ترکی میں موجودہ بے چینی کی آپ کس طرح وضاحت کریں گے اور تقریبا 65 ودوسرئے شہروں میں؟ خاص طور پر اس کا مقابلہ عرب میں ہونے والی بے چینی پچھلے ڈھائی سالوں کے دوران تونیزیا، لیبیا، مصر،شام، یمن اور بحرین میں۔
بطور ایک ترکی حکمران کے وزیراعظم ایروڈ گان کی تصویر بناتے ہوئے ترکی والے خوش ہو رہے ہیں ۔ |
ایک سطح پر، وہ غیر متعلقہ نظر آتے ہیں کیونکہ ترکی ایک جمہوری ثقافت اور جدید معشیت کے ساتھ بہت زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ لیکن دو تعلقات – شام اور آمریت – ان دونوں کو ایک بندھن میں باندھتی ہے کیونکہ ترک ایک گہری اہمیت رکھتے ہیں۔
بغاوت کہیں اور سے نہیں آتی تھی۔ میں آخری تنازعے کے وقت استنبول میں تھا اور یہ بات واضح نظر آرہی تھی کہ ترک عوام وزیراعظم ایروڈ گان کے آمرانہ رویے سے ناخوش تھے۔ ان کی اسلامی خواہشات کے باوجود میں نے مستقل تنقید سنی اسے" طاقت کے نشے " میں ہونے پر ایک " غیر رسمی خلیفہ " اور " ترکی کا چیف سماجی منتخب انجینئر "
ترکوں نے مجھ سے بیان کی ایک لمبی فہرست دی جس میں آمرانہ علامتیں تھیں، جس کی وجہ سے وہ ایروڈ گان کی حکمرانی میں پچھلے ایک عشرئے سے مشکلات کا شکار تھے۔ ایروڈ گان کی پارٹی جسٹس اور ڈپلومینٹ اور ائے – کے- آر : سیاسی تنقید کا دباؤ، دوستانہ سرمایہ کاری ، عدالتی نظام میں مداخلت، بے وجہ قید، طاقت کی علیحدگی کے خلاف اظہار کیا جہاں ایروڈ گان اپنے مزاج کے مطابق ملک میں قوانین نافذ کرنا چاہتا تھا۔
پچھلے جملے سے ہونے والے احتجاج ان ہی اعمال اور مزید بہت کچھ پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ایک چھوٹی سی تحریک سے شروع ہونے والا جھگڑا جو کہ ایک چھوٹے پارک کے خاتمے سے متعلق تھا تقسیم چوک پر جو کہ جدید استنبول کے مرکز میں واقع ہے جو تیزی سے ناراضگی کے قومی بیان میں تبدیل ہو گیا۔
ایرڈوگان معمر قذافی یا بشیر اسد جیسا نہیں ہیں اور وہ پر امن احتجاج کرنے والوں کا قتل عام نہیں کرئے گا لیکن سخت پولیس ایکشن کی رپورٹ ہے کہ 2300 زخمی ہوئے اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دو اموات ہوئیں۔ اس کے بعد وزیراعظم نے سخت رویہ اختیار کیا نہ صرف اس نے اپنے منصوبے پر عمل کیا بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ وزیراعظم جو پسند کرتا ہے ویسا کر سکتا ہے۔
مریضوں نے فٹ بال شایقئین کو سوچنے کے قابل نہیں چھوڑا اور ایرڈوگان کے خلاف فوجوں کو متحد کر دیا ۔ |
حریت روزنامے میں کچھ اس طرح کا پیراگراف لکھا گیا : " ایک مسجد تقسیم پر تعمیر کی جائے گی۔ ایروڈگان نے کہا اس نے مزید کہا کہ اسے حزب اختلاف کے رہنماء یا چوری کرکے شکار کرنےوالوں سے ان پراجیکٹس کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ لوگوں نے ائے- کے- آر کو ووٹ دئے کر مضبوط بنایا ہے اور اس اتھارٹی کے بعد مزید کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے"۔
دوسرئے الفاظ میں ۔ ایرڈوگان کا موقف ہے کہ عوام نے ووٹ دئے کر اسے ایسے اختیارات دئیے ہیں کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے اور وہ ایسے کہتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ تاہم پریشان احتجاج کرنے والوں نے اور بیرون ملک سرمایہ کاروں نے اس پر کچھ اس طرح بیان دیا،شائد ملک کی چائنہ جیسی معاشی ترقی خطرئے میں ہے۔
خاص طور پر عبداللہ گل ترکی کا صدر اور ایرڈوگان کا حریف بن کر سامنے آرہا ہے۔ اس نے ان احتجاجات کے ساتھ بالکل مختلف طریقہ کار اپنایا۔ " جمہوریت کا مطلب صرف انتخابات نہیں ہیں " اس نے کہا ،" اچھے ادارئے کے ساتھ پہنچائے گئے پیغامات وصول کر لیے گئے۔ "خود کو وزیراعظم سے فاصلے پر۔ گل نے ایروڈگان کی تنہائی میں اضافہ کر دیا۔ جیسا کہ شام نے پچھلا دلکش طاقت کا سال گزارا اور ایرڈوگان نے پہلی بڑی غلطی کی خود کو شام کی سول جنگ میں شامل کر کے اس نے بگھوڑئے کے ا انداز میں اس کے ساتھ مل کر کام کیا جب اسد نے،شام طاقت ورحکمران اور کبھی وہ دوست رہا تھا نے اس کی اصلاحات کی نصیحت کو نظر انداز کر دیا۔ کوئی بھی سخت انکار کروانا اچھا نہیں سمجھتا۔ ایرڈوگان نے جذباتی ردعمل کا اظہار کیا اور باغیوں کو پناہ دئے کر اپنے ملک کو سول جنگ میں دھکیل کر انھیں اسلحہ اور مراعات فراہم کر کے اور ان کی رہنمائی کی کوشش بھی کی۔
ترکی کے حوالے سے تمام نتائج خطرناک ہونے کے قریب تھے۔ ملک نے ماسکو، تہران اور بغداد کے ساتھ نئی دشمنیوں کا تجربہ کیا اور بیرون ملک خلیج فارس اور شام کے ساتھ تجارتی تعلقات کھو دئیے۔ ترکی سر زمین پر انھیں دہشت گردی کا سامنا تھا --- اور سب سے بد شگونی ۔۔۔۔۔ یہ دیکھنے میں آئی کہ سنی حکومت اور ملک کی مسلم آبادی کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ۔
شام کی پچیدہ صورت حال کا شکریہ، جس کی وجہ سے ترکی نے اپنی شاندار طاقت اور شہرت گنوا دی۔ "اس کے زیرو مسائل ہمسايوں کے ساتھ " پالیسی جو کہ اپنی مکمل تکمیل کے ساتھ اس حساب سے سامنے آئی کہ یہ ملک دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔ اگر صدر اوبامہ نےفخریہ اپنے "قریبی تعلق " کا ایرڈوگان کے ساتھ اظہار کیا تھا، پچھلے مہینے دونوں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں نہ تو کوئی ذاتی میلان تھا اور نہ عملی نتائج سامنے آئے۔ سوائے شام کے جسے ایروڈگان نے تلاش کیا۔
مختصر یہ کہ،ایسا لگتا ہے کہ انتخابی سکون کا ایک عشرہ ، سیاسی استحکام اور خاصی مقدار میں بیرونی سرمایہ کاری ایک جمود کا شکار ہو گئی تھی اور ایک نیا مشکل ائے- کے- پی حکومت کے لیے شروع ہو گیا تھا۔ ختم ہوتی ہوئی سیاسی پاڑٹیوں کی آواز سنائی دینے لگی تھی۔ جنگ کے خلاف احساس مضبوط ہو رہا تھا۔ سکیولرسٹ اپنی پریشانی کو سپائل کر سکتے تھے کیونکہ علاقے کی حکومت شہریوں کو سچا مسلمان بنانا چاہتی تھی۔
یہ ایک شاندار خبر ہے۔ ائے- کے- پی کی حکومت میں ترکی غلط سمت میں سفر کر رہا تھا۔ اگرچہ جمہوری نظام تھا کئی صحافیوں کو حکومت نے جیل بھیج دیا اور ایسا اس شدت کے ساتھ کبھی کسی دوسری ریاست میں نہیں ہوا۔ اگرچہ سکیولر ریاست ہے لیکن اس نے اسلامی اصولوں کے نفاذ کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ جیسا کہ پچھلے ہفتے الکوحل پر پابندی اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی شفقت کی بھی مخالفت کر دی گئی۔
اگرچہ شمالی اوقیانوس معاہدہ کی تنطیم کا رکن ہونے کے باوجود ترکی کے چائنے کے ساتھ مل کر جوائنٹ فضائیہ مشق۔ یورپی یونین کا رکن ہونے کے باوجود ترکی نے شنگھائی کارپوریشن کے ساتھ کھیل کھیلا جیسے چائنا اور روس نے 1966 ء میں تشکیل دیا تھا۔ اینٹی نیٹو گروپ کے طور پر اگرچہ ترکی امریکی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ ترکی نے اسرائيل کی یہ کہہ کر تذلیل کی کہ اسرائيل بنانا "انسانیت کے خلاف جرم ہے"۔ اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ۔
ایرڈوگان کی پولیس ان کا باس پرامن احتجاجیوں کو دیکھا رہا ہے |
ان احتجاجیوں کا شکریہ کہ ترکی جس راستے پر جا رہا تھا اس سے واپس آجائے گا مضبوط حکمران اسلامی ۔۔۔ اور بیرونی تعلقات سے غنڈہ گردی شائد ترکی کا سکیولر، جمہوری اور مغربی نواز ثقافتی ورثے سے واپس آسکتا ہے۔
مسٹر ڈئنیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔