دہشت گردی¨ کے خلاف جنگ کیسی جا رہی ہے؟ ہر کوئی یہ سوال جولائی ٢٠٠٥ کی لندن دہشت گردی کے بعد مغربی دنیا کے خلاف دہشت گردی میں حیرت انگیز حد تک کمی کے حوصلہ افزا نتائج کے تناظر میں سوچ سکتا ہے۔ یوں ایک حوصلہ افزا فضا چھائی ہوئی ہے۔ مجلہ ‘فارن پالیسی؛ کے ایک حالیہ نامی گرامی پول میں شامل ١٠٨ امریکی ماہرین، بشمول راقم الحروف، میں سے بمشکل چھ فیصد اِس بات سے متفق ہیں کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے۔ چوراسی فیصد پر مشتمل نمایاں اکثریت اِس بات سے متفق نہیں ہے۔
یہ منفی تاثر دو حقیقتوں کی بنیاد پر ہے: اسلامی بنیاد پرستی (ایران سے باہر بھی) ہر جگہ بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ دوسری طرف مہذب دنیا متواتر سنگین غلطیاں کرتی جا رہی ہے، خود کو مسلمانوں کی نفرت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اور دشمن کو کمتر جاننے کے ساتھ ساتھ اُس کو مرہم پٹی فراہم کرتے ہوئے۔
اِس تناظر میں کچھ حقائق یوں ہیں: مغربی حکومتیں حزب اللہ اور حماس جیسی اسلامی دہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات کرتی نظر آ رہی ہیں۔ نیز مغربی دنیا کے نمایاں ادارے جیسے میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ہاں غیر متشدد اسلام پسندوں کو مسائل کا حل سمجھا جا رہا ہے۔ جبکہ بائیں بازو کے لوگ سرمایہ داروں اور یہودیت و عیسائیت کی مخالفت کے رویہ کی وجہ سے اسلام پسندوں کے ساتھ اتحاد بنا رہے ہیں۔
تاہم اِن سب باتوں کے باوجود اِس جنگ کے حوالہ سے ایک خوش کُن پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ مغربی دُنیا کے باسیوں میں ، خصوصا دائیں بازو والوں میں، اِس جنگ اور دشمن کی نوعیت و فطرت کو جاننے کے حوالے سے آگہی بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکی کتابیں پڑ رہے ہیں، دستاویزی فلمیں دیکھ رہے ہیں، خود کو خبروں کے ساتھ منسلک رکھے ہوئے ہیں، الغرض بھرپور طور سے فعال ہیں۔
مثال کے طور پر ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ¨ کی اصطلاح جوچھ برس پہلے ہر طرف قبولِ عام پا گئی تھی، اَب اپنی وُقعت کھو رہی ہے کیونکہ یہ دشمن کے خلاف حربہ سازی کے معاملہ میں اُلجھاﺅ کا شکار کرتی ہے ، (تاہم یہ اصطلاح تاحال بھی کارآمد اِس لئے ہے کہ اِس کے کسی متبادل پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا)۔
آج امریکی حکام میں سے کوئی بھی اُس وقت کے وزیرِ خارجہ کولن پاﺅل جیسی بات نہیں دہرائے گا جو انہوں نے ۱۱ستمبر ٢٠٠١ کے واقعہ کے ایک روز بعد کہی تھی کہ دہشت گردی کے یہ حملے "مسلمانوں یا عربوں کی طرف سے نہ سمجھے جائیں بلکہ دہشت گردوں کی طرف سے سمجھے جائیں¨۔ اِس طرح کی حماقتوں کو رد کرنے کی بجائے کنزرویٹوز اُس مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں جس کا گیارہ ستمبر سے پہلے وجود بھی نہیں تھا ، یعنی جب وہ اپنی پالیسیوں کا قریب سے جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جو اسلامی دنیا کو ایک عارضی بحران سے گزرتے دیکھ رہے ہیں اور جو اسلام کو جدیدیت میں ڈھالنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمان ترقی کر سکیں۔ دوسری طرف ہم میں سے ایسے بھی ہیں جو اسلام کو ناقابلِ درست دین سمجھتے ہوئے اِس پر پابندی ئاعد کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور مسلمانوں سے ناطہ توڑنے کی بات کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر اسلام پر جاری و ساری اور تُندوتیز بحث نے ہمارے شہریوں کو آگہی دی ہے۔ گیارہ ستمبر سے پہلے چند امریکیوں کو ہی جہاد اور فتویٰ جیسی اصطلاحوں کا علم تھا جبکہ اجتہاد، ڈمی ٹیوڈ اور برقعہ جیسی اصطلاحات کا تو علم بہت ہی کم کو تھا۔ تب بہت ہی کم مسترد شدہ قرآنی آیات کے بارے جانتے تھے یا پھر بہت ہی کم امریکیوں کو"غیرت کے نام پر قتل¨ کا علم تھا۔ اَب اِن معاملات کا ادراک کافی ہو چکا ہے، یہ باتیں بلاگز پر، ٹاک شوز کے دوران اور پولیس کے دفاتر میں زیرِ بحث آتی ہیں۔
نیو یارک پولیس نے گزشتہ ماہ "مغرب میں انتہا پسندی : گھر کے اندر پیدا ہونے والی دہشت ¨ کے عنوان سے ایک اہم رپورٹ جاری کی جو انتہا پسند اسلامی دانشوروں کے بارے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق یہ انتہا پسندی کہاں سے آتی ہے؟ "جہادیا جہادی سلافی نظریہ وہ قوت ہے جو مغرب میں پیدا ہونے والے نوجوان مسلمانوں کو اُن کے اپنے ہی ملکوں کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے میں کردار ادا کرتی ہے۔¨
چھ برس قبل پولیس کی کوئی رپورٹ اِس طرح کا نتیجہ اخذ نہیں کر سکتی تھی، "جہادی سلافی نظریہ¨ تک پہنچنے کی بات تو دور ہے۔ یہ قابلِ غور بات ہے کہ نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ اِس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ معاملہ کی نزاکت کی اِس سطح تک پہنچنے کےلئے وقت درکار تھا کہ "جہاں ہم دہشت کے بنیادی محرک کو جان سکیں اور اُس موڑ پر جب دہشت گرد کسی ممکنہ حملے کی منصوبہ بندی کر سکیں، لہذا اَب ہم شروعات کی صورتحال کو سمجھنے کے قابل ہو سکے ہیں¨ جس کی بنیاد پر اِس انتہا پسندی کا آغاز ہوا۔
اِن تمام معاملہ فہمیوں کے باوجود، لبرل مبصرین عام امریکیوں کی اسلام کی جانکاری کے حوالے سے سنگین لاعلمیوں کا غلط دعویٰ کرتے ہیں (جیسا کہ یونین برائے ریفارم جودااِزم کے صدر رَبی ایرک یوفی نے حیران کُن حد ایک اسلامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے)۔
"دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نتائج کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ اِن کی کامیابیاں جاسوسی و انٹیلی جنس اداروں کی سطح تک کم رہی ہونگی مگرمہذب شہریوں کو اِس کی وساطت سے دشمن کی نوعیت کو سمجھنے اور اُس کے خلاف صف آراءہونے میں بہت مدد دی ہے۔ جس کے معنی ہیں کہ لبرلز کو سمجھتے ہوئے، جیسا کہ کینیڈا سے سلیم منصور (اپنے ایک مضمون میں) لکھتے ہیں کہ "لبرل جمہوریت ایک مسلح و اسلامی نظریے سے کم نہیں¨ ۔ لہذا دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہمارے مستقبل کا رُخ کس طرف ہے۔ کیا ٢٠٠١ کا نعرہ "ہم ایک ساتھ کھڑے ہیں¨ یا پھر آج کی رخنہ سازی؟
اِس کا جواب ہو سکتا ہے کہ گمراہ کُن ہو۔ مگر تاریخ کے اوراق مجھے حوصلہ مندی کا جواز فراہم کرتے ہیں ، جیسا کہ آج تک مغرب میں جمہوریت کا بول بالا ہے۔ اسلامی دنیا میں بھی ایسا ہونے کی خاطر اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنا اُسی بنیادی تیاری کا حصہ ہے۔