مصر کے ہوائی جہاز 990 کا گرنا ( 31 اکتوبر کو) نے امریکہ اور مصر کے درمیان بہت سے اختلافات کو ظاہر کیا امریکی نقطہ نظر کے مطابق انکوائری بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ کیا غلط ہوا اس بات کا اندازہ لگاتے ہوئے،مطلب ثبوت کا تجزیہ کرتے ہوئے اور بہترین وضاحت بیان کرتے ہوئے اس تباہی کی، امریکی عوام عام طور بحری ریکوری اسکواڈ پر اعتماد رکھتی ہے۔ ذرائع آمدورفت سے متعلق ماہرین اور قانون نافذ کرنے والے افسران اپنا کام کرتے ہیں۔
ایسا مصرمیں نہیں ہے۔ مصر کی عوام اپنی حکومت پر بہت زیادہ بد اعتمادی رکھتی ہے اور جواز کے طور پر آمریت اور دھوکے کی لمبی تفصیل بیان کرتی ہے۔ مصری عام طور پر سازشی پالیسیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اور اس کے لیے ہمیشہ تین مجرموں کو نامزد کرتے ہیں برطانیہ، امریکہ یا یہودی۔ جون 1967 ء میں صدر گیمل عبدالنصیر پکڑئے گئےٹیپ پر عراق کے بادشاہ حسین کو تجویز دیتے ہوئے ، کہ دو رہنماء غلط دعوئے کر رہے ہیں کہ ان کی فوجوں کی شکست امریکہ اور برطانیہ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ 1990 ء میں جب مصر کی ٹماٹروں کی فصل تباہ ہو گئی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ مصر کے ایک وزیر جو کہ ایک چوتھائی یہودی ہے نے تیزابی بیج اسرائیل سے منگوا کر اس فصل کو تباہ کیا ہے۔
سازشی سوچ ہر جگہ پائی جاتی ہے، لیکن مشرق وسطی میں یہ اعلی ترین سطح پر پائی جاتی ہے۔ حکومت میں، میڈیا میں، حتی کہ مذہبی اداروں میں بھی۔ سازشی نظریات دانوں کے لیے 990 ء کی پرواز خاص طورپرایک سازشی تحریک ابھارنے کے مقصد کے کام آئی۔ مصر کے 33 فوجی افسران اس حادثے کا شکار ہوئے،مزید یہ کہ یہ حادثہ نیو یارک میں ہوا جو کہ دنیا کا سب سے زیادہ یہودی آبادی رکھنے والاملک ہے اور یہ بہت سے مصریوں کو قائل کرنے کے لیے کافی تھا کہ کسی نے خاص طور پر مصریوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے جہاز گرایا ہے۔
ایک لمحے کے لیے بھی مصریوں نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ ریلیف پائلٹ جمیل الطوطی نے ارادتا جہاز کو گرایا
وہ اس بات کا تصور نہیں کر سکتے تھے کہ ایک نیک مسلمان اور سابق فوجی اس طرح کا ذلت آمیز کام ملک اور اپنے خاندان کو نقصان پہنچانے کے لیے کر سکتا ہے۔ جب امریکیوں نے کوشش کی کہ بطوطی کی بار بار دہرائی جانے والی بات کی وضاحت کریں۔ " مجھے اللہ پر یقین ہے " مصریوں نے اسلام کے خلاف تعصب دیکھا۔
چنانچہ مصری اس بحث میں پھنس گئے آیا کہ مجرم اسرائیلی یا امریکن ہیں یا پھر دونوں۔ ایک مصری جس کی مغربی میڈیا تک رسائی نہیں ہے اس کے پاس یہ جاننے کا کوئی راستہ نہیں ہے کہ بطوطی کے خلاف ایک سنجیدہ کیس قائم ہو چکا ہے۔
حکومت اکثر امریکہ پر الزام لگاتی ہے۔ ایک سرکاری اخبار الجمہوریہ مینیجینگ ایڈیٹر امریکی فضائی میزائل -- کے بارئے میں کہتا ہے، یا شائد ایک لیزر کی شعاع ، جس نے فضائیہ کے جہاز کو نیچے گرایا۔ المصور ہفتہ وار شمارئے میں محمد بکری بھی بیان کرتا ہے کہ کس طرح سے ایک جہاز نو فلائی زون کی طرف بھٹک گیا اور فورا تباہ ہو گیا ایسا جہاز جس میں کچھ انتہائی اہمیت کی حامل معلومات تھیں یا شائد امریکی فضائی ٹریفک کنٹرولر نے جان بوجھ کر خطرناک راستے پر بھیجا۔
ایک قائل کرنے والی نقطے کی دلیل مسٹر بکری نے ڈھونڈلی کیونکہ یہودی " امریکی ائرپورٹ پر مضبوط مواصلات کا نیٹ ورک رکھتے ہیں "۔
مصر کی ذرائع امدورفت کے وزیر نے پارلیمینٹری کمیٹی کو بتایا کہ بوئنگ 767کا بنانے والا جو تباہ ہو گیا تھا مصر کو ایک قربانی کا بکرا بنانے والا تھا۔ یہ ائیر لائن ایک پروڈکشن کمپنی تھی جو اپنے دفاع میں یہ وضاحتیں دئے رہی تھی ۔ مصر کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے اس پر مزید کہا کہ یہ حادثہ جان بوجھ کر کر کروایا گیا اور ٹارگٹ وہ فوجی افسران تھے جو اس جہاز میں سوار تھے۔
مخالفین روز اسرائیل پر الزام لگاتے ہیں ۔ موسلڈ کی شمولیت کا ثبوت مصری جہاز کو گرانے میں " العربی کے فرنٹ صحفے پر ایک بہت بڑا بینر اس بات کا غماز ہے۔ الوفد کے چیف ایڈیٹر نے فرنٹ صحفے پر یہ لکھا کہ " اسرائیل کے ہاتھ دور نہیں ہیں "۔ حادثے سے یہ دلیل دی کہ اسرائیلی ریاست کبھی بھی اس موقع کو نہ گنواتی جو اسے 33 تربیت یافتہ فوجیوں کو ختم کرنے کا ملا۔
ایک جہاز کے گرنے نے مصر میں ایسا نفرت والا احساس ابھارا جس کے دو نتیجے سامنے آئے۔ پہلا 20 سالہ رسمی امن مصر کا اس کے ہمسایوں کے ساتھ رویہ بہتر بنانے میں کسی کام نہ آیا۔
دوسرا ،یہ کہ اگرچہ مصریوں کے احساسات کے احترام میں واشنگٹن بہت احتیاط کے ساتھ جہاز کی تباہی کی انکوائری کر رہا ہے۔ ۔ یہ حساسیت بڑھتے ہوئے بحران کو برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس کے باوجود کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ جسے " لمبی اور قریبی دوستی کہتا ہےجو کہ مصر کے ساتھ 25 سال پرانی ہے۔ امریکہ اور مصر کے درمیان خلیج بڑھ رہی تھی۔ جہاز کے گرنے کی تحقیق کرتے ہوئے واشنگٹن کو سچ کا ساتھ دینا چاہیے، چاہے وہ کسی کے بھی خلاف ہو۔ امریکہ کو قاہرہ کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا جائزہ لینا چاہیے ، جوحقائق تحقیق کے بعد سامنے آئے ان کی بنا پر جو کہ ایک لمبے عرصے سے آٹو پائلٹ پر تھے۔
مسٹر ڈئنیل پاپئز میڈل ایسٹ کے صدر ہیں اور تمام حقوق محفوظ ہیں۔