میناروں کی عمارت کی پابندی کے بارے حالیہ سوئس ریفرنڈم کی کیا اہمیت ہے
( مساجد کے اوپر مخروطی اشکال جن سے نماز کے لیے اذان ( بلاوا) دی جاتی ہے ) ؟
ہو سکتا ہے کہ کچھ 57.5 سے 42.5 فیصد فیصلہ تصدیق کر رہے ہوں کہ کوئی قانونی ترمیم تقریباً بے معنی دکھائی دیتی ہے ۔ سیاسی انتظامیہ نے زور ڈالتے ہوئے ترمیم کی مخالفت کی، پابندی شاید کبھی بھی اثر انداز نہ ہو۔ صرف 53.4 فیصد حلقے نے رائے دی¸پس تمام آبادی کے صرف 31 فیصد حصے نے پابندی کی تصدیق کی۔ پابندی، شدید اسلامی خواہش کی دھیان نہیں دیتی، قدرے مسلمان دہشت گردی کی طرف۔ یہ اسلام کے کسی عمل سے تصادم نہیں۔ یہ نئی مساجد کی تعمیر کو نہیں روکتی اور نہ ہی چاہتی ہے کہ سوئٹزلینڈ کے پہلے سے موجود میناروں کو منہدم کیا جائے۔
ممکن ہے کہ ووٹ برخاست کر دئیے جائیں، جیسے سوئٹزلینڈ کی نمایاں براہ راست جمہوریت کے عجیب نتیجہ کے طور پر، ایک رسم جو 1291 سال پرانی اور یورپ میں کہیں بھی نہیں ہے۔
جوزف جوف، جرمن کا مشہور تجزیہ کار ووٹ کو دیکھتا ہے کہ عوامی حمایت کی خواہش مند جماعت شدید نمایاں رد عمل کے طور پر تذلیل کے خلاف ہے سوئٹزلینڈ حالیہ سالوں میں یہ تذلیل جھیل چکا ہے جب دو کاروباری آدمیوں پر فوری طور پر حملہ کیا گیا اور سوئس صدر ذلیل ہوتے ہوئے انکو آزاد کرنے کے لیے بحث کرتے رہے۔
تاہم، میں دیکھتا ہوں کہ ریفرنڈم اور نتیجتاً اور سوئس سرحدوں کے لیے بہے خوب ہے۔ اول، یہ مسلم مسیحی تعلقات میں باہمی عمل کے نازک معاملات اٹھاتا ہے۔ چند مثالیں: روزری کی ہماری خاتون 2008 میں پہلا چرچ قطر میں کھولا، اس نے بہت چھوٹی صلیب، گھنٹی، گنبد، مینار یا علامتی بورڈ بہت چھوٹا بنایا۔ روزری کے کاہن، فادر توم ویزریکشن نے ان کی غیر موجودگی کی وضاحت کی: " خیال یہ ہے کہ رویے میں اختیار ہے کیونکہ ہم کسی حساسیت پن کو بھڑکانا نہیں چاہتے"۔ اور جب بالائی مصر میں ایک قصبے کے مسیحیوں نے نازلٹ الدرامان آخرکار چار سال بعد ارباب اختیار سے محنت طلب، بات چیت سے سمجھوتے کے لیے درخواست اور مسلے سے نبٹنے کہتے رہے، اکتوبر میں، مار۔ گرگس چرچ کے لڑکھڑاتے ہوئے مینار کی بحالی کے لیے اجازت حاصل کی، تقریباً 200 مسلمانوں پر مشتمل ایک ہجوم نے پتھراؤ کرتے ہوئے اور اسلامی اور فرقہ وارانہ نعرے لگاتے ہوئے ان پر حملہ کر دیا۔ مصری باشندوں کے لیے صورتحال بہت بُری ہے، انہوں نے پھر پوشیدہ گرجا بنانا شروع کردیتے ہیں۔ کیتھولک کلیسیا اور دیگر کیوں پوچھ رہی ہیں کہ مسیحیوں کو ایسی ہتک آمیز صورتحال کو برداشت کرنا چاہیے جبکہ مسلمان مکمل حقوق سے تاریخی مسیحی ممالک میں لطف اندوز ہوتے ہیں؟ سوئس ووٹ اس نئی روح میں مناسب ہے۔ اسلامی رنگ، یقیناً اس قسم کی عمارتی مساوات کو رد کرتے ہیں: ایرانی وزیر خارجہ منوہر مُتقی نے اپنے سوئس ہم منصب کو ضبردار کیا کہ غیر متوقع نتائج کے لیے تیار رہے جو اس نے اسلام کے خلاف اعمال کیے ہیں، واضح طور پر دھمکی دیتے ہوئے کہ میناروں کی پابندی ایک بین الاقوامی معاملہ ہے بالکل ڈنمارک کے کارٹون کے بالمقابل جو 2006 میں فساد کا باعث ہوئے ۔
دوسرا، یورپ اپنی مسلمان آبادی کے احترام میں، فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ مستقبل کی تین بڑی توقعات سے ہر کوئی ایک دوسرے کے متوازی جا رہا ہے۔ مسلمان حاوی ہو رہے ہیں یا انہوں نے رد کر دیا ہے۔ پہلا بہت ناقابل یقین ہے لیکن دوسرا اور تیسرا برابر ممکن دکھائی دیتے ہیں۔ اس سیاق و سباق میں ، سوئس ووٹ اندازاً ایک اہم مکالف اسلامی خیالات کی جائز نمائندگی کرتا ہے۔ رائے دہی نے پورے یورپ میں تخلیقی مدد کی، جبکہ بڑے میڈیا کے ذرائع اور رہنما شخصیات کے بیانات نے براہ راست پولنگ کے ذریعے دور کا اشارہ کر کے مدد فراہم کی ہے۔
یہاں مندرجہ ذیل میں ایک چھوٹا سا نمونہ ہے:
-
فرانس: 49،000 قاری لی فیگرو کے مقام پر 73-27 فیصد کم و بیش، انکے مُلک میں نئے مینار پر پابندی کے لیے رائے دہی کریگی۔ 24،000 قاری لی ایکسپرس کے مقام پر کم و بیش 86-12 فیصد لوگ متفق ہیں، بمعہ 2 فیصد کا فیصلہ نہیں ہے۔ ایک رہنما کالم نگار ایوان ریوفول جو فیگرو کا باشندہ ہے نے ایک آرٹیکل لکھا بعنوان " ہومیج ٹو دی ریسٹینس آف دی سوئس پیپل" ۔ صدر نکلولس سرکوزی نے حوالے یہ کہتے ہوئے دیا کہ " سوئٹزلینڈ کے لوگ اور فرانس کے لوگ اپنے ملک کو تبدیل کرنا نہیں چاہتے، کہ اس کی خصوصیات تبدیل ہو جائیں۔ وہ اپنی شناخت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
-
جرمنی: 29000 قاری ڈرسیجل کے مقام پر 76-21 فیصد ووٹ دئیے جن میں 2 فیصد غیر جانب رہے، یہ رائے دہی جرمنی میں میناروں پر پابندی کے متعلق تھی۔ 17000 قاری ڈائی ویلٹ کے مقام پر 82-16 فیصد " ہاں کی حمایت ووٹ دیئے، کہ میں میناروں سے اکڑن محسوس کرتا ہوں "۔ " کسی مذہبی آزادی کو مجبور نہیں کیا جاتا"۔
-
سپین: 14000 20 منٹوس کے قاریوں نیں 93-6 فیصد بیان کے حق میں ووٹ دیئے " خوب، ہمیں اسلام کی ترقی کرتی ہوئی موجودگی کو روکنا چاہیے" اور مخالفت کرنی چاہیے " یہ تارکین کے لیے ملنا ایک رکاوٹ ہے " 35000 ایلمنڈو کے قاریوں نے 80-20 فیصد جواب دیا کہ سوئس کی طرح میناروں پر پابندی کی مدد کرتے ہیں۔ اگرچہ سائنسی نہیں، انکی بکھری پہلو دار خاصیت ( دوسروں کی) 73 سے 93 فیصد تک ووٹ حاصل کرتی ہے اکثریتیں سوئس ریفرنڈم کی حمایت کرتی ہیں، یہ اشارہ کہ سوئس ووٹرز یورپ کے نقطہ نظر سے مخالف اسلامی ترقی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نئی ترمیم بھی، براعظم میں اسلامیت کی مزاحمت کے لیے جائز قرار دیتی اور اسکی پر زور حواصلہ افزائی کرتی ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر سوئس رائے دہی یورپی اسلام کے لیے ایک ممکنہ بدلتے نقطے کو پیش کرتی ہے۔