آج کی طرح بالکل دس سال پہلے، کویت کو فتح کرنے کے لیے عراقی جنگ کا خاتمہ ایک مکمل ناکامی کی صورت میں ہوا۔ عراقی صدر صدام حسین سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ فورا عراق پر سے اپنا اقتدار چھوڑ دیں گئے، لیکن دس سال پہلے انھوں نے بہت زبردست حکومت کی ہے۔
صدام حسین کا ایک چیف ترجمان اس بات کی ، طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ کیسے اس کا ازالہ کریں گے؟ حتی کے جنوری 1991 ء سے پہلے یہ جنگ پھوٹ پڑی تھی، کیوں اس کے مالک کو اس کے بارئے میں کوئی تشویش نہیں ہے۔ عزیز نے امریکی ریاست کے سیکرٹری جیمز بیکر کو یہ بتایا کہ مشرقی وسطی کی حکومتوں نے، کبھی بھی ایسا نہیں کیا کہ " وہ اسرائیل یا امریکہ کی جنگ میں حصّہ لیں اور سیاسی طور پر ہار جائیں۔" تاہم کسی حد تک مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے ( 1948-49 میں عرب کے رہنماؤں نے اسرائیل سے ہار کی قیمت اداء کی )، بنیادی طور پر عزیز درست تھا: ایک مشرق وسطی کا حکمران ہونے کے ناطے فوجی نقصان کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جب کہ اس کی بجائے ، وہ میدان جنگ میں ہونے نقصانات کی تردید کرتے ہیں اور سیاسی طور پر اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
درج ذیل کچھ مثالوں پر غور کریں:
1956 ء میں ہونے والا سویز بحران : مصر کے صدر جمال عبدالناصر کو برطانوی، فرانسیسی اور اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ذلت بھری شکست کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ وہ اس بات پر با ضد تھےکہ انھیں فتح نصیب ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا یہ ہی خیال تھا۔ اس واقعے کے نتائج نے " انھیں سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے مضبوط کر دیا"، میری لینڈ یونیورسٹی کے عابد شکری لکھتے ہیں کہ ، نصیر کی مدد کرنے سے وہ عرب کی سیاست میں ایک نمایاں شخصیت بن کر ابھرئے۔
1967 ء کی چھ روزہ جنگ: اسرائیل کے ہاتھوں تباہ کن شکست نے نصیر کو اپنا استعفی دینے پر مجبور کر دیا، مصریوں نے ایک بہت بڑئے پیمانے پر سڑکوں پر مظاہرئے کر کے اس کا ساتھ دیا اور اسے اقتدار میں رہنے کے لیے واپس بلایا( اس نے ایسے ہی کیا)۔ 1967 ء میں شام کے وزیر دفاع حافظ الاسد، اپنے ملک کے صدر بن گئے۔
1968 ء میں ہونے والی کراما کی جنگ : یاسر عرفات الفتح کو اسرائیلیوں کے ساتھ اپنی پہلی بڑی مسلح جنگ میں شکست ہوئی، لیکن پھر بھی اس نے فتح کا دعوی کیا ۔
1973 ء میں ہونے والی یوم کپور کی جنگ: اسرائیلی فوجوں نے مصریوں اور شامیوں کو خوب مارا پیٹا، لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے ایک بار پھر جنگ کے نتائج پر سے ایک بہت بڑی کامیابی کے طور پر پردہ اٹھایا
1982 ء میں بیروت کا محاصرہ: عرفات نے بیروت میں ہونے والی ذلت آمیز شکست کو ایک سیاسی فتح میں تبدیل کر دیا، یہ بات بہت پرزور طریقے سے کہی کہ اسرائیل کے پاس 88 دن ہیں، اس کے مقابلے میں دیگر عرب افواج کو شکست دینے کے لیے بہت زیادہ دن ہیں۔
آج ان واقعات کو ایک شاندار فتح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ سالوں بعد حماس یہ داستان سناتا ہے کہ فلسطین نے 1982 ء میں اسرائیل کو "ذلیل" کیا اور " اس کی قرارداد کو توڑ دیا۔"
لیکن اس حیران کن طریقے کی کس طرح وضاحت کی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کے تین پہلؤ اس کے نتائج کے لیے مدد کر سکتے ہیں۔
- یادگاری چیزوں کو بہت زیادہ عزت کا نشان سمجھا جاتا ہے؛ درحقیقت ان سے کیا حاصل ہوا اس کی نسبت زیادہ تر توجہ ان کو اصل حالت میں برقرار رکھنے پر دی جاتی ہے اور اپنی عزت کے لیے ان کو زیادہ شمار کیا جاتا ہے۔ حسین سومیدیا ایک عراقی جلا وطن ،1991 میں صدام حسین کی دنیا میں سب سے زیادہ کی جانے والی محرکات کی وضاحت کرتا ہے: " جیتنا کوئی معنی نہیں رکھتا" جو بھی کوئی مسئلہ ہو اس کو ایک اچھے منظر کے طور پر دیکھاؤ اور سلگتے ہوئے عرب کے ذہنوں اور دلوں سے فائدہ اٹھاؤ۔"
- مسلمان حکمرانوں کا تقدیر پر ایمان رکھنا ان کو ملامت سے بچنے کے لیے ایک راستہ بتاتا ہے۔ یہ سب کچھ کارڈ میں موجود تھا،ہم کیا کر سکتے تھے؟ کیلی فورنیا سٹیٹ یونیورسٹی کے اسد ابوخلیل کہتے ہیں کہ شکست کے وقت ،عربوں کے رہنماء ایک مجموعی رویہ اپنا لیتے ہیں۔ "لوگ ان کاموں اور اعمال کی وجہ سے کسی طرح بھی متاثر نہیں ہوتے یا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اعمال کا حساب صرف خدا لیتا ہے۔ " اس بات کا بہانہ بنانہ "کہ تقدیر سے فرار ممکن نہیں" عرب حکومتوں اور افواج کو معافی دینے کی ذمہ داری قبول کرنی پڑتی ہے۔ وہ درست طریقے سے اس بات کو نوٹ کرتے ہیں کہ یہ ، طریقہ کار " پیشن گوئی کرنے کے نقطہ نظر کے لحاظ سے بہت عام ہو گیا ہے۔"
- سازشی نظریات اس قدر غالب ہوچکے ہیں کہ مغرب کے ساتھ ہر قسم کی محاذ آرائی ( جس میں اسرائیل بھی شامل ہے) میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ مغربی ارادہ یہ ہے کہ عرب کےحکمرانوں کو تباہ وبرباد کیا جائے اور ان کے ممالک کو فتح کیا جائے۔ مثال کے طور پر، مصری، اس بات پر بہت پکا یقین رکھتے ہیں کہ برطانوی اور فرانسیسی حکومتوں نے 1956 ء میں نصیر کر ختم کرنے اور مصر پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جب یہ تباہ کن نتائج رونماء ہونے میں ناکام ہو گئے، تو ان کی بقاء محض ایک شاندار فتح کے مترادف بن گی۔
مشرق وسطی میں جینے کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ میدان جنگ میں دشمن کو شکست دی جائے؛ اس کے لیے حکمران اور ان کی حکومت کو ہر صورت ختم ہونا چاہیے۔ اس طرح عراق پر پالیسی کے منفی اثرات کا مرتب ہونا واضح ہو گیا۔