ائے- ایم – جی – پی- پی تمام مسلمانوں کو اعتدال پسند ظاہر نہیں کرتی۔
بلکہ یہ ترقی پسند مسلم یونین سے مشاہبت رکھتی ہے ( اس نے اپنا غیر حقیقی دروازہ ایک ماہ قبل کھولا، اور جس کا تجزیہ میں نے ایک طویل بلاگ اندراج میں کیا۔)۔ دونوں تنظیموں کے اہلکار ایک دوسرئے کے اوپر حاوی ہیں، کچھ بائیں طرف ( احمد نسیف )اور دیگر اسلامی ( سلام المریاٹی )۔ وہ ان سے ایک امریکی احساس کا اشتراک کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کا بنیادی اختلاف پی- ایم- یو سے جو نیو یارک اور ائے- ایم – جی – پی- پی سے جو واشنکٹن میں قائم ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک " جنس اور امت " کی ایک باقاعدہ خصوصیت ہے، جب کے دوسرئے اس کے نام میں " پالیسی کی منصوبہ بندی " کا جملہ استعمال کرتے ہیں۔ ایک ہپ کی کوشش کرتا ہےاوردوسرا بااثر ہے۔ خاص طور پر غیر مسلح کرنے کے لیے ائے- ایم – جی – پی- پی کے اقتدار کو نوٹ کیا گیا ۔
ائے- ایم – جی – پی- پی امریکہ کے کردار کو بہتر بنانے میں مدد کرنے اور مسلم دنیا میں انتہا پسندی ، اور مخالف امریکہ کی لہر کا مقابلہ کرنے میں ایک بہت فعال کردار اداء کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ گروپ محکمہ خارجہ کی طرف سے عوامی سفارت کاری اور رسائی کے معاملات پر ایک قائدانہ کردار اداء کرنے ، اور امریکی پالیسیوں ،خدشات، اور مفادات کے لیے ایک ترجمان کے طور پر کام کرنے کے شوقین ہیں۔
دوسری طرف، یہ زیادہ سے زیادہ فائدہ نکالنے کے لیے کوشش کرتے ہیں :
خاص طور پر غیر مسلح ائے- ایم – جی – پی- پی کے اقتدار کو نوٹ کیا گیا ہے۔ تاہم ایک ایماندار بروکر کا کردار اداء کرنے کے قابل ہو جانے کے لیے ائے- ایم – جی – پی- پی کو اس بات کا بھرپور یقین ہونا چاہیے کہ وہ ان پالیسیوں کا دفاع کریں، اور وضاحت کرنے کے لیے تیار ہیں اور دفاع کے مستحق ہیں۔ اس پالیسی سازی کو صرف اور صرف امریکی مسلمانوں کی شمولیت سے ہی مکمل کیا جا سکتا ہے۔ امریکی مسلمانوں پالیسیوں کا دفاع یا وضاحت نہیں کر سکتے، جن سے ان کو اختلاف ہے اور ان کے بنانے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
دوسرئے الفاظ میں، امریکی گورنمنٹ ہمیں اس معاملے پر اختیار دئے جس کے بارئے میں ہم خیال کرتے ہیں کیا ہم اس کی مدد کریں گے ۔ ائے- ایم – جی – پی- پی کی یہ پیشکش ایک موقع فراہم کرنے کی نسبت ایک خطرئے کی طرح لگتا ہےجو ایک واضح سوال اٹھاتا ہے کہ : اس پالیسی کی نگرانی کے لیے کس طرح کے حکم نامے کا دعوی کیا جا سکتا ہے۔
پی- ایم- یو اور اسلامی تنظیموں کی طرح ائے- ایم – جی – پی- پی بھی پرانے بدنام تصور پر اصرار کرتا ہے کہ " اسلام اور مسلمان امریکہ میں منہدم کیے جا رہے ہیں، ان کے شہری حقوق کی صورت حال خوفناک ہے اور مسلمانوں کو پالیسی مشاورت سے معمول کے مطابق خارج کیا جا رہا ہے"۔ خان بھی ایک پرانا نظریہ سب سے اوپر رکھتا ہے کہ " امریکہ میں بڑھتا ہوا اسلام فوبیا "۔ در حقیقت نفرت پر مبنی جرائم اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے ثابت شدہ مقدمات عددی لحاظ سے شازونادر ہیں۔ مثال کے طور پر یہود مخالف واقعات کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
کیا واقعی ہی ائے- ایم – جی – پی- پی اعتدال پسند تھے، یہ عبدالرحمن الرشید کے ساتھ تسلیم کریں گے کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، " یہ مساوی طور پر یقینی اور غیر معمولی تکلیف دہ بات ہے کہ تقریبا تمام مسلمان دہشت گرد ہیں"۔ باحثیت مسلمان الرشید اس بات پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے " ہم تب تک اپنے ناموں پر سے یہ دھبہ نہیں مٹا سکتے جب تک ہم اس شرمناک حقیقت کو قبول نہ کر لیں کہ ہم دہشت گردی کے لیے اسلامی ادارہ بن گئے ہیں ؛ یہ تقریبا ایک مخصوص اجارہ داری ہے جو تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پر لاگو ہوتی ہے ائے- ایم – جی – پی- پی اس مسئلے کو اپناتے ہوئے اعتدال پسندی کی طرف اشارہ کریں گے۔ اس کو چھپاتے ہوئے اس کے برعکس سے پتہ چلتا ہے۔
مزید برآں یہ کہ، خان امریکہ میں اسلامی تنظیموں کی حکمرانی پر تنقید کرتے بلکہ اس کی اجازت دیتے ہیں، لیکن بیان دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہت سے اعتدال پسند مسلمان " انفرادی طور پر یا کسی امریکی مسلم تنظیم کا مرکزی حصہ بن کر کام کر رہے ہیں"۔
اگر یہاں صرف ایک بات کو مد نظررکھا جائے، کہ ایک تنظیم اعتدال پسند ہوتو وہ خاص طور پر واضح طور پر وہابی لابی کی مذمت کرئے گی،جس نے امریکی مسلمان منظر پر غلبہ کیا ہوا ہے۔
ائے- ایم – جی – پی- پی کے ابتدائی مرحلے میں، اس کے ساتھ انفرادی طور پر منسلک افراد کو پریشان کیا جا رہا ہے، جس میں یحی پاشا (جو کہ اب کالعدم امریکی مسلمان کونسل کا صدر ہے۔)، جان ایسپوسٹیو ( بنیاد پرست اپولوجسٹ اسلامی حمایتی امریکی تنظیم) اور ہادیہ مبارک ( وہابی مسلم سٹوڈنٹ ایسوسیشن کا صدر)۔
ائے- ایم – جی – پی- پی کی ظاہری شکل اس وقت الجھن میں اضافہ کر دیتی ہے ان میں سے کون واقعی حقیقی اعتدال پسند مسلمان ہے۔ میں حقیقی اور جعلی والے اعتدال پسندوں کے درمیان تمیز کرنے کے لیے ایک ابتدائی ٹیسٹ کے طور پر کچھ سوالات کی تجویز پیش کی ہے اور یہ پہلے سے ہی ایک اہم نمایاں کامیابی ہے
لیکن ابھی بھی دوست کو دشمن سےعلیحدہ کرنے کے لیئے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ،جوکہ اتفاقی یا فوری طور پر نہیں ہوسکتا ـ یہ کئی سالوں کے دوران بہت سے ہاتھوں کا کام ہےـ
مسٹر ڈئنیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔