muslims" میں ملاحظہ کر سکتے ہیں)۔ آسٹر کا معتدل مسلمانوں کے وجود سے انکار کا مطلب ہے کہ وہ حقائق سے زیادہ تھیوری پر یقین رکھتے ہیں۔
میں دیکھتا ہوں کہ آسٹر اسلام کا موازنہ جارحانہ سوویت کمیونزم کے ساتھ کرتے ہیں۔ لیکن اگر وہ مذہب کا سیاسی نظریے کے ساتھ موازنہ کرنا چاہتے ہیں تب اُن کو اسلام کا موازنہ پورے کے پورے سوشلزم کے ساتھ کرنا چاہئے،سوشلزم کے سماجی جمہوری انداز سے آمرانہ اشتراکیت تک-
وہ کہتے ہیں کہ میں اسلام کو نہیں سمجھتا جب میں کہتا ہوں کہ فرد کا عقیدہ میرے دائرہ اطلاق میں نہیں ہے، فقط فرد کی سیاسیات اور عمل کا میں احاطہ کرتا ہوں۔ میں کہوں گا کہ یہ عمومی طور پر اچھی بات ہے کہ دانشورانہ مباحث کو عقیدے کے مسائل کے ساتھ مدغم نہ کیا جائے۔
اُن کی یہ کھوج، "جب کوئی کسی موضوع پر کام کر رہا ہو تو کیا اُسے تنقید سے استشناءسمجھ لیا جائے؟" تو میں جواب میں کہوں گا کہ میرا اسلام کا مطالعہ اُس کے عقیدے کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی تاریخ کے حوالے سے ہے۔ میں نے بارہا اِس منشور کا اعلان کیا ہے، مثال کے طور پر میری کتابوں کے ضمنی عنوانات دیکھیے ("فوجی نظام کی بنیاد: اسلام اور سیاسی قوت"، "اسلامی و مشرقِ وسطیٰ کی سیاسیات ")۔ اِس کے جواب میں وہ میری کتابیات سے ایسے موضوعات کی تلاش میں بے سود وقت ضائع کریں گے جیسے خدائے واحد کا قرآنی تصور، احادیث کے منبعہ جات، رومی کی شاعری اور صوفیوں کے عقائد۔
آسٹر کا جدیدیت سے قبل اسلام کے بارے یہ کہنا (" قرونِ وسطیٰ کے دور کی اسلامی تابناکیاں زیادہ تر قصے کہانیاں ہی ہیں، یہ ایک کفیلی تہذیب تھی جس کی کامیابیاں اِس کی ماتحت قوموں، بازنطینیوں ، یہودیوں اور انڈینز کے کام کی مرہونِ منت تھیں اور یہ تہذیب بالآخر زوال پذیر ہو گئی جب اِس نے اپنے میزبا نوں کا قتلِ عام کر دیا ") آج کے مسائل کو پیچھے لے جا کر سمجھنے کی سطحی کوشش ہے۔ بلاشبہ اِس پوری عمارت ( ایک کفیلی تہذیب) کی بنیاد ہھی اجتماع ضدین پر تھی۔ یقینی طور پر اسلام ایک حقیقی اور تابندہ تہذیب تھی (سہولت کےلئے اُس زمانے کی نشاندہی کئے دیتا ہوں) اور ١٠٠٥ءکے آس پاس اِس تہذیب نے بہترین نمونے پیش کئے جو انسان اُس زمانے میں پیش کر سکتا تھا، خاص طور پر تعلیم، طرزِ حکومت اور عمومی ترقی کے حوالے سے۔ میں مشورہ دونگا کہ آسٹر اِس تہذیب کو رد کرنے سے پہلے اِس تہذیب کے بارے مزید جانکاری کریں۔
آسٹر مجھے اصل اسلام کے حمایتی کے طور پر پیش کرتے ہیں (پائپس حیرت انگیز طور پر اصل اسلام کے متشدد، اشتمالی، نسل کش اور آمرانہ پہلوﺅں سے صرفِ نظر کرتا ہے۔۔۔ اور وہ اسلام کے رومانوی اور بھرپور تصور کا تاثر ابھارتا ہے") ۔ میرا اسلام کی تاریخ کے بارے التزاماً 'مجموعی طور پر مثبت تاثر‘ میری تحریروں میں موجود جہاد، اسلامی فتوحات، شریعہ، غلامیت اور ڈمی ٹیوڈ کے قابلِ غور ذکر کے بغیرکیا گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کاش آسٹر میری تحریروں کے بارے کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے میری تحریروں پر تھوڑا اور وقت صرف کر لیتے۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۲ءکا ایک طویل مضمون "جہاد اور پروفیسر"، اِسی طرح مختصر تحریریں ( "ہارورڈ کو جہاد سے محبت ہے"، "جہاد کیا ہے؟") جہاد کا بُری طرح محاسبہ کرتی ہیں اور یہ محاسبہ اُتنا ہی ناقدانہ ہے جتنا آسٹر چاہ سکتے ہیں( میں اِس کو ایک مقام پر 'لرزہ خیز حقیقت‘ کا نام دیتا ہوں اور ایک دوسرے مقام پر میں بیٹ یی یور کا جہاد سے متاثر ہونے والا حوالہ دیتا ہوں کہ جہاد نے "جنگوں، انسانی بے دخلی، ڈمی ٹیوڈ، غلامی اور اموات " کو جنم دیا ہے)۔ اور غلامی؟ میری پہلی کتاب کا نام تھا، 'غلام فوجی اور اسلام"۔ میں نے اس موضوع پر کم کام کو شائع کیا ہے ( یہ بیشتر کام ١٩٨٠ءکے زمانہ کے آس پاس کا ہے اور میری ویب سائٹ پر بھی نہیں ہے) جیسے "مالاس: ابتدائے اسلام کے آزاد کردہ غلام اور کنورٹس" اور "کیوں فوج میں غلامیت کا تصور ہے؟"۔
میں حیران ہوں کہ پھر مجھے جدیدیت سے قبل اسلام کے بارے اپنا غیر رومانوی تاثر دینے کےلئے ٹھیک سے کیا کرنا چاہئے۔
میرا کہنا ہے کہ میں جدیدیت سے قبل اسلام کو اُس کے اپنے وقت کے تناظر میں دیکھتا ہوں، آج کے ہمارے دور کے تناظر میں نہیں۔ اِسی لئے میں آسٹر کی نسبت کم ناقدانہ ہوں۔ مزید براں یہ کہ میں اِس وسیع تر دانشورانہ اتفاقِ رائے سے متفق ہوں کہ اسلامی تاریخ کے پہلے نصف کے دوران اس کے ماننے والے یورپ کے عیسائی ہمعصروں کی نسبت کم "متشدد، اشتمالی، نسل کش اور جابر" تھے۔ یہودیوں کی عیسائی سلطنتوں سے مسلمان سلطنتوں تک ہجرت اس حقیقت کی غماز ہے۔
اور آخر میں میں آسٹر کی اس بات کی وضاحت کرتا ہوں، "پائپس کی اسلام کے بارے عزت و تقدیس اُس کے عقیدے کا لازمی جزہو سکتا ہے، اور اُس کی یہ مستقل امید (تمام تر شواہد کے باوجود) کہ ہم اسلام کے ساتھ مکمل طور پر امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں، اُس کے خطرات کے بارے اپنے حقیقت پسندانہ تجزیے کا تضاد اور نفی ہے۔" جی ہاں، میں ایک بلین سے زائد لوگوں کے عقیدے کا احترام کرتا ہوں مگر میں نے کبھی 'عقیدے کو لازمی جز‘ کے طور پر قبول نہیں کیا۔ اِس کے برعکس میں نے کھلے عام صدر جارج ڈبلیو بش کے اِس فارمولے کہ "اسلام امن کا نام ہے"سے اتفاق نہ کرتے ہوئے آواز اٹھائی ہے ۔ جہاں تک میری اس امید کا تعلق ہے کہ مسلمان اور غیر مسلمان مکمل امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں، ایک امید ہے۔
کون ١٩٣٠ءمیں جرمنی، جاپان اور اٹلی کے ساتھ پُر امن طور سے رہنے کا تصور کر سکتا تھا؟ یہ امید قابلِ عمل ہے۔ اَب ہمارے پاس کئی دہائیوں سے یہ ثبوت موجود ہے کہ تبدیلی جنگ میں فتح اور ہارنے والے کی دانشمندانہ رہنمائی سے ممکن ہے کہ ہارنے والے کو معتدل، جدید اور اچھے ہمسایہ گیری کے اصولوں سے باور کرایا جائے ۔
جہاں تک آسٹر کے تجزیے کے دوسرے حصے کا تعلق ہے کہ میری پالیسیوں کا حیرت انگیز طور پر میری اپنی تین سالہ پرانی سفارشات سے تضاد ہے جن کا اظہار میں نے "کون دشمن ہے؟" میں کیا تھا۔ آسٹر اصرار کرتے ہیں، "مغرب کو اسلام کا بطور اسلام مقابلہ کرنا چاہیے اور اُس کی طاقت کو اس سطح تک کمزور کر دینا چاہیے کہ مسلمانوں کے پاس ہمارے خلاف جہاد کی مہمات مسلط کرنے کا موقع نہ ملے۔ انہی حالات میں کوئی نرم خو قسم کا اسلام معرضِ وجود میں آ سکتا ہے"۔
یہ دو طرفہ حکمتِ عملی غالباً انتہا پسند اسلام سے نبٹنے کےلئے میری حکمتِ عملی سے ہھی نکلی نظر آتی ہے، جس میں جدید اسلام کو اِس کے مقام پر فروغ دیا جائے۔ میں اور آسٹر آخر میں اس بات پر متفق کہ 'ایک نرم خو اسلام‘ ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔
میں یہ بات آسٹر پر ہی چھوڑتا ہوں کہ کیسے اُس کا 'نرم خو‘ اسلام میرے 'معتدل‘ اسلام سے مختلف ہے (جس کے بارے وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ 'اس کا وجود نہیں ہے اور نہ یہ معرض وجود میں آ سکتا ہے‘)۔ اور کیوں، جب اسلام تبدیل نہیں ہو سکتا، وہ اپنی امیدوں کو تبدیل شدہ اسلام کے ضمن میں میرے سے باندھتے ہیں ۔