جنگ میں محمد پر 12 کارٹونوں کا گٹھا ڈنمارک پر ایک جنگ کا موضوع کیا یہ ہے کہ مغرب کے لوگ اس کے کسٹم کے لیے کھڑے ہو گئے اور زیادہ اس موضوع پر آزادانہ کفار کو بھی شامل کیا گیا یا کیا مسلمان اپنی زندگیوں کو اس طریقے سے مغرب میں گزارینگے؟ آخر اس حالت میں وہ سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ مغربی لوگ ان کی تہذیب کو قائم رکھیں گے انکی کی بے عزتی اور گستاخ آمیز پاپ بھی شامل ہے یا نہیں خاص طور پر زیادہ مغربی خصوصاً دوہرا رتبہ رکھیں گے جسکے ذریعے مسلمان یہودیوں ، مسیحیوں ، ہندووں، بدھوں کی بے عزتی کرنے میں آزاد ہیں۔ محمد اسلام اور مسلمان کیا ان کی بے عزتی سے خوش ہوتے ہیں؟ مسلمان عام طور پر کارٹونوں کی اشاعت کو ڈنمارک پر زیادہ شکایت کے ساتھ واضح کرتے ہیں۔ کیا وہ اس ڈش کے مستحق ہیں جبکہ یہ اس طرح کی ذلالت سے قدرے مختلف ہے۔
جرمنی کے ڈائے والٹ کے اخبار میں ایڈیٹر نے اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے " کہ مسلمانوں کا احتجاج قدرے سنجیدہ ہو گا اگرچہ وہ کم ریا کار تھے ۔ سیرین ٹیلی وژن میں دستاویزی ڈرامہ چلایا گیا پرائم ٹائم میں کہ وہی ایک کینبل ( گوشت خور) ہے امام خاموش تھے ویسے نہ ہی اماموں نے کوئی احتجاج کیا انہوں نے ڈنمارک کے جھنڈے پر بنے ہوئے صلیب پر انہوں نے سٹومپنگ کی۔
یہ موضوع کافی مضبوط ہے تاہم، کیا مسلمان ریاکار نہیں ہیں لیکن اسلام افضل مذہب ہے۔ ڈنمارک کا ایڈیٹر جس نے کارٹونوں کو شائع کیا فلیمنگ روز بیان کرتے ہیں کہ اگر مسلمان مجبور ہیں کہ میں ایک غیر مسلم ہوں مجھے ان کی حرامکاری کے تابع ہونا چاہیے وہ مجھ سے تابعداری مانگ رہے تھے۔
بے شک رابرٹ سپنسر ڈنمارک کے ساتھ دینا کا مستقل طور پر کھڑے ہونے کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ بروسل جنرل ان معلومات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سب اب ڈنمارک کے لوگ ہیں! کچھ حکومتیں اسکو قبول کرتے ہیں۔
- ناروے: ہم معافی نہیں مانگیں گے کیونکہ یہ ناروے کی طرح جو آزادی کی اسلوبِ بیان کی اجازت دیتا ہے۔
- جرمنی: جرمن کی حکومت کو کیوں معافی مانگنی چاہیے ( کیا جرمنی کے اخبار کے لیے ان کارٹونوں کی اشاعت ہو رہی ہے) یہ ایک پریس کی آزادی ہے داخلی وزیر ولف گینگ سکولیوب نے کہا ۔
- فرانس: سیاسی کارٹون فطرت کے حساب سے بیشمار ہیں اور میں انکی تائید کرتا ہوں اس بگاڑی ہوئی تسویر کے احتساب کی داخلی وزیر نکلوس سارکوزے نے رائے دی۔ دوسری حکومتوں نے غلط معافی مانگی۔
- پولینڈ: وہ لگاتار آزادی کے جذبات کی حد بندہ میں قیاس آرائی کرتے ہیں جن کی ضرورت ہے پرائم منسٹر کاظیمی مارسنیکیوزک نے بیان کیا۔
- برطانیہ: ان کارٹونوں کی اشتہار بازی غیر ضروری تھی یہ بے حساس بن چکا ہے، یہ ایک بے قدری ہے یہ غلط ہوا ہے بیرونی سیکرٹری جیک سٹرا نے کہا۔
- نیوزی لینڈ: یہ بلا معاوضہ توہین ہے کیا یہ تجارت کا تبادلہ خیال ہے منسٹر جم سٹن نے کارٹونوں کے بارے میں بیان کیا۔
- امریکہ: یہ مذہب کو بھڑکاتے ہیں نسلی بغض اس طریقے سے قابل قبول نہیں ہے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پریس آفیسر جینلی حورنیمس نے کہا۔
پرانے یورپ کی طرح یہ عجیب ہے " اسکی ریڑھ کی ہڈی کو تلاش کرنا اینگلو سفر کا کانپنا امریکہ کی حکومت کا رد عمل افسوس ناک تھا یہ ملک کی اسلامی تنظیم نے اسے اپنی طاقت کے زور پر جیتا ہے۔ ( ایہ امریکہ کے اسلامی رشتہ پر ایک کونسل ہے) یہ حیران کن بات نہیں ہونی چاہیے تاہم، واشنگٹن کے لیے جو اسلامی رویے کی تاریخ کو ترجیح دیتا ہے۔
دو ابتدائی مواقعوں پر یہ بھی محمد کی توہین کو تسلیم کرنے کے کیس میں ہچکچاتے ہیں۔
1998 میں سلیمان رشدی کو عطااللہ کمیانی نے موت کا حکم دے دیا اس نے اپنے میجیکل ریلسٹک ناول میں محمد کو طنز کیا۔ ابلیسی آیات خواہ وہ اس ناول نگار کی زندگی پر قائم تھے صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے ابلیسی آیات اور موت کے حکم کو دونوں کو برابر غلط تسلیم کیا۔ سٹیٹ کے سیکرٹری جم اے بکر III نے صرف اس لیے افسوس ناک حکم کی اصلاح کی۔
1997 میں اس سے بھی برا ہوا جب ایک اسرائیلی خاتون محمد کے ایک پوسٹر سے جس میں محمد کو ایک سور کی مانند بیان کیا گیا تھا سے بیزار ہوئی۔ امریکی حکومت کے لیے یہ شرمناک تھا اسکی حفاظت کی فری تقریر تھی۔ صدر بل کلنٹن کے کہنے پر ریاست کے ڈیپارٹمنٹ کے سپوکسمین نکلوآس برن نے عورت سے سوال کیا خواہ بیمار یا بری اور بیان کرتا ہے کہ وہ اسلام پر غضب آلودہ جملے پر آزمائش کی حقدار ہے۔ ریاست کے ڈیپارٹمنٹ نے طاقت کے زور پر تقریر کی حفاظت کے لیے مجرم کا ٹرائل کیا یہ اس طوفان کے سیاق و سباق کے لیے عجیب تھا۔ میں نے اس وقت نوٹ کیا کہ اس کے ذریعے ریاست کے ڈیپارٹمنٹ نے تفصیل بیان کی کہ میں نے اس بد زبانی کے خوف ناک حوالے کو نہیں پایا۔
یہ واقع ریوانڈا کی جگہ وقع پذیر ہوا جہان انکی سینکڑوں ہزاروں جانیں گئیں۔ مسٹر برنر اس واقع سے بین الاقوامی تعلقات سے محتاط تھے۔ مغربی حکومتوں کو اسلامی ریاست پر نصاب کو ختم کرنا چاہیے اور تاریخی طور پر آنے والے مسلمانوں کی پائیداری کو غیر مسلمانوں کے لیے محکوم بننا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے آنے والی کتاب کو پڑھنا شروع کیا ہو جو افرائیم کرش نے لکھی۔ اسلامی ایمپلیرازم ایک تاریخ ہے۔
مہربانی کر کے وہ جو آزاد ہیں انہیں ڈنمارک کے ساتھ کھڑا ہونا ٹھیک نہیں ہے۔