90سال کے بعد قدیم خلافت کا ادارہ واپس وجود میں آیا رمضان کے پہلے دن 1435ء ہجری میں جو کہ 29 جون 2014 ء ہے۔ یہ حیران کن تحریک علامتی طور پر مسلمانوں کی اس تحریک کو ابھارتی ہے جو چالیس سال پہلے شروع ہوئی۔ ایک مغربی تمثیل اس بات کا اعلان کر رہی تھی کہ ہیپس برگ کی سلطنت کو بچایا جانا چاہیے جو اپنی وراثت میں قدیم روم سے تعلق رکھتی ہے۔
کب یہ قابل تعریف موڑ آیا؟ کیا خلیفہ اپنے بقاء کی جنگ لڑ سکتا ہے؟ اس کا اثر کیا ہو گا؟
ابتداء میں ایک تیز ترین جائزخلیفہ کا ( عربی خلیفہ جس کا مطلب ہے حکومتی وزارت)۔ اسلامی تاریخ کے مطابق، خلافت کا آغاز ء632 ہجری میں ہوا جب پیغمبر اسلام حضرت محمد کا وصال ہوا، پھر بہت تیزی سے خلافت کا ادارہ سامنے آیا۔ اس نے اسلامی معاشرئے کی ایک وقتی ضرورت کو پورا کیا۔ خلیفہ حضرت محمد کا غیر پیغمبرانہ وارث بن گیا۔ پہلے چار حلفاء کے بعد خلافت سلطنت میں تبدیل ہو گئی۔
شروع میں پیروکار متفق نہیں تھے کہ خلیفہ حضرت محمد کا قریبی رشتے دار ہو یا سب سے نیک ترین مسلمان، اس اختلاف کے نتیجے میں اسلام میں شیعہ،سنی کے فرقے سامنے آئے۔ جس کی وجہ سے آج کا ٹھوس فرقہ وارانہ نظام پنپنا شروع ہوا۔
750ء تک ایک تنہا خلیفہ تمام اسلامی علاقوں پر حکومت کرتا تھا۔ پھردو کام کیے گئے خلیفہ کی طاقت کو کم کرنے کے لیے پہلے دور دراز کے صوبے مرکز سے الگ ہونے لگے --- جیسا کہ سپین ----- اور انھوں نے اپنے ذاتی خلیفہ بھی نامزد کر لیے۔ دوسرا یہ کہ ادارہ خود ہی تباہ ہو چکا تھا اور اس پر غلام فوجیوں اور قبائلی فاتح کا قبضہ ہو گیا۔ چنانچہ خلفاء کے ابتدائی سلسلے نے تقریبا 940 ء تک حکومت کی۔ دوسری سلطنتوں نے بعد میں سیاسی طاقت کا خطاب اختیار کر لیا۔
خلافت کا ادارہ اپنی پوری جان کے ساتھ دس صدیوں تک کام کرتا رہا۔ جب 1924 ء میں ترکی کے بانی کمال اتاترک نے خلافت کے آخری پہر کو بھی ڈرامائی انداز میں معطل کر دیا، بعد میں خلافت کو دوبارہ حرکت میں لانے کے لیے اسلامی اکثریت ممالک بہت سی کوشیش کیں گئیں لیکن خلافت کا ادارہ بے جان ہی رہا۔ یہ گڑ بڑ کی ایک علامت بن گی۔اسلامی اکثریت والے ممالک میں یہ ایک مقصد ہے، جس کی اسلامسٹ بہت شدید خواہش رکھتے ہیں ۔
اوپر آئی- ایس- آئی- ایس کے طور پر دنیا میں قرون وسطی کے عربی جگہوں کو استعمال کرتے ہوئے۔ سب سے نیچے رومن حروف میں ایک ہی نقشے کو دیکھا رہا ہے۔ |
معاملات 90 سال تک ایسے ہی رہےیہاں تک کہ ایک نیا گروپ جو کہ عراق اور شام سے تعلق رکھتا تھا نے 5 زبانوں میں ایک اعلان جاری کیا جس کا انگلش ترجمہ یہ ہے " یہ اللہ کا وعدہ ہے" اس گروپ نے دعوی کیا کہ وہ خلیفہ ابراہیم کی سرکردگی میں ایک نئی خلافت کی بنیاد ڈال رہے ہیں، خلیفہ ابراہیم (آقا ڈاکٹر ابراہیم،اور دا ابراہیم) تقریبا 40 سال کی عمر کے ہیں، یہ سمارا سے تعلق رکھتا تھا، یہ عراق سے آیا اس نے افغانستان میں جنگ لڑی اور پھر عراق میں اب اس کا دعوی ہے کہ وہ مسلمانوں کا رہنماء ہے "ہر جگہ" اور ان کے اتحاد کی قسم چاہتا ہے۔ تمام دوسری اسلامی حکومتیں اپنی قانونی حثیت کھو چکی ہیں۔ یہ اس کا دعوی ہے مزید یہ کہ مسلمانوں کو جمہوریت، سکیولر ازم،قومیت پرستی اور اس طرح کے دوسرئے لبادئے پھینک دینے چاہیے۔
يونيورسل خلافت کی دوبارہ ابتدا کا مطلب "اللہ کے وعدئے کا اعلان ہے"- کہ"اندھیرئے ميں طويل غنودگی ختم" ہو چکی ہے۔ جہاد کا سورج طلوع ہوچکا ہے- اچھائی کی روشنی چمک رہی ہے۔ اورفتح افق پر منڈلا رہی ہے۔ کافروں کو" مشرق و مغرب" ہر طرف خطرہ ہے،انہیں مسلمانوں کے آگےروئے سر زمين پر جھکنا پڑئے گا-
بڑے بڑے الفاظ يقين دلواتے ہیں مگر کسی ايک انسان کے پاس اس کاميابی کا موقع نہيں ہے۔آئی- ایس-آئی-ایس کے پیچھے ترکی اور قطر کی رياستيں ہيں- ليکن شام ميں لڑائی کے لیے ایک گلوبل فوج \دشمنی قائم کرنا پڑئے گی دوسری قریبی طاقتیں ،کردوں ،ایران ،سعودی عریبہ اسرائیل (اور بلاآخر ترکی بھی اس میں شامل ہو جائیگا )اسلامی ریاست کو ایک سخت ترین دشمن سمجھتے ہیں جیسا کہ تمام اسلامی تحرییکیں جنمیں القاعدہ (صرف ایک شامل نہیں ہے:بوکو حرم : بکھرے ہوئے غزہ :اور ایک نئی پاکستانی تنظیم ) خلیفہ کو پہلے ہی عظیم برطانیہ کے سائز کے علاقوں میں حکومت میں مشکل ہو رہی تھی خلیفہ مشکلات پر قابو پا لے گا جیسے جیسے اس کی رعایا کی آبادی بڑھے گی تو مشکلات بڑھیں گیں -13( اگست کو موصل دام کی گرفتاری نا قابل بیان جرائم کی وجہ بنی جس میں بجلی اور پانی کی فراہمی یہاں تک کہ تباہ کن سیلاب بھی آئے میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ اسلامی ریاست زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہے گی -
اگرچہ یہ ایک وراثت چھوڑ دئے گی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس قدر مصیبت زدہ خلیفہ ابراہیم اور اس کے چھوٹے سے گروپ کی قسمت ہو گی۔ انھوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ اسلام کے ایک مرکزی ادارئے کو دوبارہ زندہ کر لیا ہے۔ خلیفہ کو دوبارہ سے ایک حقیقت بناتے ہوئے، اسلامسٹ ساری دنیا میں اس لمحائی وحشیانہ عظمت سے متاثر ہونگے اور اس سے خوش ہونگے۔
غیر مسلموں کے لیے یہ ترقی پیچیدہ اور دوہری اہمیت کا حامل ہے۔ منفی پہلو یہ ہے کہ شدت پسند اسلامسٹ اپنے چھپے ہوئے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مزید حوصلہ پائیں گے، مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ جو اب تک اسلامسٹ ایجنڈا کی خوفناک وحشیانہ خلافت کے خوف سے اگاہ نہیں ہیں اور اب تک سو رہے ہیں جگ جائیں گے۔
مسٹر ڈئنیل پاپئز مڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔