24 نومبر کا "جوائنٹ پلان آف ایکشن" کا ایران کے ساتھ برائے نام پی5 + 1 (چائنہ،فرانس،جرمنی،روس،یوکے اور امریکہ) کا معاہدہ شتی عربوں کے لیے باعث مسرت ہے، سنی عرب کے لیے باعث تشویش ہے اور سعودیوں کے لیے باعث تکلیف ہے۔ سعودی عرب کا ردعمل دوررس اور غیر یقینی حالات پیدا کرئے گا۔
پرجوش مجموں نے ایرانی بات کرنے کے لیے آنے والوں کو خوش آمدید کہا جس کا تعلق جنیوا سے تھا۔ |
ایران کی طرف سے اہم گفتگو کرنے والے کی حثیت سے ، محمد جاوید ظریف ایک معاہدہ لے کر آئے جسکی قیمت ایران کے لیے تقریبا امریکی 23 بلین ڈالر تھی اور عرب شتریوں نے تہران کے ساتھ معاہدہ کیا کہ عراقی وزیراعظم نوری الملکی نے اس اقدام کے لیے اپنی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔
شام کے صدر بشرالاسد نےاس معاہدئے کو " امن اور استحکام کے لیے بہترین راستہ " کہتے ہوئے خوش آمدید کہا۔ لبنان کے پارلیمینٹری سپیکر نبح بیری نے اسے " صدی کا معاہدہ " قرار دیا۔ اور حزب اللہ نے اسے ایران کے لیے "عظیم فتح " کہا۔
شام کے اسد یہاں کھل کے سامنے آئے اور جنیوا معاہدہ کی تقریبات کیں۔ |
سنی عربی بولنے والوں کے لیے ، متضاد ردعمل سامنے آئے نرم حمایت نے قوم کو ناخوش کر دیا۔ سب سے زیادہ پر جوش مصری حکومتی اخبار الحرم تھا جس نے معاہدہ کو " تاریخی " قرار دیا۔ بہت ساری ریاستیں گو مگو کی کیفیت میں رہ گئیں۔ سعودیوں نے بہت زیادہ پریشانی کا اظہار کیا۔ ہاں سرکاری کابینہ نے حکومتی سطح پر بیان دیا " اگر اس کے پیچھے اچھی نیت ہے پھر یہ معاہدہ ایک پہلا ابتدائی قدم ہو سکتا ہے۔ ایک جامع حل کی طرف ایرانی نیوکلیئر پاور کے متعلق" لیکن اس شک و شبہات کی طرف ایرانی نیوکلیئر پاور کے متعلق ان چار الفاظ میں پہنچایا گیا۔"
اگر یہ سب نرم ردعمل تھا،شاید سب سے زیادہ غیر متوقع بیان الولید بن طلال کی طرف سے آیا، ایک سعودی شہزادہ جو کبھی کبھار مشقی غبارئے بھیجا کرتا تھا۔ اس نے ایران کو ایک بڑا خطرہ قرار دیا اور تاریخی طور پر بولتے ہوئے اس بات کو بھی نوٹ کیا " کہ ایرانی سلطنت ہمیشہ مسلم عرب کے خلاف رہی ہے " خاص طور پر سنیوں کے خلاف خطرہ ایران کی طرف سے ہے نہ کہ اسرائیل کی طرف سے۔ ایک حیران کن اور یادگار عوامی بیان ۔
سعودی شہزادہ الولید اپنے ہوائی جہاز کے تخت پر اپنی کمیٹی کے لوگوں کے پیچھے بیٹھا ہے۔ |
الولید نے پھر تفصیلا بتایا کہ کس طرح ایرانی ،عراق،شام،حماس اور لبنان میں ایرانی حماس کے ساتھ ہیں جو کہ "سنی" ہیں غزہ میں یہ فہرست بتاتی ہے کہ سعودی ایرانی ایجنڈوں سے گھیرئے ہوئے ہیں۔ اور زیادہ خطرہ نان نیوکلئیر پالیسی کے نفاذ سے ہے جو کہ انھوں نے اکھٹے مرتب دی ہے، نہ کہ نیوکلئیر پاور سے اتنا خطرہ ہے۔ گریگری گاز یونیورسٹی آف ورمنٹ نے دیکھا کہ سعودی اس بات پر پریشان ہیں کہ یہ معاہدہ ایران کے لیے " بغیر کسی رکاوٹ " کے راستے کھولتا ہے کہ ایران کو علاقائی غلبہ مل سکے۔ ایک اور روز نامے، الشرق نے اس خوف کے متعلق لکھا ہے کہ ایران نے نیوکلئیر معلومات کی فراہمی تسلیم کی ہے تاکہ اس علاقے میں مزید آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ملے۔ (یہ اسرائیل اور مغربی پوزیشن کے خلاف ہے، جس کا مطمع نظر نیوکلئیر خطرہ ہے)۔
سلطنت عبداللہ اکثر،بیرون ملک معاملات کی کمیٹی کے چئرمین نے شوری کا اجلاس بلایا جس میں بیان کیا گیا! کہ وہ ایران کو علاقے میں مزید آزادانہ اختیار دینے پریشان ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایران کی حکومت کے علاقے میں گندئے عزائم سامنے آ رہے ہیں ۔ اور اس حساب سے کوئی بھی علاقے میں سکون سے سو نہیں سکتا اور نہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ علاقے میں امن ہے۔۔۔۔۔۔۔ علاقے کے لوگ جانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کہ ایران کے بہت سے ممالک کی سیاست میں مداخلت کرئے گا۔
سعودی میڈیا اس تجزیے کے خاکے پر فوکس کیا ، الوطن ایک سرکاری اخبار نے اگاہ کیا کہ ایران علاقے میں ، اپنے ایجنٹ دوسرئے علاقوں میں بھیج رہا ہے ، اور ایسا ہر ممکن ذرائع سے کرنے کی کوشش کر رہا ہے : وہ اس معاہدئے کی پابندی قبول نہیں کرئے گا۔ ایک اور روز نامے، الشرق نے اس خوف کا اظہار کیا " ایران علاقے میں نیوکلئیر فراہمی کو تسلیم کر رہا ہے۔ تاکہ اس کے بدلے اسے علاقے میں مزید غلبہ حاصل ہو۔
کچھ تجزیہ نگار خاص طور پر جن کا تعلق چھوٹی خلیج فارس کی ریاستوں سے ہے۔ جبار محمد ایک بحرینی تجزیہ نگار نے پیشن گوئی کرتے ہوئے یہ کہا کہ " ایران اور مغرب ایک معاہدئے پر پہنچ چکے ہیں کہ کس طرح انھوں نے علاقے میں اپنے اختیارات کو تقسیم کرنا ہے، قطری حکومت کے القدس العربی پریشان تھے کہ یہ امریکی ایرانی اتحاد ہے جس کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے۔ اوبامہ کے ایران کے دورئے کی افواہوں نے ان شکوک کو سچا ثابت کر دیا ۔
لندن میں سعودی سفیر شہزادہ محمد بن نواف بن عبد العزیز، نے بہت ہی عجیب عوام کی رائے کا پہلو پیش کیا۔ دھمکی دی کہ "ہم آرام سے نہیں بیٹھے گئے اگر کوئی خطرہ ہوا اور ہم سنجیدگی سے نہیں سوچ رہے کہ اگر علاقے یا ہمارئے ملک کو کوئی خطرہ ہوا تو ہم نے اس کا دفاع کس طرح کرنا ہے"۔ اس کو ہلکا نہیں لینا چاہیے " یہ بتاتا ہے کہ کس طرح سعودی ڈپلومیسٹ اپنے ساتھی مسلمانوں کے بارئے میں بات کرتے ہیں۔
کس حد تک یہ گٹھ جوڑ بیان خطرناک ہو سکتا ہے؟ ایران کی جنگجو حکومت اور اوبامہ کی حکومت کی پرو ایران پالیسیاں اکھٹیں ہو گئیں ہیں۔ سعودیہ کی کئی عرشوں تک واشنگٹن پر انحصار کرنے کے لیے سعودی حکمت عملی کے حوالے سے اور سعودیہ نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ کیسے خود کو بچانا ہے۔ اس کا ملک عربوں کا لیڈر ہے جو کہ سب سے زیادہ بین الاقوامی، قومی ،علاقائی، ثقافتی اور مذہبی اہمیت رکھتا ہے۔ اس نئی دریافت شدہ طاقت، ساتھی مسلمانوں کے خلاف لڑنا، اور اسرائیل کے ساتھ اتحاد شاید پاکستان کے بنئے ہوئے نیوکلئیر ہتھیار حاصل کر رہا ہے اور شايد تہران تک بھی پہنچ رہا ہے --- یہ براک اوبامہ کی زوال شدہ خارجہ پالیسی کا ایک نشان ہے ۔
مسٹر ڈئنیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔