داؤد دوم کا آخری کیمپ اور ( اقصیٰ اِنتفادہ پیروکاروں نیں اسے تسلیم کیا کیا ہر کوئی اس کے متعلق جانتا تھا ۔ یروشلیم ایک بند موضوع ہے جو اسرائیل کا معاملہ کرنے والے عربوں کو سامنا کرنا پڑا۔
اس حصے میں یہ ایک عملی مسلہ ہے فلسطینی مجبور ہیں کہ اسرائیل کا دارلخلافہ انکی مستقبل کی ریاست کے دارالخلافے کے طور پر کام کرے۔ کچھ اسرائیل اس کو قبول کرنے کے لیے رضا مند تھے لیکن زیادہ تر اسے مذہب کا مسئلہ قرار دیتے تھے ۔ پرانا شہر یہودیوں کے لیے ایک مقدس حیثیت رکھتا ہے اور اسطرح مسلمانوں کے لیے بھی۔ ( مسیحیوں کے لیے بھی لیکن مسیحی یروشلیم کو آزاد کرنے کے لیے سیاسی دعویٰ نہیں کرتے) اور دونوں اس مقدس شہر علاقے پر اقتدار جمانے کے لیے مجبور ہیں۔
یروشلیم میں تھیالوجیکل اور تاریخی مسئلہ ہے وہ شہر کے کاموں کو برابری کے ساتھ انجام دیتے ہیں اور براہ راست عملی نتیجہ ہے۔ یہودیوں اور مسیحیوں کا شہر کے ساتھ گہرا رابطہ ہے اس لیے یہ شہر جائزے کا تقاضا کرتا ہے۔ مسلمان کیا کہتے ہیں؟ اسلام میں یروشلیم کی صحیح جگہ کہاں ہے ۔
مذہبی دعوے کو جانچنا:
یہودیوں کا یروشلیم کے ساتھ پرانا اور گہرا تعلق ہے تین ہزار سال پہلے یہودیوں نے اس شہر کو مقدس قرار دیا۔ یہودیوں کے وقت میں یہ شہر زیادہ وسیع رہا یہودی اس کی طرف منہ کرکے دعا کرتے ہیں اور اسکا نام لگاتار دعا میں استعمال کرتے ہیں یہودیوں کی عید کے ساتھ ایک سنجیدہ عبادت ہے۔ اگلے سال یروشلیم میں ہر کھانے کے آخر میں برکات کے لیے شہر کا نام لیتے ہیں اس شہر کی بڑی تباہی سے یہودیوں کو بہت گہرا احساس ہوا اسکی یاد میں وہ خاص ایک دن کا نوحہ کرتے ہیں وہ اپنے گھروں سے کم باہر نکلتے ہیں۔
ایک عورت سجنے اور زیور پہننے سے رہ جاتی ہے شادی کی تقریب کے دوران شیشے توڑتے ہیں وضاحت میں یروشلیم اپنے تاریخی اور نا ختم ہونے والے قانون رکھتا ہے۔ وہ صرف یہودی ریاست کا دارلخلافہ ہے یہ وہی شہر ہے جہاں یہودیوں کی اکثریت ہے جیسے پچھلی صدی میں تھی۔ اب کے موجودہ مئیر کے لفطوں میں یروشلیم یہودیوں کی تمام دعاؤں کے اسلوبِ بیان کا خیال رکھتا ہے اور انکی نمائندگی کرتا ہے۔ انکی دعاؤں کے لیے ، انکے خوابوں کا ، انکے رونے کا دو ہزار سال پہلے مرنے کا اسوقت دوسری ہیکل کی تباہی ہوئی تھی ان سب کا خیال رکھتا ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ میں؟ یہ اسکے متبادل نہیں ہے۔ یہاں وہ دعا کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی دعاؤں کے نام میں اس کا ذکر آتا ہے اور یہ محمد کی زندگی میں ایک دنیاوی واقع کا رابطہ رکھتا ہے۔ یہ شہر دارلخلافے کے طور پر ایک اسلامی ریاست مءیں اقتدار استعمال نہیں کرے گا۔ یہ کبھی بھی ثقافتی یا مفکری مرکز نہیں بنا تھوڑی سی سیاسی درآمد کا آغاز مسلمانوں کے ذریعے سے ہوا تھا۔
اس کا موازنہ اس نقطے کو زیادہ واضح کرتا ہے : یہودی بائبل میں یروشلیم کا ذکر 669 دفعہ ہوا ہے اور صیون( جسکا عام طور پر مطلب ہے یروشلیم، بعض اوقات اسرائیل کی سر زمین) کا 154 دفعہ یا 823 دفعہ ذکر ہوا ہے۔ کلو منیسٹ موس کون نے اس میں فرق نوٹ کیا ہے یروشلیم اور صیون کا ذکر قرآن میں اکثر نظر آتا ہے۔ ایسے ہی وہ کرتے ہیں لیکن ہندووں میں بھاگوان ، گیتا ٹوایسٹ ۔ ٹاؤ۔ ٹی چنگ بدھ مت کی دامپادا آتش پرستوں کی زنداوبسنا جس میں یروشلیم کا ذکر ایک دفعہ بھی نہیں ہوا۔
شہر کی اہمیت جیسے چھوٹے مذہب کی صداقت کی ہے یہ نقطہ مسلمانوں کے لیے اتنا بڑا کیوں ہے کہ مسلمان صیون کو دیکھتے ہیں اس کو اسلامی دنیا کا حصہ بنانے کے لیے کیوں فلسطینی اس کی گلیوں کے شور کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم کیوں اپنی زندگیوں کو اور خون کو " یروشلیم" تمہارے لیے کریں گے اور ان کے ہم ذات یردن میں شور کرتے ہیں ۔ " ہم اپنے خون کو زندگیوں کو القصیٰ کے لیے قربان کریں گے"؟ کیوں سعودی عرب کا بادشاہ فہد مسلمانوں کو ریاستوں کی حفاظت کے لیے کہا " مقدس شہر جو تمام اسلامی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں"؟ کیوں امریکہ کے مسلمانوں نے دوبار اسکا جائزہ لیا یروشلیم کو تلاش کرنے کے لیے انکے بیرونی ملک کے موضوع کی پالیسی کے تحت۔
کیونکہ یہ سیاست ہے جو ایک ایک تاریخی جائزے کا اظہار کرتا ہے جو شہر کی اونچائی پر واضح ہے اور جذبات اسکا احاطہ کرتے ہیں یہ مسلمانوں کے لیے لا علاج مسئلہ ہے جب کہ یروشلیم ایک سیاسی معنی رکھتا ہے خوش بیانی کے طور پر جب یروشلیم کا افادہ ختم ہو جائے گا تو اس کے رتبے اور جذبات کا کیا ہو گا۔ پہلی ساتھ صدیوں میں محمد کی زندگی کے وقت کے دوران اس طریقے کا آغاز ہوا ۔ اور بارہویں صدی میں کونٹر کروسیڈ اور تیرہویں صدی میں صلیبی جنگیں، برطانوی حکومت کے دوران ( 1917-48) اسرائیل کے وقت 1967 میں شہر کو حاصل کر لیا۔
استحکامی طور پر ایسے ہی لمبے عرصے کا بیان ایک اہم نظارے کی تشکیل دیتا ہے موجودہ مقابلے میں ۔
1۔حضرت محمد:
عربی تاریخ کے مطابق محمد نے 622 میں مکہ کے آبائی قصبے کو مدینہ کے لیے خیر آباد کہہ دیا اس شہر کے ساتھ یہودیوں کی کافی آبادی موجود تھی۔ جب وہ مدینہ پہنچا اگرچہ وہ ابتدا میں خفیف سا تھا ۔ قرآن نے یہودیوں سے دوستی کے لیے ایک نمبر کو تسلیم کیا یوم کپور تیزی کے ساتھ، ایک یہودیوں کی مسجد، دعا کر نے کی جگہ پر ان کوفطیر کھانے کی اجازت دی اور یہودی عورتوں کے ساتھ شادی کرنے کی بھی اجازت دی ۔ سب سے زیادہ اہم ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ وہ اسلام کی تربیت کی مکہ کی طرف منہ کر کے دعا کرنا چھوڑ دیں کعبہ کی طرف کریں۔ مکہ میں خاص مسجد کے درمیان ایک چھوٹے سے پتھر کا ڈھانچہ لگایا گیا اسکی بجائے یہ کہ یہودی تربیت جو ہیکل کی طرف منہ کر کے یا یروشلیم میں دعا کے وقت جمع ہو کر کرتے ہیں قبول کریں ( حقیقت میں قرآن صرف " سیریہ" کو رہنمائی کے طور پر بیان کرتا ہے دوسرے طنزیہ نگار یروشلیم کے مطلب کو واضح کرتے ہیں)
مسلمانوں کا پہلا قبیلہ جو آخری نہیں تھا۔ یہودیوں نے اس نئے ایمان کر طنز کیا اور اسلام کے دوستانہ اشارے کو رد کر دیا: نہ کہ لمبے عرصے کے بعد قرآن نے انکے ساتھ تعلق توڑ دیا غالباً 624 کے ابتدا میں اسکی تبدیلی کی وضاحت قرآن کی آیات میں ملتی ہے کہ قرآن ہدایت کرتا ہے کہ " سیریہ" کہ جانب منہ کر کے دعا کرنے سے دعا میں زیادہ معموری نہیں ہوتی ۔ لیکن مکہ کی جانب بہتر ہے: پیرا گراف ( 2: 142، 52) ایک سوال کے ذریعے ایک بے ربط تبدیلی کے متعلق پہل کرتا ہے بے وقوف لوگوں کے درمیان کہیں گےکی طرف مڑیں گے جیسے وہ ہمیشہ استعمال کرتے تھے؟
تب خدا جواب دیتا ہے:
ہم قبیلہ میں مقرر ہوئے جسکو تم ہمیشہ سے استعمال کرتے تھے یہ آزمائش ان کے لیے جنہوں نے محمد کو قبول کیا اور ان کے لیے بھی جو اسلام کی طرف مڑیں گے۔
دوسرے لفظوں میں نیا قبیلہ اس طریقے سے یہودیوں سے مسلمانوں کی شناخت کرتا ہے جبکہ آج سے مکہ دعا کی سمت ہو گا ۔ اب کیا ہم قبیلہ کی طرف مڑیں گے کہ آپکی مہربانی ہو گی تب اپنے چہروں کو مقدس مسجد کی طرف موڑیں۔ وہاں پر آپ ہمیشہ سے اس سمت اپنے چہروں کو کرتے آئے ہیں۔
قرآن اس نقطے کے متعلق دہراتا ہے کہ یہودیوں کی طرف توجہ زیادہ مت دیں۔ اگر آپ بھی دوسرے لوگوں کی کتاب کے نشانوں کے بارے سوچتے ہیں وہ آپ کے قبیلے کی پیروی نہیں کریں گے۔
بعد میں مسلمانوں نے قرآن کی تصدیق کے بعد اس کامل نقطے کو قبول کر لیا کہ یروشلیم کو قبیلے کے طور پر قبول کرنا یہ ایک مناسب موقع تھا یہودیوں کو قبول کرنے کا۔ لوگوں کی کتاب کے مطابق اسنے یروشلیم کو مقدس شہر کو چننے کا حکم دیا شاید یہ قبول ہو گا " تاباری پر غور کریں ابتدائی مسلمانوں نے قرآن پر تبصرہ کیا" اور یہودی خوش تھے "۔ موجودہ تاریخ نگار راضی تھے ڈبلیو مون ٹگری واٹ محمد کا نسب نامہ بیان کرتا ہے اس نے نبی کے وضاحت کی کہ کاف دیر بعد اس نے یہودی جذبات کر رعایت کی دو تحریک نگاروں کی روشنی میں ان میں سے ایک خواہش تھی کہ یہودیوں کے ساتھ صلح ہو۔ قرآن کی ہدایت کے بعد مسلمانوں نے یروشلیم کو چھوڑ دیا مسلمانوں کے تابع اس قبضے کی وضاحت جب بشپ آرکلف دورے کے لیے وہاں آیا فانسیسی مقام پر 680 میں تو اس نے اسے دیکھنے کے بعد رپورٹ پیش کی۔ " عبادت کرنے کے گھر جہاں بکھرے ہوئے مسلمان اکٹھے ہوتے بڑے منصوبوں کے ساتھ اس تباہی پر وہ بڑی خوشی مناتے " یہ آخری حصہ نہیں ہے حفاظت کے ساتھ مسلمانوں کے کنٹرول میں یروشلیم ٹھہرا ہوا پانی بن گیا۔ یہ داستان کسی کو تبدیل کرنے کے لیے بہتر ہو گی جو کئی دفعہ کامیاب صدیوں پر دہرائی گئی۔ مذہبی طور پر مسلمان یروشلیم میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ دباؤ سے لیکن عارضی مناسبت سے ۔ لیکن جب وہ غلطی کو تسلیم کرتے ہیں انکی مرکزی نگاہ یروشلیم اور شہر کی بڑی غلطیوں کی طرف ہوتی ہے۔
عماد:
یروشلیم میں دلچسپی کے دوران میں جو دمشق کی حکمرانی کے دوران عماد ڈینسٹی ( 661-750) کی بنیاد پر وقع پذیر ہوا۔ مکہ میں ایک مخالف رہنما عبداللہ بن زبیر 680 میں عماد کے مخالف ہو گیا، آخری حد تک جب تک اسکی موت نہ ہوئی 692 تک وہ اسکے خلاف لڑتا رہا عماد کی حکومت نے سیریہ میں سرفرازی پائی عرب کے خرچے پر انہوں نے دمشق کو پاک کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے۔ لیکن زیادہ تر انکی مخالفت اس میں شامل تھی عبرانی یونیورسٹی کے ابمبکام ایلاد کیا کہتا ہے کہ اسکو بڑا بنانے کی ایک بہت بڑی کوشش ہے یروشلیم کو عزت دینے کی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اسکو مکہ کے برابر بنانے کی کوشش کرتے ہوں۔
یروشلیم کے قریب عماد یہوآویہ کا پہلا حکمران ہے اس جگہ پر جہاں وہ خلیفہ بنا۔ وہ اور اسکا جانشین تعمیراتی کاموں میں مصروف تھے۔ مذہبی عمارتوں کو اور شہروں کی سڑکوں کو تعمیر کرنے میں مصروف تھے۔ ممکن ہے عماد نے یروشلیم کو تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہو یروشلیم ان کا دارالخلافہ اور انتظامیہ کی جگہ ہے ظاہر ہے کہ ایلاد نے انکے سلوک کا کچھ ایسا اثر پایا ہو لیکن یروشلیم ایمان کا ایک بنیادی شہر ہے اور اسرائیلی معکہ اضحاق حسین نقیل بیان کرتے ہیں کہ عماد اس بیان کو منسوب کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اسلامی خوشبو اس کا مرکز اور تسلط ہے۔ یہ عماد خلیفہ کا اسلام کا پہلا تعمیراتی ڈھانچہ ختم ہونے کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ چٹان کا گنبد یہودیوں کی ہیکل کی جگہ پر 688 میں بنایا گیا یہ قابل قدر عمارت پر نہ صرف اسلام کی پہلی چٹانی مقدس عمارت ہے بلکہ یہ صرف ایک ہے جو آج تک پوشیدہ شکل میں اپنی اصلی حالت میں کھڑی ہے۔
عماد کا اگلا قدم دماغی وہم کی جانب قرآن کے پیراگراف کو نوٹ کرنے کے وقفے کا تقاضہ کرتا ہے( 17: 1) یہ محمد کا آسمان کی طرف رات کے سفر کو بیان کرتا ہے اسکے نام کو جلال ملے جو اپنے خادم کو رات کے اندھیرے میں ایک مقدس مسجد سے دوسری مسجد میں کے کر گیا۔
جب قرآن نے پہلی دفعہ اس پیراگراف کا انکشاف کیا تقریباً 621 میں یہ جگہ مقدس مسجد کہلاتی ہے جو مکہ میں موجود ہے۔ اس فرق میں " سب سے دور مسجد" ایک جملے میں بیان ہو جاتی ہے نہ کہ جگہ کے طور پر کچھ ابتدائی مسلمان اس کو استعارے کے طور پر سمجھتے ہیں ایسی جگہ آسمان پر موجود ہے اگر زمین پر یہ " مسجد" موجود ہوتی تو فلسطین میں اس طرح کی جگہ دیکھنے کے قابل ہوتی۔ ان میں سے کچھ کے لیے یہ وجوہات ہوتیں کسی بھی جگہ پر قرآن میں ( 30: 1) لکھا ہے کہ فلسطین سب سے زیادہ قریبی جگہ کہلاتی ہے۔ فلسطین نے ابھی تک مسلمانوں کے ذریعے فتح پائی ہے اور نہ ہی کوئی ایک بھی مسجد بنائی ہے۔
" سب سے دور مسجد" عرب میں ایک جگہ پر ظاہر شناخت میں تھی۔ ایسے مدینہ یا جارانہ قبضہ کہلاتا ہے یہ مکہ میں 10 میل کے فاصلے پر موجود ہے جہاں پر نبی نے 630 میں دورہ کیا۔
ابتدائی مسلمان یروشلیم کو شمار کرتے جیسے خلیفہ بیان کرتا ہے عمر نے رپورٹ پیش کی 638 میں مسلمانوں کے طنز کے بعد اس شہر کا دورہ کیا۔ قرآن کی " سب سے دور مسجد" کے ساتھ کسی بھی جگہ پر چٹان پر گنبد کی شناخت نظر نہیں آتی۔ قرآن اسکی نقش نگاری کرتا ہے کہ 240 میٹر کا موسیٰ کا کپڑا چٹان کی گنبد کی اندرونی جانب لگایا گیا۔ اسکو قرآن 17: 1 شامل نہیں کرتا ۔ اور رات کے سفر کی کہانی تجویز کرتی ہے کہ یروشلیم کے متعلق 692 خیالات ہیں۔ کہ جب رات کے سفر کی سواری ختم ہوئی تو اس وقت کوئی بھی ترقی میں نہیں تھا۔ ( ضروری طور پر قرآن کی نقش نگاری کی پہلی وسعت 17: 1 یروشلیم میں گیارہویں تاریخ ہے ) محمد ابن حنیفہ ابن الحنفیہ ( 638-700) محمد کا قریبی رشتہ دار ہے اس نے قوم کی رسوائی کا حوالہ دیا کہ نبی نے ہمیشہ اپنے پاؤں کو چٹان پر یروشلیم میں رکھا ۔ سیریہ کے لوگ بھی یہی تقاضا کرتے ہیں کہ جس کا مطلب وہ بیان کرتا ہے " عماد" کہ خدا نے اپنے پاؤں یروشلیم میں چٹان پر رکھا۔ اگرچہ ایک آدمی نے ہمیشہ اپنا پاؤں چٹان پر رکھا جسکا نام ابرہام ہے۔
715 میں انکی حکومت کا وقار بڑھا عماد نے زیادہ چالاک چیزوں کا استعمال کیا۔ انہوں نے یروشلیم میں دوسری مسجد بنائی ۔ دوبارہ پتھر کی ہیکل پر ایک مسجد بنائی جو سب سے دور مسجد اقصیٰ کہلاتی ہے حماد نے اس وقت میں اس شہر کے محمد کو اصول دیے یہ یروشلیم کی مسجد اقصیٰ کے ساتھ ملتی ہے۔ مسلمانوں کی بڑی جماعت کی جگہوں کی شناخت کے نام قرآن سے ملتے ہیں وہاں پر قرآن ایک واقعہ کی کہانیوں کے نام کوبیان کرتا ہے۔ یہ واقعات کہانیوں کے ساتھ نئے اثرات کیسے، کہیں پر، اور کسی کو دیتے ہیں۔ کیا وہ اس کے متعلق جانتے تھے۔
اس تمام راز کے باوجودیکہ ( قرآن کے بعد قریبی صدی میں مسجد کیسے تعمیر ہو سکتی ہے اور اسکی ترقی کیسے ہوتی قرآن کا مطلب کیا ہے) فلسطین کی تاریخ میں مسجد اقصیٰ کی حقیقی عمارت تعمیر کرنا ہے ( اے ایل) طب وائی مصنف قرآن میں استعمال ہوئے ناموں کی حقیقت بیان کرتا ہے اس نے پرانے یروشلیم کی دلچسپی کا گہرا اثر ڈالا ہے۔ قرآن میں اسکا ذکر ہے اور اس نے اسکو اسلام کا مرکز بنا دیا ہے۔ اور یہ دوسری تبدیلیوں کا نتیجہ بھی ہے۔ بہت سارے قرآن کے پیراگراف نے اس شہر کی تصدیق کا اشارہ بھی کیا تھا۔ آخری وقت میں یروشلیم کی جگہ دیکھنے کو آئی۔ عماد نے غیر مذہبیوں کے اومن نام کو ان شہروں سے ختم کر دیا ۔ ایلیاہ کپٹویونیا ( عربی میں علیہ) اسکے متبادل یہودیوں کی طرز کا نام رکھا جو القدس ہے( مقدس) یا بیت المقدس ( ہیکل) اس ادب کے رہنما " یروشلیم کی حقیقت کی تعریف کرتے ہی، ایک جنری مصنف ہے۔ ہیکل کو صیون کا نام دیتا ہے ۔ نبی کی احادیث کو شمار کرتے ہیں ( عربی حدیث اکثر انگلش میں ترجمہ ہوئی " روایتی" طور پر) یروشلیم کی اہمیت میں اس وقت بیان ہوئیں ان میں سے کچھ کا مکہ شہر کے ساتھ ذکر ہوا ہے وہاں پر کوشش کی جاتی تھی کہ مکہ سے ضھ کے بعد یروشلیم کو جائیں۔
مفکر عماد کی تحریک سے اتفاق کرتے ہیں کہ مقدس شہر میں مسلمانوں کی موجودگی ایک اہم مقصد تھا۔ عراق کے تاریخ نگار عبدالعزیز دوری انکے اعمال کے پیچھے سیاسی وجوہات کو پاتا ہے۔ حسین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
چٹان پر گنبد کی تعمیر اور مسجد اقصیٰ کی بھی اس ادارے کے رواج کو عماد کے ذریعے ہیکل کے مطابق ڈالا۔ اور یہ اسلامی تاریخ میں مشرق سے مغرب تک روایتی انداز میں پھیل گیا اس مقدس جگہ کے تمام نکات سیاسی تحریک سے جو یروشلیم کے جلال کے دوران مسلمانوں میں پھیلے۔
تب عماد نے ان نکات کو وسعت دی شہنشاہ کی سرپرستی معمولی بن گئی اور یروشلیم دھندلاہٹ میں گر گیا اگلی ساڑے تین صدیوں میں کتابی تعریف سے اس شہر نے اپنی افادیت کھو دی ۔ اور اس جلالی شہر کی تعمیر ابھی ختم نہیں ہوئی تھی لیکن اس کا وجود ختم ہو گیا۔ ( چٹان پر گنبد 1016 میں ختم ہوا) خدا نے گنبد کو ننگا کر دیا تھا تاکہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا کام ہو شہر کی دیواریں گر گئیں۔ نیو ڈیناسٹی ملڈ یروشلیم کے حکمرانوں سے بدتر ہو گئے اور اس علاقے کے ذریعے نیو یارک یونیورسٹی ای ای پطرس کو کیا کہتا ہے " اور ان کی غارت گری اور ان کے فرق کی وجہ کیا ہے۔ مختصر طور پر اس شہر کی حالت لنگڑاتی ہوئی نظر آتی ہے " سیکھنے والے لوگ کم تھے اور مسیحی کافی تعداد میں بمبونڈ دسویں صدی میں یروشلیم کا آبائی تھا اور صرف دوسرے شہر نے اس دورے کو جاری رکھا۔
خاص طور پر دسویں صدی کے ایک مصنف نے اس شہر کے بارے میں بیان کیا ہے اور یہ " صوبے کے طور پر املاء کے ساتھ جُڑا ہوا تھا ۔ ایک چھوٹے سے فلسطین انتظامیہ مرکز سے دو معنی خیز حالہ جات ملتے ہیں ، ایلد مسلمانوں کی حکمرانی کی ابتدائی صدی میں روشلیم کی خصوصیات کو بیان کرتا ہے اور اس شہر پر قبضے کی اہمیت کا بھی بیان کرتا ہے۔ عظیم تاریخ نگار اس ڈی گوئیٹن نے نوٹ کیا کہ الیقوت کی جغرافیہ ڈکشنری نے بصرہ کو 170 دفعہ اور دمشق کو 100 دفعہ اور یروشلیم کا صرف ایک دفعہ ذکر کیا۔ اور وہ بھی ایک دفعہ پیراگراف میں وہ اس سے اور دوسری صداقت سے نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ مسلمانوں کی حکمرانی کی پہلی چھ صدیوں میں یروشلیم نے صوبائی قصبے سے علیحدہ بہتر زندگی گزاری تھی۔ خلاصی جو خاص طور پر غارت گری سے جبری وصولی گئی اور یہ نوٹ کرنے کے قابل ہےاکثر تکالیف بھی کسانوں کے ہاتھوں پر ہوتیں ہیں اور آرام بھی۔ یروشلیم یقیناً اسلام کے علم میں بہتر نہیں ہو سکا تھا اور نہ ہی کسی دوسرے طریقے سے۔
لیکن ابتدائی دس صدیوں کو پطرس نے نوٹ کیا کہ یروشلیم پر مسلمان حکمرانوں کی حکمرانی زیادہ تر اتفاق تھی۔ خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی خاص سیاسی پہلو نظر نہیں آتا۔ بعد میں بھی : الغزایہ بعض اوقات کہتا ہے کہ " تھامس ایکوناس اسلام کا پیرو کار تھا۔ اس نے یروشلیم کا 1096 میں دورہ کیا لیکن اس نے کروسڈ کی سہہ سرخی کی جانب اپنی طرف سے کوئی اشارہ نہیں کیا۔
III ابتدائی کروسڈز:
یروشلیم کروسڈ پر طنز کا آغاز 1099 میں ہوا نرم دل مسلمان کا رد عمل وجود میں آیا فرینک اس پر زیادہ ترجہ نہیں دیتا ۔ عربی ادب میں لکھا گیا ہے کہ صلیبی جہاد کرنے والے اس قصبے پر قابض ہوئے لیکن یہ انکے کتاب میں بیان نہیں کیا گیا۔ اگرچہ جہاد کی آواز برے کاموں میں پہلے پڑا سکاٹ لینڈ کی سینٹ اینڈریو یونیورسٹی کے رابرٹ ایرون لکھتے ہیں عمانوایل سیون ہیریو یونیورسٹی نے شمار کیا ہے کہ وہ ایک جو صدمے کو نہیں پہچانتا یا جو مذہب کے احساس یا تحقیر کو نہیں جانتا یروشلیم کی بڑھوتری پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش تقریباً 1150 میں صرف مسلمان حکمرانوں نے کی۔ اور یہ لیڈر جہاد کے احساس کے ذریعے یروشلیم کے گہرے جذبات کو بھی پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کو علیحدہ کرنے کے ذریعے کو استعمال کر کے ان کا مقصد جبر کے ذریعے یروشلیم کو پاکیزہ کرنا ہے اور مسلمانوں کی حکمرانیواپس لانا ہے۔ نئے نظریے کے مطابق حدیث نے یروشلیم کو مسلمانوں کے ایمان کے مطابق زیادہ طنزیہ بنا دیا ہے۔ ان میں اسے ایک نے ان الفاظ کو ان پر استعمال کیا جو محمد کے منہ سے نکلے تھے۔ اسکی اپنی موت کے بعد یروشلیم گر جائے گا اور میدان بن جائیگا اسلام کا سامنا ایک دوسری بڑی نا گہانی آفت ہے۔ وہاں پر ایک بھی یروشلیم کی سچائی نہیں ہے اس والیم کا ظہور 1100-50 کے عرصہ میں ہوا اس ادھ صدی میں بہت سارے واقعات ہوئے۔ 1160 صدی میں سبون نے نوٹ کیا " القدس" بروپگنڈ کا پھل ہے: اور جب صلاح الدین نے یروشلیم پر فتح کے لیے مسلمانوں کی رہنمائی کی 1187 میں اس بروپگنڈ کی مخالفت حاصل کرنا اس کا اچانک دورہ ہے " اسکے ایک خط میں کروسیڈ کے برعکس صلاح الدین نے لکھا کہ شہر جو ہمارا ہے ایسے ہی تم اسکے ہو۔ یہ ہمارے لیے بہت زیادہ ضروری ہے مختلف مخصوص لوگوں کے لیے تسخیر نو دہکتی روشنی تم میں رہتی ہے اسکے بعد مثال کے طور پر صلاح الدین کا جانشین ( جیسا کہ عوبید ڈنیٹس جانا جاتا ہے جس نے 1250 تک حکمرانی کی) ایک بڑی عمارت میں اور یروشلیم کے پروگرام کی بحالی کے لیے گیا۔ اس لیے اس شہر کے مسلمانوں کے رویے کے ساتھ وہ بہت متاثر ہوا جب تک یہ لفظ اسلامی یروشلیم کو ہیکل کی قربان گاہ رکھے اس لیے پہلی دفعہ خاص اسلامی عمارتیں شہر کے احاطے میں تعمیر ہوئیں۔ یہ ایڈوانس سٹڈی کے انسٹیٹیوٹ کے پرنسٹن اوئج گبریبر کے وقت ہوا تھا یہ اس نے نوٹ کیا کہ یہ گنبد ایک بہتر جگہ ہے جہاں سے محمد جنت پر گیا اسی جگہ پر اس رات کے سفر کا آغاز ہوا اور اسے جنت کے دورے کا واقعہ ہیکل کی جگہ پر وقوع پذیر ہوا اس چٹان پر یسوع کا خیال کیا جاتا ہے وہ جہاں سے آسمان پر گیا۔
عوبید:
ایک مسلمانوں کے ہاتھ سے یروشلیم کی دلچسپی دوبارہ گر گئی عام حقیقت یہ ہے کہ القدوس جلدی ظہور زیادہ ضروری نہیں تھا مصر کی بنیادی مملکت کی سکیورٹی کے لیے سیاست کے اس دور کے مطابق ملڑی کی مشکلات میں شہر نے بہت سارے اخراجات کا ثبوت دیا ۔ مکگل یونیورسٹی ڈونل بی لیٹل لکھتے ہیں خاص طور پر 1219 میں جب مغربیوں نے مصر پر جب پانچویں کروسیڈ میں حملہ کیا۔ صلاح الدین کا پوتا جس کا نام المعظم نے فیصلہ کیا کہ یروشلیم کے چوگرد سے دیواروں کو ختم کر دیا جائے کہ شہر دیواروں سے صاف کر دیا جائے۔ وہ ان تمام کو مار دیں گے جو دمشق جانے کی آرزو کریں گے ۔ اسلامی سر زمین ان کے ہاتھوں میں ہے یروشلیم کے قلعوں کو گرانے اور اس کے اثر کی ترغیب کو ختم کرنے کی تمام عمودی ڈھلوانوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مصر اور فلسطین کے مسلمانوں حکمرانوں کے وقت بھی الکمال ( صلاح الدین کا ایک پوتا المعظم کا بھائی ) نے مغربیوں کو یروشلیم کے ساتھ تجارت کرنے کی پیش کش کی اگر وہ مصر کو بعد میں چھوڑ دیں گے تو ۔ لیکن اس نے اس پر قبضہ نہیں کیا دس سال کے بعد 1229 میں اسی ہی بات چیت الکمال کے پاس پہنچی۔ جب الکمامل نے یروشلیم کو فرید رچ دوم شہنشاہ کے حوالے کردیا نتیجے کے طور پر جرمنی کے رہنما نے المعظم کے خلاف الکمال کی ملڑی کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ۔ اب وہ ایک اور رقیب بادشاہ تھا۔ الکمال مجبور تھا کہ ہیکل مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہے " اور اس میں تمام اسلامی تربیت ہو " فرید رچ اس کی حالت کی تکمیل کے لیے لگاتار کوششیں کیں ۔ فریڈرک نے اس کی بات چیت پر یروشلیم کی وضاحت کے انکشاف کو الکمال نے بڑے اچھے طریقے سے کیا۔ اس نے چرچوں کی پاکیزگی کو تباہ کر دیا ہے اور وہ گھروں کو گرانے کو تسلیم کرتا ہے دوسرے لفظوں میں صلاح الدین نے اس شہر کو 1187 میں جارحانہ طریقے سے فتح کیا اس نے اپنے پوتے کے ذریعے 42 سال بعد تک رضاکارانہ طور پر کام کیا ۔ ان کے متعلق سیکھنے کے بعد یروشلیم کو مسیحیوں کے ہاتھ واپس کر دیا لیکن مسلمانوں نے اس پیشن گوئی کو گہرے جذبات سے محسوس کیا۔ مصر کی تاریخ بعد میں لکھی گئی اس شہر کو کھول دینے کے بعد یہ مسلمانوں کی بڑی بد قسمتی تھی ان کی پہنچ زیادہ سے زیادہ الکمال تک تھی وہ اس سر زمین کے بہت سارے لوگوں کی توجہ مرکز بنا ہوا تھا۔ 1239 میں ایک اور حکمران عوبیدنصیر داؤد نے اس شہر کی پاکیزگی کا انتظام سنبھالا لیکن تب اس نے اس کروسڈ کو ختم کرنا چاہا نتیجے کے طور پر اپنے ایک رشتے دار کی مدد کے لیے ، لیکن مسیحی مسلمانوں کی نسبت کم پاکیزہ ہیں۔ انہوں نے بیت القدس کو چرچ میں تبدیل کر دیا انہوں نے یہ آخری دفعہ خلل اندازی نہیں کی تھی مرکزی ایشیا کی فوجوں نے فلسطین پر 1244 میں حملہ کیا اور یہ یروشلیم کو ایک دفعہ پھر عوبید کی حکمرانی میں لایا چنانچہ یہ شہر سات صدیوں کے قریب مسلمانوں کی حکمرانی میں محفوظ رہا۔ یروشلیم اس وقت اس کی گرفت میں تھا جیسا اس خط میں بیان ہوا یہ خط عوبید کی حکمرانی میں لکھا گیا جسے صلاح الدین ایوب نے اپنے بیٹے کو لکھا ۔ اگر آپ کو کروسڈ نے قیریو میں دھمکی دی وہ لکھتا ہے کہ وہ آپ سے یروشلیم اور فلسطین کی قیمت طلب کرتے ہیں یہ جگہ بغیر کسی انتظامیہ کی حالت میں ان کو دے دی گئی ۔ تاکہ انہیں مصر میں اپنے پاؤں کا سہارا لینا پڑے ۔
یہاں پر نفسیات کا کام نوٹ کریں کہ بہادر مسیحی اس سر زمین کے فاصلے سے سفر کرتے ہیں تاکہ اس سر زمین کو یروشلیم بنائیں ۔ ان کا دارلخلافہ نے اس شہر کو مسلمانوں کی نظر میں قدرے بڑھا دیا ہے دشمنوں کا ایمان تھا کہ وہ اس شہر کو مضبوط بنائیں اوہ اگرچہ یہ آئنیے کی ایک قسم بن گیا اور مسلمانوں کی دلوں میں پیارے کی شکل تیار کر گیا " سیون" تفیصل دیتا ہے کہ ٹوٹے ہوئے خیالات اس طاقتور احساس میں جڑ جاتے ہیں، یروشلیم کو دیکھنے کے بعد مسلمانوں کی یہ سیاسی ضرورت رہی ہے کہ اس شہر کو اسلام کا تیسرا مقدس شہر بنائیں۔
ملوک اور عثمان کی حکمرانی:
ملوک کے دور حکومت کے دوران ( 1250-1516) یروشلیم اپنی روز مرہ کی غلط نگاہ میں ڈوبا ہوا تھا۔ دارلخلافے کا کوئی بھی شاہی گھرانہ مشیعت میں وسیع نہیں تھا۔ ثقافت ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح تھی ۔ اگرچہ یہ اسلامی جگہوں میں عزت باقی تھی یروشلیم بھی جلا وطن سیاسی لیڈروں کے لیے پسندیدہ جگہ بن گیا۔ اسکا مصر کے نزدیک ہونے کی وجہ سے دیواروں کی کمی جن کو 1219 میں ختم کردیا گیا اور تین صدیوں تک اسکو دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا تاکہ یروشلیم ڈاکوں کا شکار جلدی سے بنے ۔ ان نمایاں مذہبی اداروں کی خاص طور پر مذہبی سکولوں جن کا مجموعی اثر اس شہر میں اسلام کی بحالی لاتا ہے لیکن اس کے ترجمے میں دلچسپی کی ایک عام کمزوری ہے۔ بہت سارے بڑی عمارتیں جن میں مقدس ہیکل بھی شامل ہے ان کو برباد ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا اور اس طرح یہ شہر ویران ہو گیا ۔ چودہویں صدی کی مصنف بمبونیڈ نے مسلمانوں کی کمی میں یروشلیم کا دورہ کیا حملوں کی وجہ سے یروشلیم ویران ہو گیا اسکی حکمرانی کے آخر میں اس شہر کی مقدار صرف 4000 قابل رحم زندگیاں تھیں۔ عثمان کے دور میں ( 1516-1917)ایک شاندار آغاز کیا جب سلیمان نے شہر کی زاندار دیواریں تیار کیں 1537-41 میں اسوقت یروشلیم میں کافی پیسہ تھا۔ لیکن اس قسم کی چیزیں جلدی ہی الٹ ہو جاتی ہیں۔ یروشلیم اب اپنی شان کے ساتھ چل رہا تھا اور یروشلیم نے اس شہر کے غیر رہائشیوں پر ایک سال کے لیے سرکاری ٹیکس لگایا اس تصرف کے بعد پاشے نے یروشلیم کو چھوڑ دیا ۔ اور فرانس کے سیاحت دان فرانس رینے چٹیوبرینڈ 1806 میں اس کا جائزہ لیا ۔ اس وقت غارت گری نے اسکو بغاوت پر اُکسیا۔ ترکی کی حکومت نے ان کے لیے فنڈ جمع کیے مغربی سیاحوں کو نکالنے کے ذریعے سے عام طور پر ان کو اجازت دی کہ وہ یروشلیم میں چند ایک کوشش کریں تاکہ دوسرے شہروں کی طرح اس شہر کی بھی مشیعت بڑھے۔ ٹیکس ظاہر کرتا ہے کہ یہ شہر صابو کے بنڈل درآمد کریں ۔ بعض اوقات یہ محلقہ طور پر گورنر کا عہدہ یروشلیم میں غیر ضروری ہوتا تھا ۔ اور نہ ہی وظیفے کو ٹھیک کیا گیا تھا۔ 1670 میں سیاحوں نے رپورٹ پیش کی کہ اس کا رتبہ گر گیا ہے حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ کے خادموں کا عربی بولنے کا رتبہ بھی گر گیا ہے بہت سارے مذہبی سکول اس دور کے آغاز میں ختم ہو گئے اور 1806 میں آبادی پھر سی گر گئی۔ اس وقت 9000 لوگ رہائش پذیر تھے کیا سلمان اس دور حکومت کے دوران یروشلیم کے مالی حالات کو نظر انداز کر سکتے تھے۔ تاریخ نگار جیمز پارکس لکھتے ہیں کیونکہ اس وقت اس شہر میں جو کچھ تھا بہتر تھا لیکن یہ سب کچھ مسلمانوں کے دور میں وقوع پذیر نہیں ہوئی تھیں۔ اور نہ ہی مسلم حکومت کے اندر یہ چیزیں ہمیشہ محفوظ ہوں گے۔ مغربی مقدس مقامات کے دورے سے ان صدیوں کے دوران یہ رپورٹیں اشارے کے قابل ہیں اور اس کے سیاست دانوں نے بتایا کہ اس شہر کی حالت قابل نفرت ہے۔ جارج سیڈ نیز نے 1611 اس سارے خراب واقعات کو اسی شہر میں پایا تمام پرانی عمارتیں پناہ ہوں گی نئی عمارتیں قابل حقیر ہیں کرسچن ولینی نے تجرباتی مشاہدے کیے ہیں 1784 میں نوٹ کیا گیا کہ یروشلیم کی دیواریں تباہ ہو گئیں ان کا ملبہ خندق میں دفن کر دیا گیا اس شہر کی کرسیوٹ لاکھی کے ساتھ تباہ ہو گئی چیٹوبرنیڈ نے اس ویرانی اور قابل ترس حالت کے متعلق کیا لکھا گبسٹوفلیوبرٹ کی میڈم بوورے فیم نے 1850 میں اس کا دورہ کیا اور ہر طرف تباہی کو پایا اور ہر طرف قبریں تھیں یہ ایسے دکھائی دیتا تھا کہ شاید اس شہر کے گرد خدا کی لعنت منڈلاتی تھی۔ تین مذہبوں کا مقدس شہر بیزاری سے ، تباہی سے اور نظر اندازی اے گلا ہوا دکھائی دے رہا تھا بدبختی آسمان کی پسندیدہ ہے ہرمن ملوکی نے 1857 میں اس کے متعلق رائے دی۔ مارک تیوان 1867 میں اس نے دیکھا کہ یروشلیم اپنی پرانی شان و شوکت کھو چکا ہے اور یہ ایک مکمل گاؤ بن گیا ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانوی حکومت نے جانا کہ مسلمانوں کی کم تعداد یروشلیم میں دلچسپی رکھتی ہے ۔ مکہ کے شریف حسین کے ساتھ 1915-16 میں بات چیت عثمان کے خلاف روگردانی پر ہوئی۔ لندن نے فیصلہ کیا کہ یروشلیم کو دہش گردی میں شامل نہ کریں یہ عربوں کے حوالے ہوں کیونکہ برطانیہ کا چیف ہنر مکہن نے بیان کیا کہ وہاں پر کوئی جگہ جنوب میں نہیں تھی جو اہمیت کے قابل ہو ۔ دمشق کے جنوب میں جس کے ساتھ عرب اپنی بقا چھوڑے۔
روح کی حقیقت یہ ہے کہ ترکی یروشلیم کے فرمانرواں نے یروشلیم کو چھوڑ دیا بلکہ وہ اس کے لیے 1917 میں لڑے ۔ اور انہوں نے برطانوی فوج کے آنے سے پہلے ہی اسکو خالی کر دیا ایک تو وہ یہ شمار کرتے ہیں کہ وہ مقدس شہر کو تباہ کرنے تیاری بھی کر رہے تھے جمال پاشا جو عثمان کا چیف کمانڈر تھا اس نے اسڑیلیا کے اتحادیوں کو یروشلیم کی تباہی کے متعلق ہدایت کی۔ کیا برطانیہ کے شہر کے اندر داخل ہونا چاہیے اسڑیلیا کے اتحادی دراصل انکی بندوقوں کو گنبد پر چلانے والے تھے اور پورے سازو سامان کے ساتھ دو دنوں سے پھیلے ہوئے تھے۔ پیریر وان پیسن کے مطابق وہ ایک صحافی تھا۔ کہ گنبد کی آ ج تک موجودگی آسٹریلیا کی فوج میں یہودیوں کے آٹرلری کیپٹن کی وجہ سے ہے۔ میرک سچوارٹرز اس نے اسلامی مقدس مقامات تک برطانوی فوجوں کو پہنچنے نہیں دیا۔ خاموشی سے اس نے اپنی گن اٹھائی اور برطانیہ کی لائن میں چلا گیا۔
4۔ برطانوی حکومت:
موجودہ دور میں ہوا لعزرس یا فی ایک اسرائیلی مفکر تھی اس نے نوٹ کیا کہ یروشلیم مذہب کا اور عرب کی سیاست مرکز نگاہ بن گیا ہے صرف اس صدی کے آغاز پر اس نے اس اہم تبدیلی کو منسوب کیا اور اس شہر میں یہودی سر گرمیوں کو تازہ کیا یہودیت مغرب کی ماتمی دیوار پر دعویٰ کرتی ہے کہ برطانوی حکومت اس شہر پر 1917-1947 تک رہی ۔ اس وقت انہوں نے یروشلیم کے لیے بناوٹی جذبات کو تازہ کیا۔ عرب کے سیاست دانوں نے یروشلیم کو مکمل منزل برطانوی حکومت کے دوران بنایا عراق کے لیڈرز مسجد اقصیٰ میں اثباتی عبادت کے لیے اکثر آتے تھے۔ اور انہوں نے جذباتی تقاریر کیں ۔ خاص طور پر عراق کے بادشاہ فیصل مشہور تھے جس نے اس شہر کا دورہ کیا وہ ہیکل میں رسومات سے داخل ہو اور ویسا ہی چلن استعمال کیا جب خلیفہ عمر نے پہلی دفعہ 638 میں شہر کو فتح کیا تھا اس وقت استعمال کیا تھا عراق کی شمولیت پر بھی یروشلیم میں اسلامی یونیورسٹی بنانے کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے تھی ۔ اور قونصل خانے کو بنانے اور معلومات کے دفتر کو وہاں پر بنانے کے لیے تھی۔ فلسطینی لیڈر حج ایمان الحسینی نے اپنی مخالف صیون کی سیاسی کوشش کو ہیکل کا مرکز بنایا حسنینی مسلمانوں کو یروشلیم 1931 میں عارضی طور پر لایا۔ فلسطین کے کہنے پر مسلمانوں کے موبالز گوبل خیالات کو بین الاقوامی باشندوں کے لیے اس نے یروشلیم میں مقدس اسلامی جگہوں پر کارنامے سر انجام دئیے ہیں ۔ بین الاقوامی مسلمانوں کو مددگاروں کو تلاش کرنا جو صیونیت کے خلاف اسکی مہم کا ساتھ دیں۔ مثال کے طور پر وہ عرب میں مختلف ملکوں سے فنڈ اکٹھا کرنے میں مصروف تھا گنبد کی اور مسجد اقصیٰ کی بحالی کے لیے بعض اوقات گنبد کی تصویر بھیج کر داؤد کے ستارے کے تحت اسکی یہ چندہ اکٹھا کرنے یادگار جگہوں کہ عزت کی اولیت اسکی یہ کوشش کامیاب رہی۔
شاید مزاج میں ظاہر تبدیلی کا دعویٰ تھا کہ محمد نے اپنے گھوڑے کے گلے میں رسی ڈال کر ہیکل کی مغربی دیوار کی طرف کھینچا۔ سیموئیل برکووٹز اس صدی کا مسلم مفکر تھا جس نے محمد کے متعلق اسے گھوڑے کو باندھ کر مشرق یا جنوب کی دیواروں کی طرف کھینچنے کی بہت سی تھیوری کا بیان کیا ہے لیکن ان مین سے کوئی بھی نہیں ہے جہاں مسلمانوں نے یہودیوں سے پہلے مغربی دیواروں پر کشمکش 1929 میں ہوتی ہو۔ اس طرح کے واقعات مغرب کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں ایک دفعہ پھر مسلمانوں کی سیاست یروشلیم کے لیے زیر ہے۔
اُردن کی حکومت:
برطانیہ اور اسرائیل کی دور حکومت کے درمیان اُردن نے سینڈوچ کے طور پر 1948-67 میں یروشلیم پر حکومت کی اور مفید کیس کی پیش کش کی ۔ حقیقی طور پر جب مسلمانوں نے پرانے شہر پر قبضہ کیا (جو پاکیزگی پر مشتمل ہے) وہ نمایاں طور پر اس میں دلچسپی کھو چکے تھے۔ یہ اسکو چلانے کے لیے پہلا جوش تھا جب اردن نے 1948 میں شہر کی دیواروں پر قبضہ کیا۔ صداقت کے طور پر کوئیک بشپ کی بادشاہ کی تاج پوشی پر " عبداللہ" یروشلیم کے بادشاہ کے طور پر اس سال کے نومبر میں لیکن روز مرہ کی طرح اداسی چھا گئی۔ حشمت کا یروشلیم پر چھوٹا سا اثر جہاں پر ان کے انتہائی بدتر دشمن رہتے تھے اور وہاں پر بادشاہ 1915 میں قتل ہوا۔ حقیقت میں حشمت نے اتحاد کی کوشش کی تھی مقدس شہر کی اہمیت ان کے دارالخلافہ عمان کی حمایت میں ہے۔ یروشلیم نے ایسے برتاؤکیا جیسے برطانیہ کے دارالخلافہ نے کیا لیکن اب وہاں گورنمنٹ کے دفتر بند ہو گئے ہیں ۔ مغربی بینک کے حصے پر یروشلیم نے زیادہ دیر اختیار نہیں کیا۔ اردن کے بھی ایسے مقامی ادارے بند کر دیئے ( عرب کی بڑی کمیٹی مسلمانوں کی سپریم کونسل ہے) اور دوسروں عمان کی طرف کوچ کر دی ۔
اردن کی کوشش کامیاب ہوئیں ایک دفعہ پھر یروشلیم ایک علیحدہ صوبہ ، قصبہ بن گیا جب کی عمان کی آبادی بڑھ گئی۔ 1948 اور 1967 کے عرصہ میں جبکہ یروشلیم کی پچاس فیصد آبادی بڑھی انہوں نے بینک سے قرضہ لیا اور عمان کو سفر کیا۔ اور عمان نے پہلی ملکی یونیورسٹیوں کے اور شاہی خاندان کے رہائشیوں کی میزبانی کی۔ یروشلیم کے عربی باخوبی آگاہ تھے کہ یہ کیا ہو رہا تھا سچائی کے طور پر شاہی خاندان کے رہائشیوں کے متعلق ایک نمایاں شکایت تھی ۔ وہ جگہیں یروشلیم میں تعمیر ہوئی ہیں لیکن اب وہاں سے ختم کر دی گئی ہیں۔ اس لیے یروشلیم اب شہر نہیں رہ گیا تھا بلکہ قصبہ کی قسم بن گیا تھا مشرقی یروشلیم کی میونسپل کمیٹی نے دو قسم کی، اردن کی حکومت نے ان کے شہر کی علیحدگی کے خلاف شکایتیں کی ہیں۔
یروشلیم شاید مذہبی کی بے عزتی کے بحران پر کھڑا تھا مسجدوں کے لیے فنڈز کی کمی تھی اردن کے ریڈیو اسٹیشن نے پھیلا دیا کہ جمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ سے نہیں بلکہ عمان کی ایک نودولتا مسجد سے پڑھی جائے ( طنزیہ طور پر اسرئیل نے اقصیٰ سے پھیلانے کی سروس شروع کر دی ۔ 1967 میں جلدی ہی اسرائیل کی فتح کے بعد بند ہو گئی یہ بڑے طریقے کا ایک حصہ تھا جسے اردن کی حکومت کو یروشلیم پر عارضی کنٹرول حاصل کرنے پر فائدہ ملا ہے اگر انہوں نے شہر کو بحران دیا : مراشل برگر اور تھامس اینڈینوفلس نے نوٹ کیا ، اگرچہ بادشاہ عبداللہ کا سٹائل بذات خود مقدس مقامات کی حفاظت کرنے والا تھا اس نے یروشلیم کے مسلمانوں کو تھوڑی سی حمایتی ترقی دی ۔
نہ ہی اردن کے حکمران اکیلے یروشلیم کو نظر انداز کر رہے تھے بلکہ سچائی کا شہر ، عرب کے سیاسی نقشے سے غائب ہو گیا تھا۔ مارکولم کِرر نے انٹر میں عرب کے رشتے کے متعلق اس عرصہ کے دوران کافی مطالعہ کیا ظاہری طور پر مشرق کا یروشلیم پر کنڑول کو ظاہر ہی نہیں کرتا ۔ 19 سالوں کے دوران بیرونی عرب کے لیڈر یروشلیم میں نہیں آئے ! بلکہ شاہ حسین نے بذات خود یروشلیم کا دورہ کیا۔ شاہ فیصل سعودی عرب کا ، اس نے اس کے متعلق اکثر کہا 1967 میں یہ اس کا یروشلیم میں دعا کا سال ہے۔ وہ وہاں پر دعا سے ظاہری طور پر نہیں اکتاتا جب بھی اسکو وہاں موقع ملا جب ( پی ایل) کی فنڈز کی دستاویزات زیادہ قابل ممتاز ہیں فلسطینی قوم کا 1964 کا معائدہ جو یروشلیم کا تذکرہ نہیں کرتا یا اسے ہمیشہ کے لیے جاری کرتا ہے۔
5۔ اسرائیل کی حکومت:
1967 جون کے ختم ہونے کے بعد اچانک یہ غفلت آئی جب یردن شہر اسرائیل قبضے میں چلا گیا۔ فلسطین نے دوبارہ پھر اپنے سیاسی پروگرام کا حصہ بنا دیا۔ اور گنبد ہر جگہ تصویر میں تبدیل ہو گیا۔ کریانے کے سامان کو یاسر عرفات کے دفتر سے یروشلیم کے نعرے گونجے اور شہر جلد ہی عرب اسرائیل کی کشمکش کا ایک جذباتی موضوع بن گیا۔ ( پی ایل او) 1964 میں اسکی غلطی کے لیے بنائی گئی خاص طور پر یروشلیم کے ذریعے 1968 میں اسے بیان کیا گیا یہ قانون یروشلیم کی سیٹ کی آزادی کی تنظیم کے لیے تھی۔ کروسڈ کے دور کے دوران " لعزرس ۔ یافہ نے سوال اٹھایا مسلمان لیڈروں نے دوبارہ یروشلیم میں اسلامی روایات کی پاکیزگی کی پر زور دیا۔ " اس طریقے سے وہ کچھ ایسے ہی وجوہات سے رہا ہوئے ۔ اور اس طرح کی کچھ احادیث میں ان الزامات کو واپس لیا یہودیوں کی یروشلیم میں عبادت پر گونجنا شروع ہوئے یاسر عرفات نے کہا کہ "القدوس" ہماری اندرونی جذبات میں ہے ۔ ہمارے لوگوں کے جذبات میں عرب کے تمام لوگوں کے جذبات میں مسلمانوں اور دنیا کے مسیحیوں کے جذبات میں موجودہے " زیادہ عبارتیں ایک مکمل نمونہ بن گئیں ( یروشلیم کو اب کہا گیا تھا " پاکیزہ ہونے کے لیے" مکہ اور مدینہ کی طرح : یا " یہ ہماری سب سے مقدس جگہ ہے " ) یروشلیم اب باقاعدہ طور پر عربی زبان اور متحدہ قوموں کے انقلاب میں تبدیل ہو گیا۔ اردن اور سعودی حکومتوں نے اب ظاہر طور پر یروشلیم کو مذہبی اعتماد دیا جیسے انہوں نے پہلے 1967 میں اسے ڈسا۔ ۔
اکیلے فلسطین نے ہی نہیں یروشلیم پر رعب جمایا تھا شہر نے دوبارہ پھر موبائلزنگ مسلمانوں کے بین الاقوامی خیالات کے لیے ایک طاقتور وسیلہ بن گیا تھا۔ 1969 میں یہ خاص طور پر واضح ہوا جب بادشاہ فیصل مسجد اقصیٰ پر جلتی ہوئی آگ پر ریاست کے معائدے 25 مسلمان سربراہوں میں یہ شدت ہوئی تو اس وقت شاہ فیصل نے صلح کروائی ۔ اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی بنا پر متحدہ قوموں کی طرز کا ایک ادارہ مسلمانوں کے لیے قائم کیا ۔ لبنان میں ایک مذہبی گروپ حذب اللہ نے گنبد کی تصاویریں دیواروں کے اشتہاروں سے ہر چیز پر ہر تصویر کے تحت اکژ اس کے نعرے کو بھی دہرایا " ہم آگے ہیں جا رہے ہیں۔ " لبنان شیعوں کی حکمرانی کی رہنمائی کر رہا ہے محمد حسین فدا اللہ نے اسرائیل سے یروشلیم کی آزادی کا کارنامہ باقاعدگی سے سر انجام دیا اور اپنے لوگوں کی تحریک کو کنٹرول کیا۔ اس کے تذکرہ نگار مارٹر لرامر نے بیان کرتا ہے کہ آسمان پر شور مچانے والا کوا نہیں ہے لیکن وجہ یہ ہے کہ لبنان میں مسلمانوں کے لیے آزادی کی تحریک پیدا کرنا ہے۔
اس طرح ایران کی اسلامی جمہوریہ نے یروشلیم کو مرکزی موضوع بنایا اور اسکے بانی کو اس کے لیے مخصوص کیا ۔ عطا اللہ کمیانی جس نے بیان دیا کہ یروشلیم مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ اور اس کو ضرور انہیں واپس ملنا چاہیے۔ اس وقت مختصر طور پر اسکی حکومت کو پانے کے بعد اسکا ایک ریل سکہ اور 1000 ریل بینک کے نوٹ پر گنبد کا نقشہ بنا ہے ۔ ایران کے فوجی صدام حسین کے ساتھ جنگ پر اور صدام کی فوج نے 1980 میں ایک سادہ نقشہ ملا جس میں انکی تیزی کو عراق کے ذریعے یروشلیم پر ظاہر کیا۔ رمضان کے آخری جمعے عطا اللہ کمیانی یروشلیم کے دن کے طور پر حکم کیا یہ اس اہم موقع کی یاد میں ہے اس میں اس نے اسرائیل کے خلاف بہت سارے ملکوں میں تقاریر کیں جس میں ترکی اور مراکش شامل ہیں : ایران کے اسلامی جمہوریہ میں اس دن چھٹی منائی گئی یروشلیم کی رفاقت کی صورت میں اشتہار اور مہر کے ساتھ ناصحانہ طور ہر نعروں کے ذریعے چھٹی منائی گئی۔ فروری 1997 میں 300،000 لوگوں کے ہجوم نے یروشلیم کے دن کو صدر ہاشمی رفسنجانی کی موجودگی میں منایا یروشلیم کے دن کو منایا گیا دور ڈیربون مجگن یہ مسلمانوں کے دعوے کے جذبات کے لیے جو یروشلیم کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں بہت عام بن چکا ہے ۔ مسلمانون کے اس شہر کے مقدس مقامات حالیہ سالوں میں چار مختلف اجزا پر مشتمل ہیں۔ " یروشلیم کی پاکیزگی نے ایک نئے ادب کو ترقی دی ہے کچھ یروشلیم کے جذباتی لوگ مسلمان بن گئے اور انہوں نے اس کی پاکیزگی کی کتابیں لکھیں ( خاص مغربی زبانوں میں) اور سیاسی وجوہ میں بھی " یروشلیم صرف عرب کے لوگوں کو متحد کرنے کے لیے ایک موضوع ہے) یروشلیم بے مثالی طور پر عربی بولنے کو متحدہ رکھنے کے لیے ایک موضوع بن گیا ہے۔ " یروشلیم صرف عرب کو متحد طور پر دیکھنے کے لیے ایک موضوع ہے۔ یہ صرف عرب کے سیاست دونوں کو متحد کرنا ہے جس کو 2000 میں نوٹ کیا گیا۔
چیلنجوں کے وقت یروشلیم کی حمایت مکہ بھی کرتا ہے نہ صرف ایک بڑا آدمی جیسے شہزادہ عبداللہ سعودی عرب کا اس نے اس کے لیے بار بار کہا " یروشلیم صرف مقدس مکہ کی طرح مقدس شہر ہے " حسین نصر اللہ ، حذب اللہ کا لیڈر ہے اس نے مزید ایک اہم تقریر کی ہم فلسطین کو چھوڑنا نہیں چاہتے تمام فلسطینی اور یروشلیم اس جگہ پر قائم رہیں گے۔ جہاں پر تمام جہادی اپنا منہ اسکی طرف کر کے نماز پڑھیں گے۔
دوبئی کا دعویٰ:
ان بڑے جذبات کے ساتھ دوبئی نے چار اسلامی تاریخی دعوں کو وسعت دی ظاہر ہے یہ اسلامی دعوے یروشلیم پر ہوئے۔
یہود سے اسلام کا رابطہ یروشلیم کے ساتھ برا نہ ہے:
مذہب کے منسٹر نے یہ حق جتایا کہ یروشلیم ہمیشہ سے مسلمانوں کے اقتدار کے انڈر ہے اسی طرح گدا تلمائی نے حجت کے طور پر دعویٰ کیا " کہ اسلام میں دوسرے بھی مقدس شہر ہیں لیکن یروشلیم نے مسلمانوں کے دلوں او۳ر ذہنوں میں ایک خاص جگہ بنا لی ہے۔ کیونکہ قسمت نے ہمیشہ سے ان کے خیالات کا ساتھ دیا ہے کیا ہمیشہ سے یروشلیم نے اسلامی کی تاریخ سے پہلے سے ڈالی ہے تقریباً 2ہزار سال پہلے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابرہام اسلام میں اسلامی تعلقات کی بنا پر واشنگٹن کو چلانے والا ہے اس زمانے کی غلطی کی وضاحت یہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلق یروشلیم پر محمد کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ یہ ابرہام کی وجہ سے ہیں۔ داؤد اور سلام کی وجہ سے ہیں اور یسوع کی وجہ سے ہیں۔ جو اسلم میں بھی نبی کی حثیت رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہودیت کے مرکزی خدوخال اور مسیحیوں نے مسلمانوں کو یقیناً اؤل درجہ دیا تھا۔ یہ فلسطینی آدمی کے لیے کہ یروشلیم پیدائش کے دن سے ہی عرب کے ساتھ تھا۔
یروشلیم کے بارے میں قرآن بیان کرتا ہے:
یروشلیم کی شناخت اس رات کے سفر میں پوری ہوئی قرآن نے اسکو بہت جگہوں پر ذکر کیا ہے حاشیے کے طور پر کچھ عبارتوں میں سب سے دور مسجد یروشلیم کا حوالہ ملتا ہے۔ دوسرے اقدامات کے اندارج کی اصل عبارت میں " سب سے دور مسجد" کے بعد ملتا ہے۔ یہ بہت طریقوں سے پورا ہوتا ہے اس کا ترجمہ رومن رسم الخط میں چھپا ہے۔
مقدس مکہ کا گنبد یروشلیم کے گنبد سے دور تر ہے اس ترجمے کا بھروسہ چوکور بریکٹ کرتا ہے اس مقدس گھر کی تعریف کا ریموٹ یروشلیم کی تعریف کرتا ہے۔ یہودی ٹر ٹر کا ترجمہ اسکی جگہ ہر صحیح اصلی عبارت کے مطابق بغری کسی فرق کے یہ اسکی جگہ پر ٹھیک ہے۔ مکہ میں مسجد مقدس اور فلسطین میں مسجد اقصیٰ!
اگر اب قرآن کے ترجمے کی اصل عبارت میں یروشلیم ہے یہ اتنی حیران کن نہیں ہو سکتی وہ جو ان دونوں کے ترجمے پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اور وہ ایمان رکھتے ہیں کہ یروشلیم کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور یہ باقاعدگی سے ہے کیا امریکی مسلم اداروں پر 200 میں کوئی دعویٰ ہوا۔ ان کا ایک نمبر مزید آگے کیا گیا ہے ہوپر کے مطابق قرآن یروشلیم کا اشارہ کرتا ہے کہ مسجد اقصیٰ ان کا مرکزی ٹکڑا ہے ۔ یہ ایک مشقی غلطی ہے مثال کے طور احمد عبدالرحمان ( پی اے) کی کابینہ کا جنرل سیکرٹری ہے فلسطین کی حکومت پر دعویٰ کرنا ہے اس بنا پر کہ یروشلیم ایک خفیہ مسلہ ہے اور یہ قابل احترام ہے اور کوئی بھی اس پر اس صورت میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا یہ قرآن کا اصل متن ہے۔
محمد نے حقیقت میں یروشلیم کا دورہ کیا:
محمد کی زندگی ایک مکمل تاریخ ہے اور یہ بالکل واضح ہے اور اس میں کہیں بھی ذکر نہیں ملتا کہ اسنے فلسطین اور عرب کو چھوڑا ہو ۔ کچھ کم کہ اس نے یروشلیم کا سفر کیا اس لیے کیبرن آرمسٹرانگ اس نے اسلام پر اسپیشل سٹڈی کی ہے وہ لکھتا ہے کہ مسلمانوں کی اصل عبارت اسکو صاف طور پر بیان کرتی ہے یروشلیم کو رات کے سفر کی محمد کی ایک عارفانہ کہانی ہے۔ یہ جسمانی تجربہ نہیں تھا بلکہ یہ رویا میں تھا اس لیے وہ اس کے متعلق صاف بیان کر رہی ہے اصل میں یہ فقرہ ایک مضمون کے عنوان پر مشتمل ہے۔ " اسلام کی چھڑی کیوں یروشلیم محمد کا مرکز تھا انکے ایمان کے شروع سے ۔ " یہ اتنی اچھی بات نہیں ہے آرمسٹرانگ اپنے آپ کو مسلمانوں کی بے رحم غلط بیانی کے حملے اندر سمجھتا ہے وہ دعویٰ کرتا ہے کہ مسلمان اپنے نبی کے معجزے پر ایمان نہیں رکھتے۔
یہود یروشلیم کو اہمیت نہیں دیتے:
یہودی مغربیوں کے ساتھ رابطے کا پہلا قدم کافی تردید کرتا ہے ہیکل کا پرانا حصہ ہی صرف کھڑا تھا ۔ 1967 میں اسلام کے اعلیٰ لوگوں نے یہودیوں کے اس دیوار کے ساتھ جڑے ہوئے اور اس ہیکل کا نقشہ کھینچا اور ان کے اعمال کا جو انہوں نے مسجد اقصیٰ کے خلاف حملہ کیا ان کی تصویر کشی کی۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل نے اس بات پر واضح اور کھلی حقارت کے ساتھ بولا۔ دیوار ماتم ایک ڈھانچہ ہے انہوں نے اس کے خلاف چلائے ان کا تاریخ طور پر اس پر حق نہیں ہے۔
عبدالمک دا ماشہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کا ایک مسلمان ممبر ہے اس نے واضح طور پر بیان کیا کی مغربی دیواریں ہیکل کے ساتھ منسلک نہیں تھیں فلسطین کی حکومت کی مغربی دیوار کی ویب سائٹ بیان کرتی ہے کہ کچھ مذہبی پرستی یہودی اسکو ان کے لیے مقدس جگہ تسلیم کرتے ہیں اور یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دیوار ان کی ہیکل کا حصہ نہیں جاسکا تمام تاریخی مطالعہ اور غلطیوں کا گھڑا جس میں وہ کسی بھی اس قسم کے دعوے کا ثبوت تلاش کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ ( پی اے) کے مفتی بیان کرتے ہیں کہ مغربی دیوار مسلمانوں کی مقدس جگہ کی صرف مغربی دیوار ہے۔ اور بیان کرتا ہے کہ جہاں ماتمی دیوار میں کوئی بھی ایک پتھر نہیں ہے جو یہودیوں کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہو وہ یہودیوں کے رابطے پر بھی روشنی ڈالتا ہے ۔ اور ان کی برطرف کا ایک اسرائیلی انٹرویو میں بتاتا ہے میں نے سنا ہے کہ آپ کی ہیکل میں تھی یا شاید بیت لحم میں اس طرح یاسر عرفات نے بھی اعلان کیا کہ یہودی حبرون کو یروشلیم سے بھی زیادہ مقدس سمجھتے ہیں۔ وہاں پر ان کے لیے آن یونیورسٹی مصر سے کچھ وظیفے بھی ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی پہلے کی تاریخ یہودیوں کی یروشلیم میں قدیمی رسومات کو الزام دیتے ہیں ۔
اس صورت میں مسلمانوں کے ادارے مغربی میڈیا کو دباؤ میں رکھ کر ہیکل کو اور مغربی دیوار کو انکے اسلامی ناموں سے پکارتے ( الحرام شریف) اور نہ یہودیوں کے پرانے ناموں سے ( الحرام شریف مثال کے طور عثمان کے دور حکومت کی تاریخ سے ہے) جب مغربی صحافی اسے تسلیم نہیں کرتے عرفات نے زبردستی کے ساتھ ساتھ ردعمل ظاہر کیا اور اپنی نیوز ایجنسی کے ساتھ اس حصے کی مخالفت میں ہماری پاکیزگی کے خلاف اسکا نقشہ کھینچا اور اسکا مفتی خیال کرتا ہے کہ اسکی عکس بندی اسلامی قانون کے ساتھ ہو۔ یہودیوں کے لیے دیوار تک رسائی کا دوسرا قدم بھی منفی دکھائی دیتا ہے یہ یہودیوں کو اس مغربی دیوار کے لیے دعا کرنے سے منع کرتا ہے ۔ الیزاٹس اور اسلامی لیڈر اسرائیل میں رہ رہے ہیں ۔ مسجد اقصیٰ کا ڈائریکڑ ایزرٹس ہے وہ کہتا ہے یہ مسلمانوں کے لیے جگہ ہے اور صرف مسلمانوں کے لیے یہاں پر کوئی ہیکل نہیں ہے ۔ صرف مسجد اقصیٰ اور گنبد ہے۔ دی وائس آف فلسیطن ریڈیو اسٹیشن تقاضا کرتا ہے کہ وہ اسرائیلی سیاستدانوں کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ دیوار کو ہاتھ بھی لگائیں۔ اکریمہ سابری فلسطین کی حکومت کے مفتی نے یہودیوں کو دیوار کو دوبارہ بنانے سے منع کرتا ہے۔ اور اس پر اسلامی دعوں کی وسعت دیتا ہے ۔ تمام عمارتیں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اسلامی ہیں تیسرا قدم یروشلیم میں یہودیوں کے ہر قسم کے کنٹرول کو رد کرتا ہے ایسے ہی عرفات نے 2000 میں کیا۔ میں یروشلیم میں یہودیوں کی کسی بھی قسم کی موجودگی سے اتفاق نہیں کرونگا وہ ابجد تھا جس نے سعودی عرب کے کی تاج پوشی کی تھی شہزادہ عبداللہ نے بتایا کہ جہاں پر بات چیت کے لیے کچھ بھی نہیں ہے جس پر باہمی فیصلہ ہونگے جب وہ یروشلیم میں آئے عمان ریاست کے منسٹر کے لیے بیرونی تعلقات میں ہے یوسف بن الاوی بن عبداللہ نے بتایا کہ اسرائیلی پرائم منسٹر نے کہا کہ یروشلیم میں اقتدار فلسطین کو نکال کر اطمینان اور پائیداری ہونی چاہیے۔
آخری قدم میں یہودیوں کی یروشلیم پر رسائی ختم ہے اور اختتام کی جانب ایک آدمی ادب کی نمو میں تاکید کرتا ہے کہ اسلامی دعوں کو چھوڑ کر باقی یروشلیم پر پر تمام کا اختتام ہے سکول اور ٹیکس بکس اور شہر کے قانون مسیحت اور اسلام کے اشارے پر ہیں۔ لیکن یہودیت کو نظر انداز کرتے ہیں امریکہ کے الحافی حماس کا دعویٰ ہے کہ یروشلیم، فلسطین، عرب اور اسلامی مقدس شہر کی طرح ہے گلی میں احتجاجی ایک جھنڈے کے ساتھ پکارتے ہیں کہ " یروشلیم عرب ہے " یہاں یہودیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
یروشلیم کے مخالف خیالات:
یہ مسلمان صیون سے پیار کرتے ہیں لیکن اسکے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے اسلام اس پر محیط ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔ لیکن باقاعدہ طور پر یروشلیم کی مخالفت کے احساس میں تانتا کھینچتے ہیں۔ اس خیال کی تمہید پر زور دیتے ہیں کہ یروشلیم ایک غیر اسلامی ہے اور مکہ کی خاص پاکیزگی کے لیے اسکی جڑ کاٹ سکتے ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں شاہی تاریخ نگار برنارڈ لوئیس نے نوٹ کیا کہ وہاں پر سخت مقابلہ بہت سارے تھیالوجین کے درمیان اور ماہر قانون کے درمیان تھا۔ یروشلیم کے قیاس کے لیے مقدس شہر کے طور پر انکا خیال تھا کہ جیسے یہ یہودیوں کی غلطی ہے اور ایسے ہی ایک اور بہت ساری کوششوں کے درمیان سارے یہودی خیالات کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ یروشلیم کی مخالفت میں بہت ساری کہانیاں گھومتی ہیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یروشلیم کی پایزگی کی قیاس آرئیاں یہودی تربیت کی وجہ سے ہیں۔ انکی سب سے اہم بات ایک یہودی تبدیل ہوا اسکا نام قبا الحیر تھا ۔ خلیفہ عمر کو تجویز پیش کی مسجد اقصیٰ چٹان پر گنبد کے ذریعے تعمیر ہو خلیفہ نے الٹا اس پر الزام کے ساتھ اسکو جواب دیا کہ وہ یہودیوں کی ابتدائی جڑ ہے۔
عمر نے اس سے پوچھا کہ تم کہاں سوچتے ہو ہمیں عبارت کی جگہ بنانی چاہیے قبا نے جواب دیا کہ چٹان پر خدا کے لیے ۔ قبا نے کہا عمر تم یہودیت کے پیروکار ہو میں نے دیکھا کہ تم نے اپنے جوتے یہودوں کے طریقے سے اتارے ۔ میں چاہتا ہو کہ میں اسکو اپنے ننگے پاؤں کے ساتھ چھوڑوں قبا نے کہا۔
" میں نے دیکھا تم" عمر نے کہا " لیکن نہیں تم جاؤ! ہم اس رہنمائی کو چٹان کے لیے تسلیم نہیں کرتے لیکن ہمیں رہنمائی ملی ہے کہ ہم کعبہ کو تسلیم کریں۔
اس ترجمے کا دوسرا واقعہ یہودی رابطے کو زیادہ شرح پسند بناتا ہے۔ ایک قبا البحر کی کوششو ں سے خلیفہ آمادہ ہو گیا۔ عمر نے چٹان کے جنوب کی طرف دعا کی۔ اور اس جگہ کے فائدے کی نشاندہی کی۔ تب پوری اقصیٰ کہ یہ مسجد الحرام آپ کے سامنے ہو گی۔ دوسرے لفظوں میں یہودیوں سے تبدیل شدہ لوگ کہتے ہیں کہ مکہ اور چٹان سیدھی لائن میں ہوں گے اور مسلمان دونوں میں سے ایک میں دعا کر سکتے ہیں ایک ہی وقت میں۔
غالباً ایک حال کے لیے مسلمان اور محمد کی زندگی کے وقت بھی مسلمان اس یروشلیم کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے اور مکمل طور پر ان اثرات کے برعکس اسلام میں شہر قائم ہے۔ لیکن عارضی طور پر یروشلیم کی بیمثال جگہ کو خدا کے ذریعے رد کر دیا گیا۔ کچھ ابتدائی احادیث میں مسلمان اس کے رد ہونے کا بیان یروشلیم کو انکی پیٹھ کی طرف با مقصد دعاؤں کے ذریعے سے کرتے ہیں۔ انکے برتاؤ کے طور طریقے میں انکا نشان چھپا ہوا ہے وہ جو مسجد اقصیٰ میں دعا کرتا ہے لیکن وہ اپنی ہم مکانی سے اپنی پیٹھ کو ہیکل کے علاقے کی طرف نہیں پھیرتا اسکی جانب جس میں یہودی دعا کرتے ہیں۔ اسرائیل کے پرائم منسٹر ایک ہرن کی تیزی کا قاعدہ: جب مسلمان اقصیٰ میں نماز پڑھتے ہیں" انکی پیٹھ اس طرف ہوتی ہے اور اسکے کچھ گھٹیا حصے بھی ہیکل کی طرف ہوتے ہیں۔
ابن تمانیہ ( 1263-1328) کہ ایک اسلامی کی سختی اور ذی اثر مذہب کا مفکر اس نے نمایاں طور پر یروشلیم کی مخالفت کے خیالات پر بولا۔ اس نے کشادہ صف بندی کے لیے اسلام کی پاکیزگی کے اضافے اور پرہیز گاری کے لیے کوشش کی۔ وہ یروشلیم کی تقدیس اے برخاست ہو گیا یہودیوں اور مسیحیوں سے رائے حاصل کی ہے۔ بہت عرصہ پہلے عماد رولری مکہ کے ساتھ تھے ابن تمانہ کا شاگرد ابن قیوم اجوازیہ ( 1292- 1250) مزید گئے اور ان احادیث کو رد کیا جو یروشلیم کے خلاف تھیں۔ مزید وضاحت سے مسلمانوں نے کروسڈ کے بعد رہنا سیکھا۔ اس عظیم شہرت نے یروشلیم کی پاکیزگی کی احادیث دیں کہ صلیبی جنگوں سے پتہ چلتا ہے کہ سیاست کی اہم ضرورت ہے اور اس لیے انکی دیکھ بھال کی۔ متفقہ طریقے یروشلیم کا سیڑھی پر کھڑے ہونے کی پاکیزگی کا اشارہ ملتا ہے ۔ آرٹس کے تاریخ نگاروں نے پایا کہ مکہ کی نمائندگی مدینہ اور کعبہ اور یروشلیم مصوری میں قلیل فرق ہے ۔ ایمان یہ ہے کہ آخرت کی عدالت یروشلیم کی جگہ پر ہو گی قرون وسطیٰ کے کچھ مصنفوں نے کہا کہ بناوٹی طور پر مسلمان اس شہر کا دورہ کرنے پر آمادہ تھے۔ موجودہ لکھاری پرہیز گاری کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہیں یہ کہ یروشلیم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ محمد ابو زیاد نے 1930 میں ایک کتاب لکھی جو بنیادی تھی۔ اس میں گشت اس سے جدا کیا گیا تھا اور اسکی وسعت زیادہ نہیں تھی۔ اسکے درمیان بہت سارے نکات بھی شامل ہیں جو اس نے بیان کیے۔
پیغمبر کی یروشلیم کے راستے سے آسمانی سفر کی برخاستگی کہ قیاس آرائی ملتی ہے۔ حقیقی طور پر قرآن مکہ سے مدینہ کی ہجرت کا اشارہ کرتا ہے مسجد کا ریمورٹ مسجد اقصیٰ ہے۔ اگرچہ یہ یروشلیم کے ساتھ کچھ نہیں کرتا حقیقت یہ تھی کہ یہ مسجد مدینہ میں تھی۔ نقطہ نظر کا نشان یہ ظاہر کرتا ہے کہ تقریباً اسلام میں پرانے یروشلیم پر فتح مکمل ہوئی یہ نقطہ نظر ہے یہ مواقعی تاثرات ہیں اگرچہ یہ مقطر میں 2001 مارچ میں عروبوں کے درمیان انتہائی بڑی میٹنگ ہوئی۔ محمد عامہ الفذافی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مذاق کیا مسجد اقصیٰ کے غلبے کے وہم کے ساتھ " دوزخ اسکے ساتھ تھی " وفد نے اسکے حوالے کو نوٹ کیا تم اسکو حل کرتے ہو یا تم نہیں کرتے یہ صرف ایک مسجد ہے اور میں کہیں بھی دعا کر سکتا ہوں۔
نتیجہ:
سیاست مذہبی حس نہیں ہے اس نے مسلمانوں کو یروشلیم کے ساتھ کے تقریباً 14 صدی میں جوڑا : برناڈ کی تاریخ کیا کہتی ہے ۔ مغربیوں نے مسلمانوں کے جذبات کی نشوونما کے متعلق صلیبی جنگ کے ذریعے سے لکھا اور اسے اس صدی کے ذریعے سے ان پر لاگو کیا اکثر یروشلیم کی تاریخ میں مذہبی رتبے کی پسندیدیت بڑے حصے میں ہو سکتی ہے سیاسی ضرورتوںس کے ذریعے سے۔ اس طریقے میں تین اہم الجھاؤ ہیں پہلا یروشلیم زیادہ دیر نہیں رہے گا۔ دوسری یہ مسلمانوں کا شہر ہے " یروشلیم کی پاکیزگی کا ایمان" سیون نتیجہ اخذ کرتا ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے دور تک نشر کیا جائے۔ اور نہ ہی اسلام کی گہری جڑوں میں دوسری بات مسلمان جھوٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں اس لیے یروشلیم کو زیادہ دیر کنٹرول نہیں کر سکتے کوئی بھی اس شہر پر کنٹرول نہیں کر سکتا۔ تیسری اس شہر کے ساتھ اسلامی رابطہ یہودیوں کو کمزور بناتا ہے کیونکہ اسکی تبدیلی سے یہ اٹھتا بیٹھتا ہے اور اسکا دنیاوی سوچ بچار سے ایک ہی حال میں رکھنے سے ایمان کا دعویٰ کرتا ہے۔
مکہ فرق کے لحاظ سے اسلام کا مرکزی شہر ہے وہ جگہ جہاں غیر مسلمانوں کا داخلہ سختی سے منع ہے بہت بوسیدہ لہجے سے بول رہے ہیں۔ یروشلیم یہودیوں کے لیے اور مکہ مسلمانوں کے لیے ایک ہے قرآن نے بذات خود ایک نقطہ بنایا ہے ( 2: 145) پہچان کے لیے مسلمان ایک ہی قبیلہ اور ایک ہی کتاب ہے نہ کوئی دوسری بار اس نے قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کے ذریعے سے نوٹ کیا تھا ۔ چیفرافر یاکوت لکھتے ہیں مثال کے طور پر کہ مکہ مسلمانوں کے لیے اور یروشلیم یہودیوں کے لیے مقدس ہیں موجدہ دور میں مفکروں نے ایک ہی جیسا نتیجہ اخذ کیا ہے۔ یروشلیم یہویوں کے ساتھ وہی قانون اپناتا ہے جو مکہ مسلمانوں کے ساتھ۔ عبدالحادی یا لازمی لکھتے ہیں یہ ان کے کلچرل ادارے کی اسلامی کمیونٹی کا ڈائریکٹر ہے یکسانیت متاثر کر رہی ہے کہ یہودی لوگ یروشلیم میں تین دفعہ دن میں نماز پڑھتے ہیں مسلمان مکہ کو دنیا میں مقدس شہر کے طور پر دیکتے ہیں۔ جیسے یروشلیم کو وہاں پر یہودی ابرہام کے نزدیک اسماعیل کے بھائی اضحاق یروشلیم میں کرتے ہیں مسلمان اس داستان کو مکہ میں دہراتے ہیں کعبہ اور مکہ مسلمانوں کے لیے ایک جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے ہی یروشلیم یہودیوں کے لیے کعبہ اور ہیکل نا قابل تقلید ڈھانچہ ہے پرہیز گار اپنے جوتے اتار کر ننگے پاؤں سے دونوں کی شان کے لیے اندر جاتے ہیں۔
سلیمانی ہیکل پر بوم کپور سال میں دس دن پر عہدے پر فائز ہوتا ہے اور کعبہ پر بھی نیا غلاف ہر سال کے دس دنوں میں ڈالا جاتا ہے اگر مکہ مسلمانوں کی مقدس جگہ ہے تو وہ جو اس کا بیان کرتے ہیں یہ مسلمانوں کے دلوں منعکس ہوتا ہے ۔ عابد احمد کے مطابق جو اسلامی سوسائٹی آف سینٹرل جرسی کے ڈائریکٹر ہیں۔
اس مسلے کا حل مکہ اور یروشلیم کی بنیادی کوششوں پر ہوتا ہے ۔ جسے شیخ پالیززی وسلے لکھتے ہیں کہ اسکی علیحدہ سمت کی طرف منہ کر کے دعا کرنے مطلب ہے کہ ان مقدس جگہوں کے انتظامیہ میں ممکن مطابقت کی کمی کرنا ہے ۔ یہ ان کےلیے ہے جو اللہ کے تحفے کا توازن اور صلح کے رویے کو قبو ل کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کوئی بھی مسلمانوں کی خواہش کو مکہ پر مکمل اختیار رکھنے کو رد نہیں کر سکتا ۔ اسلامی نقطہ نظر سے باوجود یکہ بے بنیاد مخالفت کی تبلیغی دعوں وہاں کوئی بھی تھیالوجیکل وجوہات کو کم نہیں کر سکتا ان کا بھی یروشلیم پر برابر حق ہے۔ اس خیال پر واپس آتے ہیں پالیززی نے مختلف رکاوٹوں اور قرانی پیراگراف کو نوٹ کیا ہے۔ ان میں ایک ( 5: 22-23) میں حوالہ ملتا ہے کہ موسیٰ نے یہودیون کو ہدایت کی اس تمام مقدس زمین پر جو خدا نے ان کو دکھائی ایک دوسری آیت کو ( 17: 104) خدا نے بذات خود اس نطقے کو بنایا ، ہمارے اسرائیلی بچوں کو کہا بے خوف خطر اس سر زمین پر رہو قرآن 2: 145 حوالہ دیتا ہے کہ یہودی تمہارے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے، اور نہ ہی تم ان کے قبلے کی پیروی کرو گے ۔ یہودیوں کی دعا کی سمت پہچاننے کے لیے ہدایت کی جاتی ہے کہ خدا نے خود یہ کہا کہ یروشلیم یہودیوں کے لیے اہم ہے جیسا مکہ مسلمانوں کے لیے ۔
پالیززی نتیجہ اخذ کرتا ہے:
اس کا تجربہ واضح اور معقول ہے ایسے ہی جیسے مسلمانوں کے لیے مکہ غیر منقسم ہے یہویوں کو بھی غیر منقسم یروشلیم پر حکمرانی کرنی چاہیے۔